عالمی معیشت 17

عالمی قرضوں کے اداروں کی اجارہ داری اور ترک معیشت

721043
عالمی معیشت 17

 ترکی میں  حکومتی نظام  کی تبدیلی  کا فیصلہ عوامی ریفرنڈم کی صورت میں سامنے آیا جس کے نتیجے میں اب ملک   ایک نئے دور میں داخل ہوگا۔

 ترکی میں  متعدد ریفرنڈمز کا انعقاد  کیا گیا  لیکن سولہ اپریل سن 2017  کا  جو ریفرنڈم تھا   وہ ایک لحاظ سے منفرد  بھی تھا کیونکہ  اس کے نتیجے میں  ملک میں حکومتی نظام بدلنے  کی ذمہ داری اب  جمہور   کے کندھوں پر ڈال دی گئی  جس کا  نتیجہ  ملک میں سیاسی انتشار کے خاتمے کی صورت میں نکلےگا۔

 ترکی میں اس نئے دور  کا آغاز ترمیم آئین  سے ہوگا جس میں  ملکی عدلیہ کے  قوانین میں ردو بدل   اور اس کے فرسودہ طریقہ کار   کو زائل کرنے میں  مدد ملے گی  جبکہ ملکی اداروں  کو بہتر طور پر اپنی خدمات  کی بجا آوری  کا بھی موقع ملے گا ۔

 ریفرنڈم    قبول ہونے کی صورت میں   ملکی معیشت  پر  بھی مثبت اثر پڑنے کی توقع  کی جا رہی ہے ۔ امید ہے کہ اس نئے نظام کی بدولت  معیشت  میں  استحکام  پیدا ہوگا     جس  کے بعد ملک  ترقی   کی نئی منازل طے کرنے میں بغیر رکارٹ پیش قدمی کرتا رہے گا جس سے ملکی فی کس آمدنی کی شرح بھی بڑھے گی ۔

 

ترکی میں  گزشتہ 15 سالوں   سے اقتصادی  استحکام کامیابی سے ہمکنار رہا ہے    جس سے اُس  کا شمار  علاقائی ممالک  میں ممتاز   اور مثالی حیثیت  کے طور پر ہوتا ہے اور اس نئے نظام   کے اطلاق سے  ترکی اب   قرضوں کے  عالمی اداروں   کی  من مانی سے  بھی نجات حاصل کر سکے گا۔

 ترکی کا حالیہ نظام حکومت  سالہا سال سے معاشی ادروں  کے درمیان  ناچاقی کا سبب بنا رہا   جس کے خاتمے کےلیے صدارتی نظام    سود مند  رہے گا جس سے ملکی معیشت کا پہیہ   بھی بغیر رکاوٹ چلتا رہے گا۔ماضی پر اگر نگاہ ڈالی جائے تو  ترکی میں  معاشی بحرانوں کا سلسلہ اور  عالمی مالیاتی فنڈز کے قرضوں کا بوجھ صاف نظر آتا ہے ۔ ایک  تجزیئے کےمطابق  ترکی نے اپنی جمہوری تاریخ کے دوران 15 دفعہ آئی ایم ایف سے قرضہ  سخت شرائط پر حاصل کیا  جس کی مستقبل میں  روک تھام کےلیے  ملک کے معاشی اداروں   میں اصلاحات کے نفاذ   اور اداروں کے درمیان  روابط   کو بہتر بنانے کےلیے ایک منظم   پالیسی     رائج کرنا ضروری ہوگا۔

ان اصلاحات کی بدولت   ترکی اقتصادی ہی نہیں بلکہ  توانائی ، مالیاتی  اور نقل و حمل جیسے متعدد شعبوں  میں    علاقائی سطح پر ایک قابل تقلید ملک بن سکے گا اور غیر ملکی سرمایہ کاری     کےلیے ایک سازگار ماحول بھی تشکیل دے گا۔

اس کے علاوہ گزشتہ 15 سالوں سے  ملکی ترقی  کے نتیجے میں  امیر  وغریب کے درمیان   مالی  امتیاز  کم کرنے میں جو  کامیابی نصیب ہوئی ہے  اسے مزید پروان چڑھانے کے لیے بھی نیا نظام  نا گزیر ہے  کیونکہ   ملک میں بسے اوسط آمدنی کے  حامل افراد         کی اقتصادی حالت بہتر بنانا  سیاسی توازن کے نقطہ نظر  سے   کافی اہم ہے ۔

 موجودہ صورت حال   میں  یہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ  ملک کا موجودہ  نظام فرسودہ  اور ناقص ہے   جسے بدلنے کےلیے عوام نے 16 اپریل کو   جو فیصلہ سنایا ہے  وہ   ترک تاریخ کا ایک سنہری موقع ہوگا۔

 اب وقت آگیا ہے کہ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک و قوم کو  ترقی کی نئی راہ پر  گامزن کیا جاسکے۔

 

 

 



متعللقہ خبریں