اقتصادی جائزہ - 01
ترکی کی اقتصادیات میں سن 2017 کے تیسرے سہہ ماہی میں 11٫1 فیصد کی شرح سے ترقی دیکھی گئی جو جی 20 اور او ای سی ڈی ممالک میں ترقی کے لحاظ سے سب سے زیادہ شرح ہے
![اقتصادی جائزہ - 01](http://cdn.trt.net.tr/images/xlarge/rectangle/cf15/8df0/0c05/5a57644e5d2f0.jpg?time=1719121028)
دنیا اور ترکی میں اقتصادی لحاظ سے بڑی پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ عالمی اقتصادیات کے لحاظ سے مثبت سال کی حیثیت رکھنے والا 2017 سال ترکی کی اقتصادیات میں کس قسم کی پیش رفت کا باعث بنا ہے اس بارے میں ہمیں گزشتہ سال پر ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
سن 2016 کا سال ترکی کی اقتصادیات کے لحاظ سے کوئی اچھا سال ثابت نہیں ہوا تھا لیکن سن 2017 میں ترکی میں اقتصادیات کے لحاظ سے بہت اہم پیش رفت دیکھی گئی۔ اس پیش رفت کو ملکی ترقی، روزگار کے مواقع اور برآمدات کے گراف سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ترکی کی اقتصادیات میں سن 2017 کے تیسرے سہہ ماہی میں 11٫1 فیصد کی شرح سے ترقی دیکھی گئی جو جی 20 اور او ای سی ڈی ممالک میں ترقی کے لحاظ سے سب سے زیادہ شرح ہے ۔ اس طرح پہلے نو ماہ میں اوسطً 7٫4 فیصد کی شرح سے ترقی کی ے اور پورے سال پر جب اس کو پھیلایا جائے تو یہ شرح اور بھی بڑھ جائے گی جو کہ ترکی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔
سن 2018-2020 وسطی مدتی پروگرام میں ترکی کی شرح ترقی کو 5٫5 فیصد کا ہدف مقرر کیا گیا تھا لیکن جب ہم گزشتہ تین سہہ ماہیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ شرح 5٫5 فیصد سے بہت زیادہ بلند دکھائی دیتی ہے اور سن 2017 کے لیے یہ شرح 6٫5 فیصد سے بھی بلند ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔
دریں اثنا شرح ترقی میں ہونے والے اضافے کے روزگار پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سن 2017 میں ترکی میں ایک ملین دو لاکھ 33 ہزار افراد کو روزگار کے موقع فراہم کیے گئے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ترکی میں روزگار فراہم کرنے کی شرح 11٫1 فیصد کے لگ بھگ رہی ہے۔ ملک بھر میں روزگار فراہم کرنے کے مواقع پیدا کرنے کے لیے باقاعدہ مہم کا آغازکیا گیا تھا۔ روزگار فراہم کرنے کی مہم کو کامیاب بنانے کے لیے آجروں کی حوصلہ افزائی کی گی۔ اگرچہ ملک میں روزگار فراہم کرنے کے مواقع گزشتہ سالوں کے مقابلے میں زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود بے روزگاری کی وجہ سے یہ شرح اتنی بلندنہیں ہوسکی ہے جتنی توقع کی جا رہی تھی راس لیے بے روزگاری کی شرح کو صرف اکائی کے ہندسے تک پہنچانے کے لیے یا کم کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔
ترقی کی شرح میں انجن کی حیثیت رکھنے والی برآمدات میں سن 2017 میں اضافہ دیکھا گیا۔ سن 2016 میں 142 بلین ڈالر کی برآمدات کی گئیں اور سن 2017 میں برآمدات کے 158 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔
سن 2017 کی اقتصادیات میں فراطِ زرکا موضوع بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا ماہ نومبر میں افراط زر کی شرح 12٫98 فیصد تک پہنچ گئی تھی جبکہ پورا سال یہ شرح دو ہندسوں کو ڈیجٹ ہیں میں گھومتی رہی۔ اس کی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں غذائی اجناس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے ساتھ ساتھ زرمبالہ کی قدرو قیمت میں ہونے والی تبدیلی بھی شامل ہے جس کی وجہ سے افرط زر کی شرح دو ہندسوں کی ڈییجٹ سے نیچے نہ آسکی۔
دریں اثنا سن 2017 کے بجٹ میں خسارے کو قومی آمدنی کی شرح سے موازنہ کیا جاتا ہے تو اس میں اس سے قبل کے سال کے مقابلے کچھ حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے لیکن جب ہم اسے ماستریخ کسوٹی پر پرکھتے ہیں تو یہ شرح تین فیصد سے نیچے ہی دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح امسال پبلک قرضہ جات کے سٹاک کی شرح 28٫5 فیصد سے ماسٹریخ کسوتی کی شرح 60 سے کم رہنے کی وجہ سے اسے بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
نتیجے کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سن 2017 -2018 کے لیے ترقی کو جاری رکھنے کے اہداف کو حاصل کرنے کی ابھی ہی سے امید رکھی جاسکتی ہے۔