حالات کے آئینے میں ۔ 01

حالات کے آئینے میں ۔ 01

885517
حالات کے آئینے میں ۔ 01

پروگرام " حالات کے آئینے میں " کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ایران میں بد عنوانی اور بیروزگاری  کے خلاف احتجاج کے لئے مشہد سے شروع ہونے والے مظاہرے نیشا پور، شاہرود،کیرمانشاہ، قم، رشت، یزد، قازوین، زاہدان، آہواز اور دیگر متعدد شہروں میں پھیل گئے۔ مظاہروں کے آغاز میں حکومت پر تنقید کی گئی لیکن بعد ازاں انقلابی لیڈر خامنائی سمیت سیاسی حکام اور حکومت کو ہدف بنایا جانے لگا۔ قم جیسے شعیہ اکثریت والے علاقے میں "خامنائی مردہ باد " اور "حزب اللہ مردہ باد" کے نعرے لگائے گئے۔ مظاہروں میں پیش آنے والے واقعات میں سینکڑوں  مظاہرین کو حراست میں لے لیا گیا اور کثیر تعداد میں مظاہرین ہلاک ہو گئے ہیں۔

یقیناً اصل سوال یہ ہے کہ ایران میں اس کے بعد کیا ہو گا؟ کیا مظاہرے بتدریج پھیلتے ہوئے جاری رہیں گے یا پھر اختتام پذیر ہو جائیں گے؟

سیاست، اقتصادیات اور سماجی تحقیقاتی وقف SETA کے محقق اور مصنف جان آجون  کا موضوع سے متعلق تجزئیہ آپ کے پیش خدمت ہے۔

جب ہم ایران کے داخلی توازن پر نگاہ ڈالیں تو عام طور پر ہمیں دو اہم مسائل دکھائی دیتے ہیں، ایک خراب ہوتی اقتصادیات دوسرا داخلی سیاسی چپقلشیں۔

روحانی حکومت اور خامنائی کے درمیان جاری کھینچا تانی میں حالیہ انتخابات کے بعد بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ روحانی کے قریبی حلقے اور پاسداران انقلاب ایرانی کے خلاف دھاندلیوں کے دو طرفہ الزامات نے

ایرانی عوام کی نگاہ میں ایرانی حکومت کے اعتبار کو شدت سے مجروح کیا ہے۔ ایران پر عائد پابندیوں اور بُری انتظامیہ کے  ساتھ بدعنوانی  کے بھی شامل ہونے سے ملکی اقتصادیات میں اور بھی مندی پیدا ہوئی۔ پیٹرول اور قدرتی گیس کے تمام تر وسائل کے باوجود قومی آمدنی 500 بلین ڈالر سے کم ہو کر 350 بلین ڈالر کی سطح پر گر چکی ہے۔ ملک میں سنجیدہ سطح پر افراط زر اور بے روزگاری کا مسئلہ درپیش ہے۔ انفراسٹرکچر ناکافی ہے۔ فضائی آلودگی اور قحط سالی کا مسئلہ ان سب  سے بڑھ کر  ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی میں ایک توسیعی سیاست کا تائثر پیش کیا جا رہا ہے۔ لبنان، یمن، شام اور عراق میں خواہ بڑے پیمانے پر اقتصادی بدل چکانے پڑے ہوں تو بھی اہم کامیابیاں حاصل کی گئی ہیں۔ تاہم یہ جیو۔پولیٹک کامیابیاں ایران کے ایک  عام شہری کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔

ایران کے مظاہروں میں قابل توجہ پہلووں میں سے ایک نسلی اشتعال انگیزی کے مظاہرے تھے۔ آہواز کے عربوں، ملک کے مشرقی علاقے کے بلوچوں، مغربی علاقے کے کردوں  اور ترکمان علاقوں  میں کئے جانے والے مظاہروں میں بعض گروپوں اور مظاہرین کے ایرانی انتظامیہ کے خلاف ہونے کے اسباب کی بنیاد نسلی تضاد دکھائی دے رہی ہے۔

ایران کے مظاہروں کی بنیاد اگرچہ داخلی سیاسی مسائل  اور عوامی بے اطمینانی دکھائی دے رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ مظاہروں کا بین الاقوامی قد و کاٹھ بھی موجود ہے۔ ایرانی حکومت کا دعوی ہے کہ مظاہروں میں ہلاک ہونے والے افراد کی قاتل    غیر ملکی ایجنسیاں ہیں۔ امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹر پیج سے ایران کے مظاہروں کے بارے میں جاری کردہ بیانات  بھی ایرانی حکومت کے دعوے کو تقویت دے رہے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نیتان یاہو نے بھی ایران کے مظاہروں پر مسرت کا اظہار کیا۔

