حالات کے آئینے میں 26

قطر بحران نے   خلیج  میں طاقت  کے  توازن اور  اس کے یورپ اور امریکہ کے ساتھ  عدم استحکام کے حامل  تعلقات   کے    نازک ڈھانچے کو  منظر  عام     پر لایا ہے

759101
حالات کے آئینے میں 26

قطر اور خلیجی  ملکوں کے درمیان   تین  ہفتوں سے  کشیدگی   کی فضا   برقرار ہے۔ بحران  حل کرنے کی کوششیں،  سنجیدہ سطح کے  اقتصادی و جیو پولیٹک   نتائج کی حامل   کیچڑ اچھالنے  کی  مہم  اور سیاسی   طاقت  کی جنگ       کو ختم کرنے   میں  فی الحال بار آور ثابت نہیں ہو سکیں۔ ا س بحران نے   خلیج  میں طاقت  کے  توازن اور  اس کے یورپ اور امریکہ کے ساتھ  عدم استحکام کے حامل  تعلقات   کے    نازک ڈھانچے کو  منظر  عام     پر لایا ہے۔

دہشت گردی کے الزامات   کا سامنے   کرنے والے ہر ملک کی طرح    قطر      نے بھی   ان  الزامات کو مسترد کرتے ہوئے  اس حوالے سے ٹھوس دلائل پیش کیے جانے   کا مطالبہ  کیا  ہے۔  یہ در حقیقت  انتہائی   سنجیدہ     ایک   تہمت ہے۔ قطری حکام    مذکورہ الزامات  کو سنجیدہ  لے رہے ہیں تو  ابھی تک   اس ملک کو خلیج، شام یا کسی  دوسرے  ملک میں سرگرم کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ   تعلق  کے حوالے سے   کوئی  ٹھوس دلیل   پیش نہیں کی گئی۔ دوسری جانب قطر   اس  بات کا دفاع کر رہا ہے کہ  موجودہ پابندیاں  منصفانہ  نہیں،  اس حوالے سے  بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی    کی گئی ہے   اور یہ مسلمان ملکوں کی باہمی دوستی و بھائی  چارگی کے  اصولوں  کی نفی کرتی ہیں۔

دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے کے دعووں کو ثابت کرنے پر مبنی  دلائل و اثبات  کی  عدم موجودگی   کو بالائے  طاق رکھنے سے  قطر کے مطالبات کے  قدرے  معقول ہونے  کا  کہنا  ممکن ہے۔ اس ملک کے خلاف لی گئی تدابیر غیر متناسب  اور بحران کے حل میں  معاونت    فراہم نہیں  کر رہیں۔ قطر نے اعلان    کیا ہے کہ  وہ    پابندیاں   ہٹائے   جانے تک   بحران کے  حل کے لیے مذاکرات  نہیں  کرے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کو  اس اپیل پر  کان دھرنے چاہییں اور ڈائیلاگ و مذاکرات کے سلسلے کو  شروع کرسکنے کے لیے   پابندیوں کو ہٹایا جانا چاہیے۔ امیر قطر نے   اس سلسلے میں  کشیدگی میں  گراوٹ  اور بحران کے حل کے  لیے  ایک    اہم کردار ادا کیا ہےاور     امیر  کی  ان کوششوں   میں تعاون   و حمایت فراہم  کیا جانا چاہیے۔  ترکی اس  معاملے میں اپنی خدمات فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔

خلیج  بحران پیدا ہونے کے دن سے ابتک  صدر  رجب طیب ایردوان  نے  تناؤ میں  تخفیف  اور موجودہ مسائل کا  پُر امن و   دوستانہ  حل    تلاش کرنے کے زیر مقصد  متعلقہ علاقے کے سربراہان سے  متعدد بار ٹیلی فون  پر  رابطہ قائم کیا ہے۔ ترکی، قطر پر  عائد پابندیوں سے متاثر ہونے والے عوام  کی مدد کے لیے   خوردنی اشیاء  بطور   عطیہ  فراہم کر رہا ہے۔  علاوہ  ازیں   قومی اسمبلی  نے   قطر  کے ساتھ اس سے قبل طے پانے والے اور مقصد  محض قطر  نہیں   بلکہ  پورے خلیجی علاقے کی سلامتی و تحفظ  ہونے والے  فوجی اڈے  کے قیام    کی منظوری دے دی ہے۔ صدر ایردوان نے  بار ہا  کہہ چکے ہیں کہ خادم الحرمين الشريفين اور  خلیجی  علاقے کے طاقتور ترین  ملک  کے  فرمانروا  سلطان بن عبدالعزیز  اس مسئلے کے حل کے   لیے اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔  ترکی اپنے اس مؤقف کے ساتھ کسی بھی ملک کے داخلی معاملات میں  مداخلت کی طرح کاکوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ اس بحران کے ذریعے  عرب ملکوں اور ترکی کے درمیان نفاق کے بیج بونے کے خواہاں    پروپیگنڈے   کرنے والوں  کے دعووں کے بر عکس  ترکی کی واحد تمنا اس مسئلے کا پر امن  حل تلاش کرنا ہے۔ شام جنگ    کے    پر تشدد   سیاسی  و انسانی نتائج    کے جاری رہنے والے  ،  مذہبی تناؤ کے اسقدر  تیز ہونے والے  اور   دہشت گردی  کے کسی بھی  قومی  سرحد  کی      پرواہ نہ کیے جانے   والے اس دور میں    بھائی چارگی ، اتحاد و یکجہتی کی ہمیشہ سے کہیں زیادہ  ضرورت ہے۔  تمام تر طرفین کو اس مقصد کے تحت   کوششیں  صرف کرنی چاہییں اور چھوٹے موٹے تفرقوں  اور  خفیہ ایجنڈے سے باز رہنا چاہیے۔

