حالات کے آئینے میں 43

یورپ میں تیزی سے بڑھنے والی نسل پرستی اور غیر ملکی دشمنی میں سرعت سے اضافے پر ایک جائزہ

834170
حالات کے آئینے میں 43

یورپی یونین کے ملکوں میں نسل پرستی  کےماحول میں  بتدریج تیزی  آتی جا رہی ہے، جرمنی، ہالینڈ اور بیلجیم کے بعد  آسٹریا کے رائے دہندگان نے بھی ملکی انتظامیہ کو  دائیں بازو کی نسل پرست پارٹی  کے سپرد  کیا ہے۔

گزشتہ  اختتام الہفتہ  آسٹریا میں ہونے والے  عام انتخابات میں  دائیں بازو کی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت  آمیز  جرائم کی حد  تک  جا سکنے والی اجنبیت  کی پالیسیوں پر عمل پیرا آسٹروی عوامی پارٹی نے  فتح حاصل کی۔  جبکہ دوسرے نمبر پر انتہائی دائیں بازو   کی اور نازی ازم کے نظریات کی حامل  آسڑیا آزادی  پارٹی  رہی ہے۔

گزشتہ ماہ جرمنی میں  بھی منعقدہ  انتخابات میں مسلمانوں اور خاصکر ترک تارکین وطن کے خلاف نفرت  آمیز  رویہ  روا رکھنے والی  سیاسی جماعتوں نے  پہلے کے مقابلے میں  کئی گنا ووٹ ڈالتے  ہوئے خطہ یورپ میں  اس لہر میں تیزی آنے کی اطلاع دی تھی۔ حتی ٰ، انسانی حقوق اور جمہوری نظریات کی حامل ہو نے کا دعوی کرنے والی  جرمن سوشل  ڈیموکریٹس    پارٹی  تک  نے  بھی مسلمانوں اور غیر ملکی محنت کشوں اور مہاجرین  مخالف  تقریروں کے ساتھ   انتخابی    مہم  چلائی تھی۔

اب کی بار آسٹروی انتخابات  نے ایک بار پھر اس چیز کا مظاہرہ کیا ہے کہ  خطہ یورپ سرعت سے نسل پرستی    کی موجوں میں  غرق ہوتا جا رہا ہے۔سن 1945 سے ابتک   پُرسکون ماحول گزارنے والے    یورپ    میں  اب نسل پرست، نازی  ازم اور نفرت کے  جرائم کے ذریعے،    اپنے   سے  نہ ہونے کی   پالیسیوں پر در اصل  ہمیں تعجب نہیں کرنا چاہیے۔

اس خطے میں  تحریری   تاریخ  کے  آغاز سے  ابتک  کبھی بھی کوئی ایک صدی بلا جنگ یا خانہ جنگی  کے نہیں  گزری،  حتی    یورپ میں بلا جنگ کا طویل  ترین دور سن 1945 سے ابتک کا دور انیہ ہے۔ اس  کی وجہ یورپ  کے  باہر کی طاقتوں میں شمولیت اختیار کرنے والے امن معاہدے اور  ان کے  سیاسی  نتائج    ہیں۔

علاوہ ازیں ایک دوسری وجہ  جدید ٹیکنالوجی   کے  ذریعے   تقریباً سارے یورپ   کی بمباری کے نتیجے میں  تہس نہس ہونے والی اس کی   معیشت میں مندی کا رجحان  بھی ہے۔