نتیجتاً ترکی کی وزارت خارجہ نے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ ہم دوست اور برادر ملک ایران  کے سماجی امن و امان اور استحکام کے تحفظ کو بے حد اہمیت  دیتے ہیں۔ بیان میں صدر حسن روحانی کے اس بیان کا حوالہ دیا گیا ہے   کہ " پُر امن مظاہرے عوام کا حق ہیں تاہم قانون کی پامالی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے سے پرہیز کیا جانا چاہیے " اور کہا گیا  ہےکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ تشدد سے پرہیز کرنا اور اشتعال انگیزی کی لپیٹ میں آنے سے بچنا ضروری ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فوری طور پر ملک میں امن و امان قائم ہو ،عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے واقعات  کے پھیلاو کا سدباب کیا جائے، تحریکی بیانات اور خارجی مداخلت  سے پرہیز کیا جائے۔ ڈونلڈ ٹرمپ    اپنے دورہ  خلیج کے بعد سے خاص طور پر ایران کے خلاف سعودی عرب، امتحدہ عرب امارات، مصر، بحرین اور اسرائیل کا مشترکہ محاذ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ  ایران کے مظاہروں پر بغور نگاہ رکھے ہوئے ہے۔

نتیجتاً ایرانی حکومت بھی سالوں سے ملک میں درپیش  متعدد مسائل  کا سبب غیر ملکی عناصر کو دکھا رہی ہے۔ ایرانی صدر کے معاون اعلیٰ اسحاق جہانگیری نے ہفتے کے آخر میں کئے گئے خطاب میں کہا ہے کہ  "اقتصادی مسائل کو دیگر موضوعات کا بہانہ بنایا گیا ہے لیکن اصل میں اس کے پس  پردہ مختلف سیناریو موجود ہیں"۔ روحانی حکومت کے سرکاری اخبار نے بھی کل اپنے پہلے صفحے پر شائع کردہ مقالے میں کہا تھا کہ "بعض عناصر اپنے ہدف تک رسائی کے لئے عوام کو ایک کھلونا خیال کر رہے ہیں"۔

آیت اللہ خامنائی نے کہا تھا کہ " ہمارے دشمن ملک میں افراتفری مچانے کے لئے کرنسی، اسلحے اور ایجنسیوں کا استعمال کر رہے ہیں"۔

تاہم ایران کو بین الاقوامی رائے عامہ کے دشمنوں کو دکھا کر  اس پہلو کی پردہ پوشی نہیں کرنی چاہیے کی ان مظاہروں کے عوام کے نزدیک اہم اسباب موجود ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک کے اقتصادی مسائل کی وجہ سے کچھ عرصے سے چھوٹے پیمانے پر مظاہرے کئے جا رہے تھے۔ اس وقت ہمارے سامنے جو ایران موجود ہے اس میں تمام قدرتی وسائل کی موجودگی کے باوجود عوام بتدریج غریب ہو رہے ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ دنوں میں حکومت سے متعلقہ بعض سرمایہ داروں کی مالیاتی فرموں  کے دیوالیہ ہونے اور کئی ملین افراد کے متاثر ہونے  نے بھی مظاہروں کو ہوا دی ہے۔

علاوہ ازیں مظاہروں میں "کرنسی کو شام، غزہ اور لبنان میں خرچ نہ کرو"، "عوام بھکاری بن گئی"، "شام  کو چھوڑو ہمارے حال کی طرف دیکھو"، " نہ غزہ نہ لبنان جان ایران پر قربان" اور " حزب اللہ مردہ باد کے نعرے لگائے گئے جو اس بات کی عکاسی کر رہے ہیں کہ مظاہرین ایران کی مشرق وسطی کے لئے توسیعی پالیسی پر بے اطمینانی محسوس کر رہے ہیں۔ ایران ایک طرف اقتصادی مسائل سے بے حال ہے تو دوسری طرف مشرق وسطی میں توسیعی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے اور ملک میں ان پالیسیوں پر بے اطمینانی محسوس کرنے والے طبقے کی موجودگی بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایران شام میں مصروفِ جنگ ملیشیا فورسز کو جو اجرت دے رہا ہے وہ ملک کے متعدد شہریوں کی تنخواہوں سے زیادہ ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ "ہم اسلامی جمہوریت نہیں چاہتے" اور "استقلال، آزاد ایرانی جمہوریہ" جیسے نعرے  ایران  کی جابر انتظامیہ  سے بھی عوام کی بے اطمینانی کی عکاسی کر رہے ہیں۔ مظاہروں میں ایران کے معزول لیڈر رضا شاہ پہلوی کے لئے دعا کیا جانا  اس پہلو کی عکاسی کرتا ہے کہ گلوبل رابطے اور رسائی کے امکانات کے ساتھ دیگر ممالک کو دیکھنے والے ایرانی عوام ترکی جیسے مسلمان ممالک کے ساتھ اپنے طرز زندگی اور معیار زندگی کا موازنہ کر رہے ہیں۔

حاصل کلام یہ کہ ایران کی مظاہروں کو ہوا دینے والے متعدد عناصر موجود ہیں۔ ایک طرف آزادیوں اور اقتصادی خوشحالی کی کوششیں  ہیں تو دوسری طرف ایران کو  نشانے کے بورڈ پر چسپاں کرنے والے ممالک کی افراتفری مچانے کی کوششیں ہیں۔ لہٰذا ترکی  ، ایران کے حالات کے بارے میں ایک متوازن نقطہ نظر کا حامل ہے کہ جو مذکورہ دونوں حقیقتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے  تشکیل دیا گیا ہے۔



متعللقہ خبریں