قدم بہ قدم پاکستان - 11

آج آپ کو صحرائے چولستان میں واقع قلعہ دراوڑ کی سیر کرواتے ہیں. قلعہ دراوڑ صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں واقع ہے۔ یہ علاقہ وسیع صحرا پر مشتمل ہے جسے ”چولستان“ کہتے ہیں لیکن یہ علاقہ ”روہی“ کے نام سے مشہور ہے

693098
قدم بہ قدم پاکستان - 11

آیئے! آج آپ کو صحرائے چولستان میں واقع قلعہ دراوڑ کی سیر کرواتے ہیں. قلعہ دراوڑ صوبہ پنجاب کے جنوب مشرقی علاقے احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور میں واقع ہے۔ یہ علاقہ وسیع صحرا پر مشتمل ہے جسے ”چولستان“ کہتے ہیں لیکن یہ علاقہ ”روہی“ کے نام سے مشہور ہے۔ اس علاقے میں خانہ بدوش قبائل آباد ہیں جن کی دولت اور گزر اوقات کا ذریعہ اونٹ، بکریاں اور بھیڑیں ہیں۔ یہاں بارش کبھی کبھار ہی ہوتی ہے۔ بارش کے پانی کو چھوٹے چھوئے گڑھوں میں جمع کر لیا جاتا ہے جنہیں ٹوبہ کہا جاتا ہے۔ مشکل طرز زندگی کے باوجود یہاں کے لوگ اپنے ماحول اور ثقافت سے بہت پیار کرتے ہیں۔ اس صحرا کی تہذیب بہت پرانی ہے جو اپنی ایک رومان بھری ثقافت اور تاریخ رکھتی ہے۔

آپ کو قلعہ دراوڑ کی سیر کروانے اور اس کے بارے میں مستند معلومات فراہم کرنے کےلئے طویل سفر کر کے خود یہاں پہنچا ہوں۔ قلعہ دراوڑ دیکھنے میں یوں لگتا ہے جیسے ریت کے سمندر میں ایک بحری جہاز لنگر انداز ہے۔ 30میٹر بلند بل کھاتی دیواروں پر مشتمل قلعہ چوکور یا مربعہ شکل میں ہے۔صحرائے چولستان کے دل میں واقع یہ تاریخی قلعہ اپنی منفرد بناوٹ کی وجہ سے متاثر کن ہے۔ جو سیاحوں کےلئے نہایت اہمیت اور دلچسپی کا باعث ہے۔ وکی پیڈیا کے مطابق یہ قلعہ رائے ججا بھٹی نے نویں صدی میں راول دیوراج بھٹی کو خراج تحسین پیش کرنے کےلئے تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ پہلے ڈیرہ راول کے نام سے جانا جاتا تھا جبکہ بعد میں ڈیرہ داوڑ کہلانے لگا لیکن رفتہ رفتہ قلعہ دیراوڑ کے نام سے پکارا جانے لگا۔ بعض روایات کے مطابق اسے بھاٹی یا بھاٹیہ نے تعمیر کروایا تھا جسے دیو راول بھی کہا جاتا تھا۔ اس کے نام پر قلعے کا نام دیو راول رکھا گیا لیکن بعد میں اسے دراوڑ کہا جانے لگا۔

بہاولپور کے نواب محمد خان اول نے 1733ءمیں اس قلعے کو دوبارہ تعمیر کروایا تھا۔ نواب محمد بہاول خان کے دور میں راول سنگھ نے 1747ءمیں اس پر قبضہ کر لیا جبکہ 1804ءمیں نواب مبارک خان نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ اٹھارویں صدی کے آخر میں دراوڑ کا علاقہ ریاست بہاولپور کے حاکموں کے کنٹرول میں تھا۔ شاہی قبرستان کے علاوہ قلعہ دراوