پاکستان ڈائری - بیویوں پرشوہروں کا تشدد

عورتوں کو عمومی طور پر ان کے گھر والے مار پیٹ کا نشانہ بناتے ہیں خاص طور پر خواتین شوہر اور بوائے فرینڈ زکے ہاتھ سے مار کھاتی ہیں۔ اس کو اتنا نارمل لیا جاتا ہے کہ خواتین کو کہا جاتا ہے کہ مرد تو غصے والے ہوتے ہیں عورت کو برداشت کرنا چاہیے

1931750
پاکستان ڈائری -  بیویوں پرشوہروں کا تشدد

پاکستان ڈائری - 02/2023

قرات العین حیدر آباد سے تعلق رکتی تھئ اور پھول جیسے بچوں کی ماں تھیں۔ کچھ سال قبل عمر میمن کے ساتھ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئی اور اپنی گھریلو زندگی میں مصروف ہوگئ۔ اللہ نے اسکو بیٹے بیٹیوں کی نعمت سے نوازا۔ پر اسکی زندگی میں سکون نہیں تھا وہ چپ کرکے سہتی رہی کہ اس کے ساتھ کیا بیت رہا ہے ۔ اس کا شوہر اسکو گھریلو تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔ وہ روز مار کھاتی تھی اور اپنے زخموں کو میک اپ تلے چھپا لیتی تھی۔

وہ بہت خوبصورت تھی بہت سلیقہ شعار تھی لیکن پھر بھی اسکا شوہر اسکو مارتا وہ خود شراب نوشی کا عادی تھا دوسری خواتین کے ساتھ مراسم تھے۔ گھر آکر شراب کے نشے میں دھت قرات العین کو مارتا اور چار معصوم بچے یہ سب دیکھتے۔ ایک دن اتنا مارا کہ بیچاری دھان پان سی قرات العین اپنی زندگی کی بازی ہار گئ۔ یہ سب چار معصوم بچوں نے دیکھا کہ کس طرح ان کے سفاک باپ نے انکی معصوم ماں کو مار دیا۔ اس کے بعد ہر طرف شور مچ گیا کہ اس معصوم عورت کو انصاف دیا جائے کاش کہ کوئی اس کی زندگی میں بولا ہوتا کسی نے اس کی زندگی میں اسکو اس مار پیٹ سے بچایا ہوتا تو وہ زندہ ہوتی ۔ پر ایسا نہیں ہوا وہ چلی گئ تو معاشرے نے اس کے لئے آواز بلند کی۔ عمر میمن ایک امیر اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا لیکن انصاف ہوا اور عمر میمن کو دس لاکھ جرمانہ اور پھانسی کی سزا سنا دی گئ۔ یہ فیصلہ حیدر آباد کے کرمنل ٹرائل کورٹ نے سنایا۔ ۱۵ جولائی ۲۰۲۱ کو عمر نے عینی کا قتل کیا تھا جس کے چشم دید گواہ انکے بچے بھی تھے۔ آخر کار ۲۰۲۳ میں انصاف ہوگیا پر بچوں کو انکی ماں ہیں مل سکے گی نہیں۔ کچھپاکستانی مرد ایسا کیوں کرتے ہیں وہ کیوں اپنی شریک حیات پر زندگی تنگ کردیتے ہیں۔ پھر وہ چپ کرکے مار کھاتے کھاتے دنیا سے چلی جاتی ہیں اور ایسے مرد جیل میں سڑتے ہیں۔ اس سب کا خمیازہ معصوم بچے اٹھاتے ہیں۔

عورتوں کو عمومی طور پر ان کے گھر والے مار پیٹ کا نشانہ بناتے ہیں خاص طور پر خواتین شوہر اور بوائے فرینڈ زکے ہاتھ سے مار کھاتی ہیں۔ اس کو اتنا نارمل لیا جاتا ہے کہ خواتین کو کہا جاتا ہے کہ مرد تو غصے والے ہوتے ہیں عورت کو برداشت کرنا چاہیے۔ ساری زندگی عورتیں مار کھاتی ہیں یہ ہر طبقے کا مسئلہ ہے امیر غریب عورتیں اس استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔

پھر ایک دن پتہ چلتا کہ اس مارپیٹ کی وجہ سے وہ عورت مر گئ تو سب کو حقیقت معلوم ہوتی ہے ۔پھر سب دکھ میں آتے ہیں اور اس کے لئے آواز بلند کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کی زندگی میں ہی آواز اٹھائیں تو کتنا اچھا ہو۔ یہ دکھ تکلیف مار عورت نے میک اپ کے پیچھے تو کبھی نقاب کے پچھے چھپائی ہوتی ہے۔ میں سیڑھیوں سے گرگئ تھی، مجھے لاک لگ تھا اہو مجھے الرجی ہوگئ ہے یا مجھے بخار ہوگیا۔ بس کچھ طبعیت ٹھیک نہیں معاشرہ عورت کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے اور ایک دن جھوٹی عزت کا بھرم رکھتے رکھتے عورت مر جاتی ہے۔کبھی خواتین پر تیزاب پھیکنا جاتا ہے تو کبھی چولہا پھٹ جانے سے مرجاتی تھیں ان کو کاروکار کردیا جاتا تھا یا انکے ریپ ہوتے تھے اب تو گلے تک کاٹ دئے جاتے ہیں۔ یہ کیوں ہورہا ہے یہ اس لئے ہورہا ہے کہ عورتوں کو چپ رہنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ بس پھر وہ مظالم سہہ سہہ کر ختم ہوجاتی ہیں۔ اس لئے خواتین کو تحفظ دیں اور ان پر اٹھنے والے ہاتھ کو روکیں۔ میری دعا ہے قرات العین کے بچوں کو ایک اچھی زندگی ملے اور وہ اپنے والدین کے دکھ کو باہمت طور پر سہہ سکیں۔

 



متعللقہ خبریں