تا ہم ،   ابتک ہمیں    سمجھ  جانا چاہیے کہ یہ  بحران  دہشت   گردی  کے الزامات  سے ہٹ کر  ایک صورتحال  ہے۔ یہ بیک وقت اخوان المسلمون  اور حماس کی طرح کی  سیاسی اسلامی   تحریکوں  کے خلاف   محاذ آرائی بھی ہے۔ اخوان المسلمون نے  دہشت گردی    کے الزامات کو ایک عرصہ  قبل مسترد کر دیا  تھا  اور  پر تشدد واقعات میں ملوث ہر گروپ کے اور اس سے  پیشتر    تعلق  پائے  جانے والے گروہوں کے ساتھ  اپنے  رابطوں کو منقطع  کرتے ہوئے ان سے دوری   حاصل کر لی  تھی۔ مصر میں جنرل  عبدالفتح الا سیسی کی جانب سے  خونی بغاوت     کے ساتھ صدر محمد مرسی  کی حکومت کا  تختہ الٹنے کے وقت  بھی   اخوان المسلمون نے   شدت انگیز واقعات کا سہارا نہیں لیا تھا،  اس کے ہزاروں کی تعداد میں ارکان  ہلاک کر دیے گئے یا پھر انہیں  جیلوں میں بند کر دیا گیا۔ ان کے رہنما   چار سالوں سے     فوج کی قید میں ہیں۔ ان تمام تر  واقعات  کے باوجود  اخوان  المسلمین نے  ایک سیاسی   آلہ کار  کے طور پر بھی   پُر تشدد واقعات    کو استعمال نہیں کیا۔  اس تنظیم   کو انڈر گراؤنڈ کرنا محض  وحشی انتہا پسندوں کے مفاد میں  ہو گا۔

جہاں  تک حماس کا سوال ہے  عالم عرب میں اسے  فلسطین   جنگ ِ نجات کے  ایک  حصے کی   نظر سے دیکھا جاتا ہے۔  اسوقت  اگر ان کا کوئی  ارادہ ہے   تو حماس کو   دہشت گرد اعلان کرنا   ہر گز  ذی  فہم اور منطقی نہیں ہو گا۔ حماس   فلسطینی معاشرے اور اسرائیل کے قبضے کے خاتمے کی جدوجہد  کا ایک حصہ ہےاور محض حماس کے  دفتر کی دوہا میں موجودگی   کو  قطر کے سامنے دہشت گردی کی پشت پناہی کے طور پر  پیش نہیں  کیا جا سکتا ،   اس دفتر کی سالہا سال قبل  دمشق  سے  دوہا منتقلی خطے کے تمام تر کلیدی اداکاروں کے   تعاون   سے  سر انجام  پائی تھی۔

حالات کچھ یوں ہیں تو اس بحران سے  استفادہ کرنے  کی خاطر  ترکوں اور  عربوں کے درمیان فتنہ و فساد کے  بیج بونے    کے درپے  ہونے والے حلقے بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ ہر کس کی جانب سے مسترد   کیے  جانے کا تقاضا پیش کرنے والی ایک چال    ہے۔   صد ہا سال سے  عربوں  کی  جانب  سے دولت عثمانیہ  پر پیٹھ  پیچھے  سے وار کرنے  کا دعوی  ترکوں اور عربوں کو  کئی سالوں سے ایک دوسرے سے  دور رکھے ہوئے تھا۔ اسی طرح  نئی قائم کردہ   جمہوریہ  ترکی کے ترکوں  کی جانب سے عربوں اور مسلم اُمہ سے منہ موڑنے  کے دعوے نے  ترکی کے عرب ملکوں سے تعلقات    میں گہرے   شک و شبہات  پیدا کر رکھے  تھے۔

تا ہم  اس دو طرفہ   خیانت   کے دعووں   اور  مفروضات میں  گزشتہ  دس برسوں میں   صدر  ایردوان کی قیادت میں     کافی    حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ ترک اور عرب  بھائی، دوست، اتحادی، ہمسایہ اور حصہ دار ہیں،    عرب ملکوں اور  مسلم اُمہ کو   زیادہ محفوظ  اور درخشاں  مستقبل کی خاطر  مل جل کر کام کرنا ہو گا۔ نظریاتی اختلافات  کو الزام تراشی، عدم  اعتماد ی اور نیچا دکھانے  کی  کوششوں پر مبنی  حالات  پیدا کرنے  کی    اجازت نہیں دی جانی  چاہیے۔ ترکوں اور عربوں کے درمیان   عداوت و دشمنی پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف  حلقے محض اپنے غیر اہم   مفادات  کے  لیے     کام کر رہے ہیں۔ میڈیا کی کھینچا تانی  بھی  کسی کے مفاد  میں نہیں ہو گی۔   ذی فہمی اور سیاسی   وسائل  کو  بذات خود نقصان  پہنچانے    والی رقابتوں میں  اور تمثیلی جنگوں میں اخراجات    کرنے  کی کوششوں کے خلاف ہم سب کو  تدابیر اختیار کرنی ہوں گی،    ہمیں اپنی توانائی اور وسائل کو دونوں فریقین کو  طاقتور بنانے  سمیت ان  کے لیے    بارآور ثابت ہونے والے حالات کو   پیدا کرنے  کی سعی کرنی چاہیے۔

 



متعللقہ خبریں