آج 'تاریخی شہر' کے طور پر دیکھے جانے والے تمام تر یورپ شہروں کی  اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔  بنی نو انسانوں   کی مشترکہ مثالی اور  تاریخی خصوصیات کی  حامل عمارتوں اور علاقوں کو فضائی اور بمباری کے ذریعے   تباہ کر دیا گیا۔ سن 1945 سے سن   70 تک  اس خطے میں نشاط نو اور زخموں کو مندمل کرنے   کے دور کا راج رہا۔ ویسے بھی 60 کی دہائی کے اواخر میں  نوجوانوں کی دہشت  گردانہ تحریکیں    حکومتوں کے اب    جنگوں کا ماحول  پیدا نہیں ہو سکتا کی سوچ   کا نتیجہ ثابت ہوئیں۔یورپ میں  دہشت گردی کی سطح  وزراء اعظم کو  اغوا کرتے ہوئے قتل کیے جانے کی حد تک   پہنچ  چکی ہے۔ اطالوی وزیر اعظم  آلدو مورو  کو ریڈ  بریگیڈز نامی ایک  لیفٹ  دہشت گرد تنظیم نے   قتل کر ڈالا تھا۔ بعد ازاں تقریباً 10 برس بعد  ایک دوسری یورپی دہشت گرد تنظیم  PKK  نے  سویڈش وزیر اعظم اولوف پالمے کا قتل کیا ۔ یورپ نے جب دیکھا کہ دہشت گردی اس کو اپنے گھیرے میں  لے رہی   ہے تو  اس نے تمام تر دہشت گرد تنظیموں کا تصفیہ کر دیا۔  مغربی دنیا میں  طاقت پکڑنے والی دہشت گردی نے اچانک اپنا رخ مشرق وسطی اور ایشیا کی جانب  موڑ دیا۔

یورپ سالہا سال  تک جاری رہنے والی اس  دہشت گردی کے سامنے  رواداری کے مؤقف  کی اب قیمت چکانے لگا ہے۔  اب مسلمان، مہاجرین اور غیر ملکی محنت کش مخالفت کے بعد  کے قدم مذہبی اور مائکرو قومیت پسندی   فسادات  کا ماحول  پیدا ہوگا۔

مسلمانوں  ، مہاجرین اور غیر ملکی محنت کشوں کے اپنے اپنے وطن کو واپس لوٹنے پر یورپ میں  جمع ہونے والی  اس گیس کا اخراج آیا کہ کیسے ہو گا؟

نسل پرستی کی بیماری  اس کی مخالفت کے بغیر   زندہ نہیں  رہ سکتی اور انسانیت کی دشمن  یہ بیماری اپنے خریف  کو  قلیل مدت میں ہی  جنم دے دیتی ہے۔ اس کی تازہ  مثال  اسپین میں کاتالونیا کی    مرکزی حکومت سے علیحدگی  کی تحریک ہے۔ بارسیلونا     سے  چھڑنے والی   یہ قوم پرستی اسپین  میں دراڑیں  پیدا کر رہی ہے، تا ہم اس  کے منفی اثرات کاتالونین  پر بھی  مرتب ہوں گے۔ آج  اپنے   دارالحکومت کے طور پر   پیش کردہ   بارسیلونا     کاتولین  اور ہسپانویوں  دونوں کی ہی سر زمین  نہیں ہے۔   بارسیلونا کی سیر نہ  کرنے والے اور اس حوالے سےمعلومات  نہ ہونے والوں کے لیے بتاتا چلوں کہ بارسیلونا کو  بارسیلونا  بنانے والی  آراگون  قوم کے تاریخی و ثقافتی ورثے  ہیں، کیونکہ اس کے چپے چپے میں  آراگون اثرات   دکھائی دیتے ہیں۔ یہ    قوم فردیناند  کے شجرہ نسل سے تعلق رکھتی ہے ،  یہ لوگ بھی انتہائی درجے  مائکرو قوم پرستی کے جذبات کے مالک ہیں،   بلا  شبہہ کاتالونیا کی علیحدگی کے بعد  وہاں کی انتظامیہ کو آراگون  لہر کا سامنا کرنا پڑے گا۔

میں یہاں پر   اسپین میں  مسلمانوں اور یہودیوں کی نسل کشی  کرنے والوں  کے آراگون  باشندے ہونے  کی یاد دہانی کراتے ہوئے  کاتالونین   کے کس قسم کے مسائل    کا سامنا کر سکنے پر توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں۔

