ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔24

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔24

756395
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔24

 

 سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات اور مصر  سمیت بعض خلیجی  ممالک نے قطر  پر بعض الزامات لگاتے ہوئے  اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کر دیا  ۔آج کے   اس پروگرام میں قطر بحران اور علاقے پر اس  کے اثرات  کے  موضوع پر اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا  جائزہ  آپ کی خدمت میں پیش  کر رہے ہیں ۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر  سمیت بعض خلیجی  ممالک  کیطرف سے  قطر  پر بعض الزامات لگاتے ہوئے  اس کے ساتھ سفارتی تعلقات کو منقطع کر دینے کیوجہ سے خلیج کے علاقے میں حالیہ دور کا سنگین  سفارتی بحران  پیدا ہوا ۔  عرب ممالک نے سفارتی تعلقات کو منقطع کرنے کا فیصلہ   امریکی انتظامیہ کیطرف سے قطر کیساتھ تعلقات پر نظر ثانی کے دباؤ  کے بڑھ  جانے کے دور  میں کیا ہے۔ سعودی عرب اور دیگر ممالک قطر پر دہشت گردی کی حمایت کرنے کا الزام لگا رہے ہیں  لیکن ان ممالک کے دعوؤں کو درست ثابت کرنے والے اثبات موجود نہیں ہیں ۔اگرچہ قطر علاقے کا ایک چھوٹا  ملک ہے لیکن وہ علاقائی سیاست اور اقتصادیات پر اثرات رکھنے والا اہم ملک ہے ۔  قطر کے شہریوں کی تعداد تین لاکھ تیس ہزار ہے  لیکن  اس کی مجموعی آ باری تین میلین  ہے ۔اس ملک میں دنیا کے تیسرے بڑے قدرتی گیس کے ذخائز موجود ہیں ۔  یہاں پر مشہور یونیورسٹیاں ،تھنک ٹینک اور الجزیرے جیسا اہم انٹر نیشنل میڈیا  اور غیر ملکی فوجی اڈے موجود ہیں ۔  قطر کے ترکی کیساتھ بہترین تعلقات پاِئے جاتے ہیں ۔ قطر  کی طرف سے ترکی کیساتھ انرجی کے شعبے میں تعاون کے سلسلے میں اٹھائے گئے اقدامات ، فوجی تعلقات حتیٰ کہ   ترکی کےقطر میں فوجی اڈے کی  موجودگی سے متعدد خلیجی ممالک بے چینی محسوس کرتے ہیں ۔

 خلیجی علاقے کے امیر ترین ملک قطر کو  علاقے میں جمہوری تحریکوں کی حمایت کی وجہ سے عرب رائے عامہ میں  پسندیدگی کی نظروں سے  دیکھا جاتا ہے ۔  کامیاب منصوبوں کی بدولت اسے علاقائی اور عالمی سطح پر قدرو منزلت حاصل ہے ۔  خاصکر عربی اور انگریزی زبان میں نشریات کرنے والے الجزیرے  میڈیا گروپ  کیساتھ قطر نے علاقے اور عالمی سطح پر  شہرت حاصل کی ہے ۔  قطر دیگر خلیجی ممالک کے مقابلے میں مزید لیبرل پالیسیوں کی وجہ سے توجہ کا مرکز ہے ۔ بہار عرب کے دوران حزب اختلاف اور تبدیلیوں کے حامی ایکٹرز کی حمایت   خلیجی شہنشاہتوں کی طرف سے قطر کی مخالفت کی بنیادی وجہ  تشکیل دیتی ہے ۔ سعودی عرب ،متحدہ عرب امارات مصر اور امریکہ کی طرف سے قطر کو ہدف بنانے کی اولین وجوہات کا تعلق قطر انتظامیہ  کی سیاسی ترجیحات اور ان کے خارجہ پالیسی  پر اثرات سے ہے ۔  یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں  ہے کہ  ترکی اور قطر شام  کے اعتدال پسند مخالفین کی حمایت  کر رہے ہیں ۔  مخالفین کو آستانہ اور جنیوا میں مذاکرات کی میز پر بٹھانے کے لیے رضامند کرنے والے ممالک بھی ترکی اور قطر ہی ہیں ۔

پٹرول برآمد کرنےوالے ممالک کی تنظیم اوپیک کے رکن ملک قطر  پر سفارتی  پابندیاں لگانے سے  پٹرول کی قیمتوں میں واضح ا ضافہ ہوا ہے ۔ برینٹ پٹرول کی فی بیرل قیمت دو فیصد اضافے کیساتھ 50 ڈالر سے تجاوز کر  گئی ہے  ۔اگر علاقے میں بحران میں اضافہ ہوا تو قطر کے اوپیک سے علیحدگی کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔  اگر ایسا ہوا تو پٹرول کی قیمتیں کافی حد تک بڑھ جائیں گی ۔ ہمیں امید ہے کہ ترکی جیسے علاقائی ممالک کی   ثالثی میں   اس بحران کو قلیل مدت میں حل کر لیا جائے گا   اور علاقے میں کسی نئی خلیجی جنگ کو روک دیا جائے گا۔ سعودی عرب کی زیر قیادت یمن کے مسئلے کی انتظامی شکل کو دیکھا جائے تو اس بحران کے علاقائی جنگ میں بدل جانے   کا کم سہی لیکن پھر بھی احتمال موجود ہے ۔

ترکی اپنی روائیتی  خارجہ پالیسی کے مطابق علاقے میں شعیہ سنی جیسی مذہبی قطب پذیری سے دور رہے گا     لیکن علاقے کے اہم حلیف ملک قطر کو علاقے میں الگ تھلگ رکھنے  کے خلاف اپنی دوستی کا بھی برملا اظہار کرتا رہے  گا ۔  اسلامی تعاون تنظیم کے موجودہ صدر ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی طرف سے جاری سفارتی کوششیں اس ضمن میں اہم آغاز ہیں ۔  قطر بحران  شروع ہونے کے فوراً بعد صدر ایردوان نے  جو سفارتی کوششیں کی ہیں  وہ  بحران  کو بھڑنے سے روکنے میں مدد گار ثابت ہوئی ہیں ۔ قطر نے بھی بحران کے آغاز سے جس دانشمندی اور دور اندیشی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے بھی بحران کو مزید بڑھنے سے روکا  گیا ہے ۔ترکی خلیجی علاقے میں استحکام کو اپنے استحکام کی نظر سے دیکھتا ہے ۔ وہ داعش ،انتہا پسندی ،  فرقہ بازی اور اسلام فوبیا  کے خلاف جدوجہد میں تمام علاقائی ممالک کیساتھ تعاون کو انتہائی اہمیت دے رہا ہے ۔ بلاشبہ ممالک کے درمیان مسائل اور نظریاتی اختلافات ہو سکتے ہیں لیکن انھیں مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی کو  قطر بحران  پیدا ہونے سے صدمہ ہوا ہے اور اس بارے میں اسے سخت تشویش بھی  لاحق ہے ۔ ترکی اس بحران کو حل کروانے اور صورتحال کو  معمول پر لانے   کے لیے ہر ممکنہ کوششیں صرف کرئے گا ۔

 



متعللقہ خبریں