ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 07

صدر رجب طیب ایردوان کا دورہ واتی کان اور اس کے مسلم اُمہ اور القدس کی حیثیت پر اثرات

912157
ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ  07

! جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان  نے گزشتہ دنوں  پاپ  فرانسس  کی دعوت پر واتی کان کا دورہ کیا ۔

اتاترک یونیورسٹی  کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا   مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ۔۔۔۔

واتی کان اور کیتھولک فرقے  اور ترکی کے باہمی  تعلقات   کی  داغ بیل  فاتح سلطان  محمد کے  دور میں ڈالی  گئی۔ اس  طرح   پاپ  کے دفتر کو  استنبول میں   مستقل بنیادوں پر  اپنا نمائندہ متعین کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ سن 1959 میں  اس دور کے  جمہوریہ ترکی کے صدر جلال بایر   کی واتی کان کے دورے اور   23 ویں پاپ جین سے ملاقات کے بعد 11 اپریل سن 1960 کو  دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات  کا سنگ ِ بنیاد ڈالا گیا۔ بعد ازاں دو طرفہ  طور پر  سفارتخانوں کا قیام عمل میں آیا۔  ترکی کے واتی کان میں سفارتخانے نے 1962 میں اپنی سرگرمیوں  کا آغاز کر دیا۔ پاپ کی جانب سے ترکی کاپہلا دورہ  سن 1967 میں پاپ  ششم  کی  جانب سے سر انجام پایا۔   بعد ازاں سن 1979 میں پاپ جین پال دوئم ، سن 2006 میں سولہویں بینڈکٹ  اور آخر میں 28 تا 30 نومبر 2014  کو پاپ فرانسس نے ترکی کا دورہ کیا۔

جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان قلیل  مدت پیشتر  پاپ فرانسس کی دعوت پر  روم تشریف لے گئے۔ ایردوان نے واتی کان کے مذاکرات کے بعد  اطالوی صدر ماتاریلا وزیر اعظم جینٹی لونی   اور بزنس حلقوں سے ترک۔ اطالوی تعلقات پر  بات چیت کی۔ صدر  ایردوان کی پاپ سے ملاقات میں ترکی۔واتی کان تعلقات، القدس سے متعلق تازہ پیش رفت، علاقائی مسائل، شام میں  درپیش انسانی المیہ، دہشت گردی، غیر ملکی دشمنی اور اسلام و فوبیا  کے خلاف جدوجہد   پر غور کیا گیا۔ ایوان صدر نے  اس ملاقات کے حوالے سے ایک اعلان جاری کیا، جس کے مطابق  ان مذاکرات  میں امریکی انتظامیہ کے  القدس  فیصلے کے  منفی اثرات اور اس پر  عمل درآمد  نہ کرنے کی تلقین کو جاری  رکھے جانے کی اہمیت پر غور کیا گیا ہے۔

ایردوان ۔ پاپ ملاقات میں القدس  کے   حوالے سے اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور بین الاقوامی قوانین  کی جانب سے وضع کردہ حیثیت کے تحفظ کی ضرورت  پر زور دیا گیا۔ ترک صدر کا دورہ  واتی کان علامتی اہمیت کا بھی حامل ہے کیونکہ 59 برسوں بعد کسی ترک صدر نے واتی کان کاپہلا  دورہ کیا  ہے۔علاوہ ازیں کیتھولک طبقے کے مذہبی پیشو پاپ  اور اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ صدر  ایردوان  نے  اس وساطت سے القدس کے معاملے پر مشترکہ حساسیت کو ایک بار پھر  عالمی ایجنڈے  میں شامل کیا ہے۔

خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 6 دسمبر2017 کو القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ کیا تھا، جس کی  مؤثر  ترین  طریقے سے  صدر ترکی نے مخالفت کی۔  انہوں نے  دنیا کے  متعدد سربراہان سمیت پاپ  فرانسس سے  بھی دو بار ٹیلی فونک   ملاقات کی تھی۔  پاپ   نے  القدس کے تینوں سماعی  مذاہب   سے وابستگی کی بنا پر اس کے مقدس  ہونے کا کہا اور "اقوام متحدہ کی قرارداد کے ذریعے  وضع کردہ  اس کی حیثیت کا احترام کیے جانے کی اپیل کی۔" جنرل اسمبلی  میں  اس ضمن میں ہونے والی رائے شماری میں   امریکہ کے تنہا رہنے میں اس مشترکہ اور حق بجانب رد ِ عمل  نے اہم  کردار ادا کیا۔  امن و امان کے ماحول کو زد پہنچانے والے   اس فیصلے  کے باوجود واتی کان اور یورپی  یونین کی القدس کے معاملے میں گہری حساسیت نے  اُمتِ مسلم ۔ مغرب تعلقات   پر کاری ضرب لگانے  کا سد ِ باب کیا۔ جناب ایردوان نے امریکہ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے ایک جانب سے یورپ اور عیسائی طبقے  کی القدس کے حوالے سے بے  چینیوں کو زیر ِ لب لایا۔

پاپ فرانسس کا  اپنے عہدے کو سنبھالنے کے بعد سے خبر رسانی میں   ایک واضح، مخلص اور روشن خیال  لیڈر   ہونے  کا    مسلم اُمہ نے خیر مقدم کیا۔  اس  مؤقف  نے  مسلم اور کیتھولک طبقے میں قربت پیدا کی، یہ صورتحال دراصل  حیرت کن نہیں ہے۔ لہذا ان طبقوں کی جانب سے امریکہ اور اسرائیل کے  یکطرفہ فیصلے  کو قبول کرنا ناممکن ہے۔

صدرِترکی  کا دورہ واتی کان   حالیہ  دور میں ترکی۔ یورپی یونین قربت  کی کوششوں اور انسدادِ  دہشت گردی  ایجنڈے  کے حوالے سے اہم ہے۔  پاپ  فرانسس نے مارچ سن 2017  میں یورپی یونین کےسربراہان سے   ہونے والے اجلاس میں "یورپی یونین  کو  اپنے گریبان میں جھانکنے اور 60 سال سے چلے آنے والے بعض مرضوں  کو دور کرنے کے لیے نئی راہیں تلاش کرنے کی  ضرورت " پر زور دیا تھا۔

ٹرانس اٹلانٹک  میثاق میں تنازعات میں  طول آنے والے ایک دور میں یورپ کو اپنی  سلامتی، استحکام اور مہاجرین کے  معاملات میں  ترکی سے قریبی  تعاون کی ضرورت  لاحق ہے۔ داخلی بحرانوں کو حل کرنے میں  مشکلات سے دو چار یورپی یونین  نے شام اور عراق کے بحرانوں میں براہِ راست مداخلت نہ کی۔

مشرق وسطی کے بحرانوں سے براہ راست متاثرہ یورپ، ترکی کے ساتھ کسی مشترکہ زمین  کو تلاش کرتے ہوئے  علاقائی توازن میں مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ترکی کی دہشت گردتنظیم   PKK / وائے پی جی جنگ   میں  اس کی حمایت  و تعاون  یورپی یونین۔ ترکی قربت میں آسانیاں پیدا کر سکتا ہے۔

ایردوان ۔ پاپ مذاکرات  میں زور دیے جانے والا القدس تعاون  یورپ   کے   اپنے اندر  تک ہی محدود  رہنے کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔ علاوہ ازیں ترکی  کے ساتھ تعلقات کو جانبر کرنے کے   لیے یہ ایک علامتی  قدم بھی شمار ہو سکتا ہے۔ مذاکرات میں ایجنڈے میں آنے والے غیر ملکی دشمنی اور اسلام و فوبیا   کے خلاف مشترکہ جدوجہد بھی ایک اہم قدم ثابت ہوا ہے۔ نتیجتاً یہ دورہ جمہوریہ ترکی کے صدر کی امن، سلامتی اور دوستی  کی فضا کو تقویت دینے کے لیے مل جل کر کام کرنے  کے ارادے کا واضح مظہر ثابت ہوا ہے۔



متعللقہ خبریں