اقتصادی جائزہ - 01

ترکی کی  اقتصادیات  میں سن 2017 کے تیسرے  سہہ ماہی میں 11٫1 فیصد کی شرح سے ترقی دیکھی گئی  جو  جی 20 اور او ای سی ڈی  ممالک میں  ترقی کے لحاظ سے سب  سے زیادہ شرح ہے

886355
اقتصادی جائزہ - 01

دنیا اور ترکی   میں اقتصادی لحاظ سے  بڑی پیش رفت دیکھی گئی ہے۔ عالمی اقتصادیات کے لحاظ سے   مثبت سال کی حیثیت رکھنے  والا 2017 سال ترکی کی اقتصادیات  میں کس قسم کی پیش رفت کا باعث بنا ہے اس بارے میں  ہمیں گزشتہ سال پر ایک نگاہ  ڈالنے کی ضرورت ہے۔

سن 2016 کا سال ترکی کی اقتصادیات  کے لحاظ سے کوئی اچھا سال ثابت نہیں ہوا تھا  لیکن سن 2017 میں  ترکی میں اقتصادیات کے لحاظ سے  بہت اہم پیش رفت  دیکھی گئی۔  اس  پیش رفت  کو ملکی ترقی،  روزگار کے مواقع  اور برآمدات کے گراف  سے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

ترکی کی  اقتصادیات  میں     سن 2017 کے تیسرے  سہہ ماہی میں 11٫1 فیصد کی شرح سے ترقی دیکھی گئی  جو  جی 20 اور او ای سی ڈی  ممالک میں  ترقی کے لحاظ سے سب  سے زیادہ شرح ہے ۔ اس طرح  پہلے نو ماہ  میں اوسطً  7٫4 فیصد  کی شرح سے ترقی  کی ے اور پورے سال پر جب اس کو پھیلایا جائے تو یہ شرح اور بھی بڑھ جائے گی جو کہ ترکی کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

سن 2018-2020  وسطی مدتی  پروگرام  میں ترکی کی شرح ترقی کو 5٫5 فیصد   کا ہدف مقرر کیا گیا تھا  لیکن جب ہم   گزشتہ تین سہہ ماہیوں کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ شرح  5٫5 فیصد سے بہت زیادہ بلند دکھائی دیتی ہے اور سن 2017 کے لیے یہ شرح  6٫5 فیصد  سے بھی بلند ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔

دریں  اثنا  شرح ترقی  میں ہونے والے اضافے کے  روزگار پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں  اور سن 2017 میں ترکی میں   ایک ملین  دو لاکھ 33 ہزار افراد کو روزگار کے موقع فراہم کیے گئے۔  اس سے پتہ چلتا ہے کہ     ترکی میں روزگار فراہم کرنے کی شرح  11٫1 فیصد کے لگ بھگ رہی ہے۔ ملک بھر میں روزگار فراہم کرنے کے مواقع     پیدا  کرنے کے لیے باقاعدہ مہم کا آغازکیا گیا تھا۔  روزگار فراہم  کرنے کی مہم   کو کامیاب بنانے کے لیے آجروں کی حوصلہ افزائی کی گی۔ اگرچہ  ملک میں روزگار فراہم کرنے کے مواقع    گزشتہ سالوں کے مقابلے  میں زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود  بے روزگاری  کی وجہ سے یہ شرح اتنی بلندنہیں ہوسکی ہے جتنی توقع کی جا رہی تھی راس لیے  بے روزگاری کی شرح  کو صرف  اکائی کے ہندسے تک پہنچانے کے لیے  یا کم کرنے کے لیے مزید وقت درکار ہوگا۔

ترقی کی شرح میں  انجن  کی حیثیت رکھنے  والی برآمدات میں سن 2017 میں اضافہ دیکھا گیا۔  سن 2016 میں 142 بلین  ڈالر کی برآمدات کی گئیں  اور سن 2017   میں برآمدات  کے  158 بلین ڈالر تک پہنچنے کی توقع  کی جا رہی ہے۔

سن 2017 کی اقتصادیات میں  فراطِ زرکا موضوع بھی بڑی اہمیت کا حامل تھا  ماہ  نومبر میں افراط زر کی شرح  12٫98 فیصد  تک پہنچ گئی تھی جبکہ پورا سال  یہ شرح  دو ہندسوں کو ڈیجٹ ہیں میں گھومتی رہی۔  اس کی کئی ایک وجوہات ہیں  جن میں غذائی اجناس اور پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے ساتھ  ساتھ زرمبالہ  کی قدرو قیمت میں ہونے والی تبدیلی بھی شامل  ہے جس کی وجہ سے افرط زر کی شرح دو ہندسوں کی ڈییجٹ  سے نیچے نہ آسکی۔

دریں اثنا سن 2017 کے بجٹ  میں خسارے  کو قومی آمدنی   کی شرح سے موازنہ کیا جاتا ہے تو  اس میں اس  سے قبل کے سال  کے مقابلے  کچھ حد تک  اضافہ دیکھا گیا ہے  لیکن جب ہم اسے  ماستریخ کسوٹی پر  پرکھتے ہیں تو  یہ شرح تین فیصد سے نیچے ہی دکھائی دیتی ہے۔ اسی طرح  امسال پبلک   قرضہ جات کے سٹاک  کی شرح   28٫5 فیصد سے  ماسٹریخ کسوتی کی شرح 60 سے کم رہنے  کی وجہ سے اسے بہت بڑی  کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔

نتیجے کے طور پر  کہا جاسکتا ہے کہ سن 2017 -2018  کے لیے ترقی  کو جاری رکھنے  کے اہداف کو حاصل کرنے  کی ابھی ہی سے امید رکھی جاسکتی ہے۔



متعللقہ خبریں