تجزیہ 13 (یا یہ ٹرینٹزم ہے؟)

بڑھتی ہوئی اسلام دشمنی کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا جائزہ

1171844
تجزیہ 13 (یا  یہ ٹرینٹزم ہے؟)

آسڑیلیا کے سفید فام نسل پرست برنٹون ٹیرنٹ  کے نیو زی لینڈ میں 50  مسلمانوں کے شہید  ہونے والے دہشت گرد حملے بعد  دہشت گردی کو ایک طریقہ کار کے طور پر استعمال کرنے والے نسل پرست اور  انتہائی دائیں بازو کے نظریات کی کس طریقے سے تشریح کرنے کی ضرورت پر بحث   ایک    بار پھر زور پکڑ گئی ہے۔ انہیں  اس وقت عمومی طور پر "اسلامو فوبیا دہشت گردی"،" اسلام مخالف  دشمنی" اور "اینٹی اسلام ازم" کے ناموں سے بیان کیا جاتا ہے۔

  انقرہ یلدرم بیاضید یونیورسٹی کے شعبہ سیاسی علوم کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر قدرت بلبل کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ۔۔۔۔۔

اینٹی سیمی ٹزم ۔ اینٹی اسلام ازم

بیسویں  صدی میں مغرب میں  رونما ہونےو الی یہودی نفرت اور یہودیوں کے خلاف سر زد کردہ غیر انسانی  فعلوں کو ایک عام  نظریے کے مطابق اینٹی سیمی ٹزم کے نام سے منسوب  کیا جاتا ہے۔ اس سے ملتے  جلتے طریقے سے مسلمانوں کے خلاف ہر گزرتے دن بڑھنے والے پر تشدد واقعات اور دہشت گرد  کاروائیوں کو اینٹی اسلام ازم ، اسلام دشمنی کی طرح کے نظریات  سے  منسوب کرنا،  کسی غیر انسانی  المیہ      کا خیال ذہن میں لانے  اور اینٹی اسلام ازم کے اینٹی سیمی ٹزم کی طرح ہو سکنے  کے تصور کو بیدار کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ  اس قسم کے ناموں سے منسوب کرنا، مسئلے کا منبع ہونے والی ذہنیت  کو منظر عام پر نہیں لاتا۔ اس مسئلے کو زیادہ تر متاثرین کے  ساتھ بیان کرنے  کی کوشش کی جاتی ہے  جو کہ مسئلے کو پیدا  اور عملی شکل دینے والوں کو پسِ پردہ کر دیتی ہے۔

دوسری جانب مغرب کی ماضی قریب کی حقیقی دھمکی محض  اسلام مخالف نظریات  پر مبنی نہیں  ۔جیسا  کہ ٹیرنٹ کے  مغربی معاشروں میں سفید فام کے علاوہ کے طبقوں کے قتل کے علاوہ کوئی دوسرا حل چارہ نہ ہونے  کو تفصیلی بیان کرنے والے دہشت گردی مینی فیسٹو  میں مشاہدہ ہوا ہے، سفید فاموں  کے علاوہ  کے تمام ترطبقے خطرات سے دوچار ہیں۔ نسل پرست سفید فام اور انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے  حامل  سفید فام مغرب کے علاوہ کے معاشروں کے سفید فام لوگوں  سے ہٹ کر ہیں اور یہ صرف اور صرف مغربی ممالک میں ہی آباد ہیں۔

