عالمی نقطہ نظر 25

یوم مہاجرین کے حوالے سے انقرہ  یلدرم بیاضت یونیورسٹی  کی فیکلٹی آف پولیٹکل سائنسز  کے ڈین  قدرت  بلبل کا جائزہ

996136
عالمی نقطہ نظر 25

 

 22 جون " عالمی  یومِ مہاجرین" کے طور پرقبول کیا جاتا ہے۔ انسانی نسل سے تعلق رکھنے اور ہمارے ساتھ ہی زندگی بسر کرنے والے لیکن ان کے مسائل کو نظر انداز کرتے ہوئے   صرف ان کے بارے میں   اپنے آپ کو بات چیت  تک ہی محدود کرتے ہوئےاور مسائل کے حل کی جانب کوئی  توجہ دیے بغیر  منایا  جانے والا دن   موجودہ دور میں   عالمی  مہاجرین کے دن کے طور پر منایا جا رہا ہے۔

انقرہ  یلدرم بیاضت یونیورسٹی  کی فیکلٹی آف پولیٹکل سائنسز  کے ڈین  قدرت  بلبل  کا اس موضوع سے متعلق   جائزہ۔۔۔۔۔

موجودہ دور میں اس دنیا میں  65 سے 70 ملین  مہاجرین یا پناہ  گزینوں کا ذکر کیا جاتا ہے۔اس لحاظ  سے یہ ان  مہاجرین کی تعداد   دنیا کے  20  ممالک کی آبادی کے لگ بھگ    ہے۔ اپنی سرزمین سے محروم کیے جانے والے  افراد کی تعداد  چار سو ملین کے لگ بھگ ہے ۔

ان سے ان مہاجرین  کے مسئلے کا کتنا بڑا مسئلہ ہونے کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ان کی تعداد دراصل  صاحِب وجدان انسانوں کے لیے  کس قدر     باعثِ  کرب  ہے اس کا اندازہ لگانا بڑا مشکل ہے۔  علاوہ ازیں  کئی بار  اتنی بار تعداد کی حقیقت کو ہم  فراموش کرتے ہوئے   ان کے  آنسووں،  ان کی اموات   اور ان پر ہونے والے ظلم و ستم  کو بھی بھول جاتے ہیں حالانکہ ان مہاجرین میں سے ایک ایک بچے  ، ایک ایک  خاتون اور ایک ایک انسان کی الگ ہی  ٹریجڈی موجود ہےلیکن بد قسمتی  سے اتنی بڑی تعداد میں مہاجرین یا پناہ گزین موجود ہونے کی وجہ  ہم ان سب کے دکھ و درد کو  قریب سے نہیں جان سکتے۔  ان پناہ گزینوں  یا مہاجرین کے دکھ و درد کا سلسلہ وہاں ہی سے شروع ہو جاتا جب یہ  لوح اپنی آبائی سرزمین  کو ترک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔  جس دن یہ  مہاجرین اپنی آبائی سرزمین کو ترک کرتے ہیں اسی روز  دکھ و درد کا لامتناہی سلسلسہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیا کبھی کوئی انسان بلا وجہ اپنی سرزمین کو ترک کرنے یا چھوڑنے کا سوچ بھی سکتا ہے نہیں ہرگز نہیں۔ کیا وہ سینکڑوں سالوں سے بسر کی جانے والی سرزمین کو ترک کرتے ہوئے پُر خطر انجانے  راستوں  اور سرزمین کی جانب اپنے سفر کو جاری رکھنا چاہے گا۔ ہر گز نہیں۔ ہجرت  دراصل انسان  بہتر مستقبل بہتر حالات  حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔ وہ اس کا فیصلہ انتہائی کٹھن اور مشکل حالات میں کرتا ہے جب اس کے پاس کوئی اور چارہ کار باقی نہیں بچتا ہے۔

اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ جن ممالک کے پناہ گزین یا مہاجرین موجود ہیں ان میں  شام، افغانستان، جنوبی سوڈان اور صومالیہ شامل ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ  سن 2010 تک دنیا میں سب سے زیادہ پنا گزینوں کو اپنے ہاں  پناہ دینے والے ممالک میں شامل  شام  اب دنیا میں سب سے زیادہ  مہاجرین یا پناہ گزینوں کو دوسرے ممالک کے رحم و کرم پر چھوڑ رہا ہے۔ یہ مہاجرین جس ملک کا رخ اختیار کرتے ہیں  سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں ان کے علاوہ پناہ گزین یا مہاجرین موجود نہیں ہوں گے  لیکن ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا ہے ۔ پناہ گزینوں کو  ہمیشہ ہی اس قسم کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پناہ گزینوں کو  پنا ہ لیتے وقت  مغربی ممالک  کی  جانب سے  کھڑی کی جانے والی رکاوٹوں کا  بھی سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس طرح ان پناہ گزینوں کو  بیک وقت  متعدد  مشکلات کا سامنا کرنا پڑہا ہے۔

بلا شبہ مہاجرین کے مسائل کی واحد وجہ   گلوبل  سطح  کے اختلافات یا جھڑپیں  نہیں ہیں۔  ملک کے اندرونی  مسائل ،  بُری انتظامیہ، سیاسی مسائل، اقتصادی حقائق ، بھوک و پیاس اور قحط سالی جیسے  مسائل  بھی موجود ہیں، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے  آب و ہوا پر پڑنے والے اثرات بھی  ان وجوہات  میں سے ایک ہے۔ وسیع پیمانے  نقل مکانی کے ریلوں کا حل تلاش کرنے کے لیے جدوجہد  کی ضرورت ہے۔لیکن  بعض اوقات  مختصر سی  کوششیں بھی  حل  کے حصول میں کافی ثابت ہو سکتی ہیں۔  افریقہ  کے کسی ایک گاؤں میں پانی کا کنواں کھودنے کے اخراجات کہ انتہائی کم سطح کے  ہیں، اس گاؤں  سے اجتماعی نقل مکانی کا  سد باب کرنے میں  معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔  گو کہ اس طرز کی کوششیں   مسائل کو مکمل طور پر حل  نہیں کر سکتیں تو  بھی کم ازکم ہمارے ارادے کو سامنے لاتی  ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم  علیہ الاسلام   کے ارد گرد لگنے والی آگ کو بجھانے کے  لیے چونٹیوں نے پانی کے قطرے لانے کی کوشش کی تھی۔  ویسے بھی بعض اوقات  اس طرح کی چھوٹی موٹی کوششیں ، ہمارے لیے نہ بھی ہوں ، ضرورت مندوں کے لیے  حیاتی  اہمیت کی حامل بن  سکتی ہیں۔ جیسا کہ ایک ساحل ِ سمندر پر آٹکرانے والی سٹار فش  کے ایک حصے کو  ممکنہ حد تک سمندر میں واپس ڈالنے  والے شخص نے اس حوالے سے جواباً کہا تھا کہ"تمام تر مچھلیوں کو زندہ نہ بچا سکنے کی بنا پر میری یہ کوشش آپ کے لیے بے معنی ہو سکتی ہے، تا ہم  سمندر میں واپس ڈالی جانے والی ہر مچھلی میری اس کوشش سے دوبارہ زندگی کی جانب لوٹ جاتی ہے۔" کسی انسان کو عظمت دلانے والی چیز  اس کا  مال و ملک و کرسی نہیں  ہوتی بلکہ دوسرے کے لیے اس کے دل   میں موجود درد ہوتا ہے۔

کیا ہم مہاجرین کے بارے میں محض ان کے درد کا تعین کرتے ہوئے چپ رہیں گے،  افسوس کرتے ہوئے  اپنی زندگیوں کو جاری رکھیں گے،  محض تجزیات پر ہی اکتفا کریں گے؟ ان کے درد کا موجب بننے والوں سے کیا اس چیز کا حساب نہیں پوچھیں گے؟