جرمنی، بیلجیم ، اٹلی ، فرانس اور اسکینڈی نیوین   ملکوں  میں   اٹھنے والی  قوم  پرستی رفتہ رفتہ  مائکرو   قوم  پرستی کا روپ  دھار رہی  ہے۔  جرمنی کے بڑے  اور امیر ترین  صوبے باویرا  نے  بھی سرکشی  شروع  کردی ہے۔ اٹلی کا شمالی علاقہ بھی اسی ڈگر پر چل نکلا ہے،  سویڈن  اکیس  صوبوں پر مشتمل  ہے، جہاں پر  وائکنگز کے پوتے پوتیوں نے  ابھی سے ایک دوسرے کو دانت   دکھانے شروع کر دیے ہیں۔

اسی طرح فرانس   کے کورسیکا اور دیگر  علاقوں  کو اس ضمن میں مسائل درپیش ہیں، افسوس  کہ  علاقائی قوم  پرستی  اب  بحیرہ روم کے ملکوں کو بھی  اپنے زیر تسلط لانے لگی ہے۔

کئی برسوں سے اقتصادی   کساد بازاری کے شکار  یونان میں  بھی   نسلی قوم  پرستی کا خطرہ موجود ہے۔

ان تمام  مائکروں قومی پرستی  تحریکوں کے  بر خلاف  گزشتہ ہفتے جمہوریہ ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے سرب صدر کی دعوت پر اس ملک کا دورہ کیا۔  سربوں اور ترکوں کی  ایک دوسرے کے ساتھ تاریخی رقابت  اور  گہرے  گھائلوں  سے کون آشنا    نہیں۔  جب یوگوسلاویہ کا شیرازہ بکھرا تھا تو  ترکوں کے قریبی اقرباء  بوسینائی   باشندوں کی نسل  کشی  اور کوسوو جنگ کے  حد درجے افسوسناک واقعات اور زخم  ترک شہریوں کے دل و جان پر گہرے نقوش   قائم کیے  ہوئے ہیں۔

تا ہم ترک رہنما  صدر ایردوان ،  پھیلنے والی  مائکرو قوم پرستی کی لہر کے خلاف سیاسی، تجارتی اور سفارتی تعلقات   کو وسیع پیمانے   پر فروغ دینے میں  سرگرم ہیں۔ یورپی مرکز  کے حامل کرہ ارض کو در پیش خطرات سے آگاہ ایک دوسرے رہنما بلا شبہہ سربوں کے لیڈر الیگزندڑ ووچچ ہیں۔  ووچچ نے  اپنے ملک کو مدعو کردہ  ترک صدر کی  اس دورے بھر کے دوران  رفاقت کی اور  دنیا کے اب سولہویں صدی  میں نہ ہونے کا کہتے ہوئے ترک اور سرب اتحاد کے تقاضے   پر توجہ مبذول کرائی۔

ان دونوں رہنماؤں کے درمیان  یہ قربت   خطہ  یورپ میں زور پکڑنے والی خوفناک  نسل پرستی کو  ایک جواب  کی ماہیت بھی رکھتی ہے۔  کل تک ایک دوسرے سے کافی   سرد  مہری کا مظاہرہ   کرنے والے اگر آج   اقتصادی و سیاسی   طور پر  اتحاد قائم کر سک رہے ہیں تو یہ پیش رفت یورپ کے لیے  امید کی ایک کرن  ثابت ہونی چاہیے۔

اسوقت یورپی پارلیمان اور کمیشن  نسل پرستوں اور نازی  ازم کے  پیرو کاروں  کے اپنے  وجود میں اضافہ کرنے والے   دو اہم  ادارے ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ یورپی سیاستدانوں  مرکل اور کروز کی  جانب سے نسل پرست  بیانات کا سہارا لینا  ان دونوں اداروں کی باگ ڈور   نسل پرستوں اور نازی  ازم کے  پیروکاروں  کے ہاتھ میں  دے دے گا۔

 

 



متعللقہ خبریں