حالات کے آئینے میں 22

صدرِ ترکی کا دورہ امریکہ اور ترک ۔ امریکی تعلقات کی پیش رفت

741533
حالات کے آئینے میں 22

صدر  رجب طیب ایردوان کا  دورہ امریکہ،  ترکی۔ امریکہ تعلقات میں   در پیش   آنے والے   بد ترین بحرانوں  میں سے ایک کے ماحول میں سر انجام پایا۔ مذاکرات  سے  قبل امریکی پریس  میں  ایردوان     کے   ٹرمپ  کے ' مشکل ترین مہمانوں' میں سے  ایک   ہونے  پر تبصرے کیے گئے۔  مقامی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں   ایک کلیدی دور سے گزرنے والے ترکی۔ امریکہ  تعلقات   کے ایک نازک موڑ سے گزرنے  اوران دونوں ملکوں کے   باہمی تعلقات    کی  زنجیر  ٹوٹنے کے قریب  ہونے   پر   تحریریں   شائع کی گئیں ۔تاہم،  جیسا کہ ہم اس سے قبل بھی ایک  تبصرے میں واضح کیا تھا کہ  یہ  تمام تر  سنیارو   غلط ثابت ہوئے ہیں۔ صدر  ٹرمپ کی جانب سے   مہمان کو  دروازے  تک  آتے ہوئے خوش آمدید کہا اور صدر  ایردوان     سے عزت و احترام سے پیش آئے۔  بعد میں  پریس کانفرس کے دوران دونوں سربراہان نے   ترک۔ امریکن تعلقات کی اہمیت  پر زور دیتے  ہوئے   تنازعات  ہونے والے     معاملات  کو زیر لب لانے سے  اجتناب برتا۔ لہذا         اس ملاقات  کے  بیرونی    پہلووں کا جائزہ لینے سے   ان کے  مثبت اور کامیاب  گزرنے کا کہنا  ممکن ہے۔

اس دورے  کی کلیدی  اہمیت  کے مطابق  جناب  ِ صدر    اس ملاقات کو  بنیادی   معاملات کے عنوانات اور اہم وزراء اور منتظمین پر مشتمل  ایک وفد    کے ہمراہ گئے۔ زیر بحث لائے جانے والے معاملات میں  فوجی،  سٹریٹیجک ، سیاسی اور اقتصادی  تعلقات  سے لیکر   دہشت گردی کے خلاف جدوجہد        تک   ترک۔ امریکن  تعلقات  کو منفی طور پر متاثر کرنے والے    کئی معاملات  شامل تھے۔   یہ ، شام اور مشرق  وسطی کی عمومی  صورتحال،   ترکی  کی مانگ ہونے والا اسلحہ اور فوجی سازو سامان، انسداد دہشت گردی،  فیتو کا معاملہ، وائے پی   جی اور  دہشت گرد تنظیموں  خاصکر  داعش کے خلاف جنگ اور   راقہ   میں منصوبہ بندی کردہ آپریشن    کی  طرح کے    ترک۔ امریکی تعلقات کو  متاثر کرنے والے   اہم  معاملات  پر مبنی تھے۔

اگر  ہم امریکہ میں ہونے والے مذاکرات کے  نتائج کا جائز ہ لیں  تو صدر ایردوان  اور    ان کے وفد    میں شامل   حکام کے اعلانات  اور  پریس  میں شائع ہونے والے تبصروں   سے یہ پتہ چلتا ہے  کہ  یہ  دورہ مطلوبہ   نتائج      سے  دور رہا ہے۔  خاصکر    دہشت گرد تنظیم فیتو کا معاملہ اور  وائے پی جی  دہشت گرد تنظیم  سے  متعلق معاملات میں  امریکہ کے مختلف نظریات کے مالک ہونے کا  واضح طور پر    مظاہرہ ہوا ہے۔  صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے  فیتو   کے معاملے   کے ایک قانونی سلسلہ ہونے  کا دعوی کرتے ہوئے  ترکی  کے مطالبات  پر  منفی    مؤقف کا مظاہرہ  کیا ہے۔ تاہم ، اس نے  فیتو   کی سرگرمیوں  کا بغور جائزہ لینے کے  لیے ایک کمیشن   کے قیام  کا عندیہ دیا ہے۔ وائے پی  جی   کے معاملے میں   اس   ڈھانچے کے PKK سے  مختلف ہونے  کے نظریے   کو بالائے   طاق رکھتے ہوئے   امریکہ  کی داعش مخالف  جنگ   میں  اور راقہ پر قبضے   کے لیے اس تنظیم  کے ساتھ تعاون  کے جاری رہنے   کاکہا گیا ہے۔