جی نہیں۔  اپنے اپنے آبائی وطنوں میں  اپنی امیدوں کو کھونے والے انسانوں   کے  لیے مناسب اقدامات نہ اٹھانے والوں  پر  ہم ضرور نکتہ چینی کریں گے۔ انسانوں یا پھر ملکوں کی لا چارگی سے استفادہ کرتے ہوئے غیر انسانی  فعل   کے مرتکب ہونے والی سامراجی طاقتوں کی چالوں کو بھی ہمیں آشکار کرنا ہوگا۔

ان تمام عوامل کے ہمراہ بین الاقوامی سیاست کو  اپنے مفادات کے  بجائے اصولوں پر چلانے والے اور اقدار کو بالائے  طاق رکھنے والے ممالک  کی کوششوں کو بھی ہمیں سراہنا چاہیے۔ شامی مہاجرین کے معاملے میں  دنیا کے امیر ممالک میں شامل نہ ہونے کے باوجود واحدانہ طور پر ترکی ، لبنان اور اُردن کی جانب سے اٹھایا گیا بوجھ اس حوالے سے   باقی ماندوں ملکوں کے  بوجھ سے کئی گنا زیادہ ہے۔  صرف ترکی کے ایک شہر مثلاً کیلس کی میزبانی  میں زندگی گزارنے والے  شامی مہاجرین کی تعداد کسی بھی مغربی ملک سے  زیادہ ہے۔ شام بحران    چھڑنے کے آغاز سے  لیکر ابتک ترکی میں تین  لاکھ سے زائد مہاجر بچوں   جنم ہوا ہے۔ مذکورہ بالا تینوں ممالک کسی بھی  صورت شامی بحران کا   جزو نہیں ہیں۔

دوسری جانب  عالمی اداکار  مسئلہ شام   سے کہیں زیادہ   تعلق رکھتے ہیں۔ یہ  لوگ شام  میں محض اپنے ذاتی مفادات کی خاطر   اس ملک میں مزید فوجی اخراجات کرنے، اسلحہ فروخت کرنے اور عدم حل کے ماحول کو مزید گہرائی دینے   کے درپے ہیں۔

عالمی برادری کو نقصان کے ازالے  کے لیے ان عالمی اداکاروں  کو مہاجرین کا بوجھ اپنےسر لینے کے لیے مجبور کرنا چاہیے۔ انسانی، اخلاقی، ضمیری، کائناتی ، مذہبی ، نظریاتی چاہے کسی بھی نام سے کیوں نہ ہو ہر طرح کا اصولی مؤقف اس چیز کا تقاضا پیش کرتا ہے۔

مسئلے کے حل کی تلاش کے لیے کہیں زیادہ شعور  کو اجاگر کیا جانا چاہیے، یہ  عمل مسئلے کا فریق ہونے والے عالمی اداکاوں سے ہٹ کر  شہری تنظیموں کی جانب سے  سر انجام دیا چاہیے۔مہاجرین  کے سر پر پڑنے والے مسائل کے  اسباب میں سے ایک عالمی حکمتِ عملی ہے تو مسئلے کے حل کی تلاش میں ہونے والی شہری تنظیمیں  محض علاقائی  حد تک ہی  اپنی کوششیں صرف کر رہی ہیں۔  عالمی سطح پر اس مسئلے کے حل  کے لیے شعور کو  اجاگر اور ضمیر کو جھنجھوڑنے کے  لیے سول سوسائیٹیز  کو  عالمی سطح پر آپس میں تعاون قائم کرنا چاہیے اور حقائق پر مبنی رپورٹوں اور تجزیات کے ذریعے عالمی برادری کو   درست طریقے سے آگاہی کرانی چاہیے۔ در اصل  یہ  نہ صرف شہری تنظیموں کا بلکہ  ہم سب کا فرض   اور ذمہ داری ہے۔  یہ مت بھولیں، حل میں خدمات  اور کوششیں فراہم نہ کردہ  ہر طرح کے انسانی مسائل اور المیہ    نہ صرف ہمیں   بے فیض  اور غیر اصولی نہیں بناتا  بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  حل  سے ہمکنار نہ کیا جانے والا ہر المیہ بنی نو انسانوں  کو مزید دکھوں کے انبار تلے دھکیلنے کا موجب بن سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں