ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 06
ترکی ، سن 1991 میں اوزبیکستان کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے
![ترک خارجہ پالیسی پر ایک نگاہ 06](http://cdn.trt.net.tr/images/xlarge/rectangle/5059/18f0/6724/59f19ddd9a7a3.jpg?time=1719054381)
اوزبیکستان کے صدر شوکت میر ضیایف کے عہدے کو سنبھالے ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ آج کی قسط میں میر ضیایف کےعہدہ صدارت کے پہلے سال اور ترکی۔اوزبیکستان تعلقات کا تجزیہ کیا جائیگا۔
اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار ڈاکٹر جمیل دوآچ اپیک کا اس موضوع کے حوالے سے جائزہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوزبیکستان پر تقریباً 25 برسوں تک حکومت کرنے والے اسلام کریمووف کی وفات کے بعد اس ملک میں منعقدہ صدارتی انتخابات میں شوکت میر ضیا یف نے کامیابی حاصل کی تھی۔قلیل مدت قبل ان کے عہدہ صدارت کو پورا ایک سال مکمل ہو ا ہے۔
سن 2017 کے ماہ فروری میں میر ضیایف نے کئی ایک شعبوں میں وسیع پیمانے کے اصلاحاتی و ترقیاتی پیکیج جو کہ 2017 تا 2021 کے عرصے پر محیط ہے کی منظوری دی تھی۔ ایک سالہ دور میں اوزبیکستان میں سب سے زیادہ تعمیری تبدیلیاں اقتصادی شعبے میں سر انجام پائی ہیں۔ صدر نے ایک سال کی قلیل مدت میں اس سے قبل حکومت کے سخت گیر مؤقف سے نقصان پہنچنے والی ملی معیشت کو آزادانہ حیثیت دینے کے زیر ِ مقصد 40 کے قریب اصلاحات پر کام شروع کرائے۔
میر ضیایف،کریموف کی تنہائی کی پالیسیوں سے کنارہ کشی کرنے اور دیگر ترک جمہورتوں کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری لانے کے خواہاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا پہلا بیرون ملک دورہ ترکمانستان میں سر انجام پانا اس ضمن میں ایک اہم اشارہ ہے۔ میر ضیایف نے چودہ ماہ پر محیط اپنے عہدِ صدارت میں بیرون ملک دوروں کے ایک بڑے حصے کو ترکی جمہورتوں کے لیے مختص کیا۔ انہوں نے قزاق صدر سے 6 بار ، ترکمانستان اور کرغزستان کے صدور کے ساتھ تین ، تین بار ملاقات کی۔ علاوہ ازیں ایک بار ترکی کا دورہ کیا ، جبکہ صدر ایردوان سے ایک بار اپنے ملک میں اور ایک باردورہ ترکی کے دوران ملاقات کی۔
اوزبیکستان کی ہمسایہ ممالک سے باہمی تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں علاقائی تعاون کے لیے ایک نیا موقع تشکیل دیتی ہیں۔ 10 تا 11 نومبر 2017 کو ثمر قند میں اقوام متحدہ کی سرپرستی میں "وسطی ایشیا میں سلامتی و قابل برداشت ترقیاتی منصوبے" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی کانفرس کا اہتمام ہوا۔ اس کانفرس میں 2018 کے نوروز تہوار سے قبل آستانہ میں وسطی ایشیا کے 5 ممالک کے سربراہان نے ایک سربراہی اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ ترکی جمہورتوں کے درمیان وسعت پانے والا یہ تعاون ایک آزاد ترکستان ایجنڈے کے تشکیل پانے کے لیے موزوں حالات کو جنم دے سکتا ہے۔ آئندہ کے سلسلے میں وسطی ایشیا کے دیگر چار ملکوں سے نزدیکی کے باعث اوزبیکستان ایک علاقائی تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل کر سکتا ہے۔
میر ضیایف نے اپنےدورِ صدارت میں ملکی میڈیا کو پہلے کی نسبت کہیں زیادہ آزادی دی۔ کھیتی باڑی میں لازمی مزدوری کے اطلاق کو ختم کرنے کے حوالے سے ٹھوس اقدامات اٹھائے، یکم جنوری سن 2019 سے حکومت کی اجازت کے بغیر اوزبیک شہریوں کو بیرون ملک جانے سے روکنے والے ویزے کے عمل درآمد کو ہٹانے کا فیصلہ کیا۔ علاوہ ازیں 10 فروری سے اوزبیکستان نے جمہوریہ ترکی کے شہریوں کو بلا ویزے کے 30 دن تک اس ملک میں قیام کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ یہ بلا شبہہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔
ترکی ، سن 1991 میں اوزبیکستان کی آزادی کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ہے۔ اس بنا پر دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات میں سرعت سے فروغ آیا۔سن 2005 میں اوزبیکستان کے اینڈی کان واقعات کا جائزہ لیے جانے والے اقوام متحدہ کی جنرل کمیٹی کی نشست میں ترکی نے اوزبیکستان کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ اس بنا پر سن 1991 میں داغ بیل پڑنے والے باہمی تعلقات سن 2005 سے سست روی کا شکار رہے۔ تا ہم ایردوان اور میر ضیایف کے دو طرفہ دوروں سے ان میں تقویت آنی شروع ہو گئی۔ ثمر قند میں ہونے والی ملاقات میں صدر ایردوان کے الفاظ "باہمی تعلقات میں نیا باب" اور میر ضیایف کے الفاظ "اب منہ زبانی نہیں حقیقی معنوں میں باہمی تعاون کا وقت آگیا ہے" نے اب کہیں زیادہ مفہوم حاصل کر لیا ہے۔
اوزبیکستان تاریخی روابط کے اعتبار سے ترکی کے رخ اور دل کے توجہ حاصل کرنے والا ایک ملک ہے۔ اب یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں مملکتوں کے درمیان جمود کا دور ختم ہو گیا ہے۔ ترک ۔ اوزبیک تعلقات میں ٹیکسٹائل، ٹورزم اور چمڑہ سازی سمیت اقتصادی تعلقات اور انسداد دہشت گردی میں سیکورٹی کے اعتبار سے دو طرفہ تعاون مزید سرعت پائے گا۔ ان تعلقات کو شہری تنظیموں، میڈیا اور تعلیمی اداروں کے باہمی تعاون کے ذریعے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے۔ قزاقستان کی ترک۔قزاق احمد یسیوی یونیورسٹی کی طرح مشترکہ ترک۔ اوزبیک یونیورسٹی کا قیام اس ضمن میں کافی بارآور ثابت ہوسکتا ہے۔ جس کا ایک کیمپس استنبول میں اور دوسرا ثمر قند میں ہو گا۔ "ترکی۔اوزبیک اُولو بے یونیورسٹی" ترکی اور اوزبیکستان کی تاریخی معلومات کو ترک و فون علاقے میں عملی طور پر بروئے کار لائے جانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ دونوں ملکوں کی مشترکہ اقدار خنفی۔ مترودی/صوفی اسلام مختصراً ترک ۔ اسلام رسم و رواج سیلیفی انتہا پسندی کے خلاف یوریشیا کے لیے ایک قابل ذکر متبادل بن سکتی ہیں۔ اس نکتے پر دونوں ملکوں پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔
میر ضیایف کا دور اوزبیکستان کے لیے ایک نیا آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ کریموف نے ترک کونسل سمیت علاقائی تعاون پروگراموں میں ہمیشہ دوری کی پالیسیاں اپنائی تھیں۔ ان پالیسیوں میں تبدیلی خطے کے اداکاروں اور اوزبیکستان کے فائدے میں رہنے کی زمین کو ہموار کر نے میں بارآور ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم اوزبیکستان میں نقدی اور توانائی کے حوالے سے جزوی مسائل سے آگاہ ہیں۔ ان مسائل کے حل میں بیرونی سرمایہ کاری اور علاقائی تعاون (ترک کونسل وغیرہ) اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔
میر ضیایف اپنے ملک اور خطے کو بخوبی جانتے ہیں، اس معاملے میں یہ کافی تجربہ کار ہیں۔ آئندہ کے سلسلے میں اوزبیکستان کا ترکی اور ترک کونسل سے تعلقات کو فروغ دینا خطے اور ترک و فون علاقے کے لیے انتہائی اہم ہے۔ کیونکہ اوزبیکستان ترک و فون محل و وقوع کا ایک کلیدی ملک ہے۔