فاشزم، نازی ازم، سیو نزم

ہم  جس نظریے  کے متلاشی ہیں دراصل یہ کافی نیا اور اس کے  حلقوں کے نامعلوم ہونے والا یک نظریہ نہیں ہے۔ ہم اس کے بالائی عنوان سے آگاہ ہیں: جو کہ نسل پرستی ہے۔ تا ہم ہمارے سامنے ہونے والی  صورتحال  نسل پرستی سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے۔ موجودہ حالات ، معمول کے مطابق اپنی نسل کو پسند کرنے ، اس کے لیے کام کرنے ، اس کو پیش پیش  رکھنے کا مقصد ہونے والی نسل پرستی نہیں ہے۔ اس سے  ہٹ کر  یہ اپنی نسل، طرز ِ زندگی کے لیے دیگر نسلوں اور مختلف طرزِ زندگی کو ختم کرنے کا مقصد ہونے والی  اور اس کے لیے خطہ یورپ میں اکثر و بیشتر مشاہدہ ہونے والی معبدوں، انسانوں کو اپنے گھروں  میں زندہ  جلانے ، ہر طرح کے دہشت گرد حملے کو ایک طریقہ کار کے طور پر اپنانے والی نسل پرستی ہمارے سامنے ہے۔ اس سےمشابہہ حالات کے لیے لٹریچر میں  بہت  سارے نظریوں کا وجود ملتا ہے ۔ فاشزم کو  ایک طرح کی حکومتی نسل پرستی کے طور پر  بیان کیا جا سکتا ہے۔ جبکہ نازی ازم   حکومت کو اپنے لیے  ایک آلہ کار کے طور پر دیکھنے والی  اور جرمن باشندوں کی بالا دستی پر مبنی ایک قومی نسل پرستی ہے۔ سیونز م کی  قوم و مذہبی نسل پرستی  کے آمیزے کے طور پر بھی تشریح کی جا سکتی ہے۔  سیونزم تھیوڈور ہیرلز کی طرف سے  وضع کردہ ایک نظریہ ہے  جس کے مطابق یہودی  ایک اعلی قوم  ہے ، جسے اللہ تعالی نے ترکی کے بھی ایک حصے کے شامل ہونے والی سر زمین کا عند یہ دے رکھا ہے ،اس بنا پر اس سرزمین کے حصول کے  لیے  ہر طرح کا اقدام جائز ہے ۔ راجر گراؤدی    کا کہنا ہے کہ سیونزم نسل پرستی اور سامراجیت پر مبنی  ایک آئیڈیالوجی ہے۔اسرائیل کی جانب سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں، عالمی قوانین، حقوقِ انسانی اور بنیادی  آزادی کو نظر ِ انداز کرتے ہوئے فلسطینیوں  کے ساتھ کی گئی زیادتیوں کا کئی ایک آکٹوسٹ اور مفکر ہٹلر  کے یہودیوں سے برتاؤ سے موازنہ کرتے ہیں۔ بلا شبہہ تمام تر یہودی طبقہ سیونزم  پر  عمل پیرا نہیں ہے۔ سیونزم کو مکمل طور پر مسترد کرنے والے، یہودیوں کے لیے  کسی مملکت کے قیام کے اپنے دین کے منافی ہونے  اور اس بنا پر اسرائیل کو تسلیم  نہ کرنے والے اورتھا ڈکس یہودی  باشندوں کا بھی وجود ملتا ہے۔

وائٹ ازم ؟ ،واسزم؟،  ٹرینٹزم؟

اگر ہم فاشزم  کی ریاستی پرستی، نازی ازم کو قوم پرستی اور سیونزم کو مذہب  پرستی  کے طور پر تشریح کریں تو  ہمیں دراصل  جس  نظریے پر بات کرنی ہو گی   وہ دراصل رنگ پرستی ہے۔ سفید فام  کی فوقیت ، دہشت گرد ی کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے والے سفید فام پرستی   کے نظریے  کے  سامنے حد درجے ناکافی اور معصوم  دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ موجودہ حالات میں سفید فام نسل کی برتری  ایک عقیدے سے  نکلتے ہوئے عقیدہ دہشت گردی کے جوا ز  میں بدل چکی ہے۔ 