گلاس کے  بھرے ہوئے    حصے کا  جائزہ لینے سے یہ کہنا بھی ممکن ہے کہ   مذکورہ دورے میں کافی   مثبت  نتائج بھی  حاصل ہوئے ہیں،    اولین طور پر  ترک۔ امریکی تعلقات    کسی غیر یقینی   کے گرداب   کے پنجے سے نجات   حا صل کر چکے ہیں۔  دونوں  ملکوں کے    رابطوں اور  تعلقات کو   بحرانوں  کے    چنگل   سے نجات دلاتے ہوئے انہیں   کنٹرول     میں لے لیا گیا  ہے اور اس طرح ترکی اور امریکہ کے درمیان   ایک  نئے دور کا آغاز  کیا گیا ہے۔ نئے دور میں دو طرفہ تعلقات   کو  سٹریٹیجک حصہ داری کی سطح تک بڑھانے  یا نہ  بڑھانے  کا تعین  اٹھائے جانے والے سیاسی اور عسکری اقدامات  اور     عالمی سطح   پر  پیش رفت   سے ہو گا۔  تاہم، کم ازکم یہ ضرور ہوا ہے کہ    پٹری سے اُترنے والے   ترک۔ امریکن تعلقات   دوبارہ  معمول کی سطح پر آ گئے ہیں۔  اس کے علاوہ  ترکی کی  جانب   سے مانگے  گئے   ایک   سو کے قریب  سکورسکی  قسم کے  ہیلی  کاپٹروں اور  ڈراؤن  طیاروں کی  فروخت  کے   معاملے میں  صدر ٹرمپ  نے  مدد گار ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ علاوہ ازیں اقتصادی  تعلقات کے فروغ  کے معاملے میں مطابقت قائم ہوئی ہے۔  وائے پی جی کے معاملے میں  ترکی   چاہے  جس حد تک  اپنے مطالبات کو پورا نہیں کرا سکا ہے تو بھی  اس حوالے سے امریکہ کے مؤقف میں نرمی لانے  میں  کامیاب رہا ہے۔  صدر ٹرمپ  نے  وائے پی جی  کی جانب سے ترکی پر حملوں  اور اس تنظیم  کو دیے جانے والے  امریکی اسلحہ کو  ترکی کے خلاف استعمال    کرنے کی اجازت نہ دینے  کی ضمانت  دی ہے۔ شاید  آئندہ کے  مرحلے میں  وائے پی جی کو دیے گئے   بھاری اسلحہ کو  راقہ  آپریشن کے بعد  واپس   بھی لیا جا سکتا ہے۔

نتیجتاً  امریکہ کے اپنے  مفادات اور ایک  عالمی  طاقت کے طور پر   اپنے کردار کو جاری رکھ سکنے کے لیے   ایک علاقائی طاقت ترکی کے ساتھ   تعاون قائم کرنا  لازمی ہے۔ صدر  ٹرمپ کا  سرد  جنگ کے دور میں ترک۔ امریکی  اتحاد    کی اہمیت پر زور دینا   امریکہ  کی ترکی   کے  ساتھ  اس حکمت عملی کے تقاضے  کا مظہر ہے۔  ترکی کو   امریکہ کی  طرح  کے   اہم  ملکوں  کے ساتھ  خاصکر شام اور عراق میں   اور عمومی طور پر مشرق وسطی  کے جغرافیے میں     جاری سیاسی پالیسیوں اور حکمت عملی   کے منفی اثرات اور نقصانات  کا تحفظ کرنے اور  ان کو مشترکہ  مفادات کی شکل میں     جاری رکھنے اور   معمول  کے تعلقات پر عمل پیرا رہنے کی  ضرورت ہے۔



متعللقہ خبریں