ضرورت ہونے والے  نظریے کے بارے میں صحیح معنوں میں ہم اگر کوئی  فیصلہ نہ بھی کر پائیں تو بھی یہ جانتے ہیں کہ اسے کہاں سے پیدا کیا جائے اور کس طرف اشارہ کیا جائے۔ یہ نظریہ  دہشت گردی اور تشدد کو ایک طریقہ کار کے طور پر  اپنانے والے سفید   فام پرستوں کی دماغی دنیا سے  جنم پانا چاہیے۔  اس نکتے پر فاشزم اور نازی ازم کو ذہن میں لانے والے اور ان  کے ہمراہ بیان کیے جا سکنے والے  واسزم یا پھر وائٹ ازم نظریے کو جنم دی جا سکتی ہے۔واسزم  کو اگر وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائے تو  اسے سفید فام نسل پرست دہشت گردی، اجنبیت اور نفرت کی طرف اشارہ کرنے والے  ایک نظریے کے طور پر قلیل مدت کے اندر قبول کیا جا سکتا ہے۔ تا ہم اس صورت میں جیسا کہ ہم نے گزشتہ قسط میں اشارہ دیا تھا  ایک مسئلے کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔ عیسائیت کے نام  پر کی گئی دہشت گردی  کو عیسائی دہشت گردی اور دین ِ اسلام کے نام پر ہونےو الی دہشت گردی کو اسلام دہشت گردی کہا جانا ان عقائد سے تعلق رکھنے والوں کی ایک کثیر تعداد کے لیے  ایک بہتان بن جائیگا۔ اسی طرح سفید فاموں  کے نام پر دہشت گردی کا سہارا  لینے والوں کی بنا پر تمام تر سفید فام لوگوں کو نشانہ بنانے والی کسی لسان اور مؤقف سے ہمیں گریز کرنا چاہیے۔ اگر ہم نازی ازم کو جرمن باشندوں سے جدا کرتے ہوئے قومی نسل پرستی، سیونزم کو یہودیوں سے علیحدہ کرتے ہوئےقوم ومذہبی نسل پرستی کی نگاہ سے  دیکھتے ہیں تو  پھر ہمیں سفید فام  نسل پرستی  کو اس نظریے کے حق میں نہ ہونے والوں   سے جدا کرنے والی کسی اصطلاح کو استعمال کرنا ہوگا۔ اس نکتے پر مینی فیسٹو  میں تحریر کرنے  کے باعث سفید فام نسل پرستی  کو آلہ کار بنانے والی دہشت گردی کو ٹرینٹزم سے  منسوب کیا جانا ذہن میں آسکتا ہے۔ ٹرینٹزم کو تمام  تر سفید فام باشندوں کے لیے نہیں بلکہ مینی فیسٹو میں اشارہ   کردہ دہشت گردی کو ایک طریقہ کار کی نظر سے جائز قرار دینے والوں کے لیے استعمال کیا  جا سکتا ہے۔ اگر اس معاملے میں کوئی دوسرے نظریے   سامنے لائے جانے ہیں تو پھر  اس تفریق کو  بالائے طاق رکھنے والے  نظریات   کو ہی زیر غور لانا ہو گا۔

نتیجتاً بنیادی حقوق و آزادی، اظہارِ خیال کی آزادی،  زندگی کے حق کو پاؤں تلے روندنے والے  اور دہشت گردی کو ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرنےو الی سفید فام نسل پرستی  اور انتہائی دائیں بازو کی دہشت گردی کے لیے  کسی ایک نظریے اور تشریح کی ضرورت  واضح اور عیاں ہے۔ اس ضمن میں  پیدا کیا جانے والا کوئی بھی نظریہ ، متاثرین کو   نشانہ بنانے سے ہٹ کر مجرم  کی دماغی  سوچ  کو آشکار کرنےو الا اوراس  ذہنیت کو   مجرم قرار دینے پر مبنی ہونا چاہیے۔ یعنی فاشزم، نازی ازم اور سیونزم کا خیال ذہن میں لانے والا اور ان کے ہمراہ اسے مجرم قرار دینے والا ، سفید فام نسل کی فوقیت  کی بنیاد پر تا ہم تمام تر سفید فاموں کو داخل نہ کرنے والا  ایک نظریہ ہی اس دہشت گردی کی تشریح کر سکے گا۔



متعللقہ خبریں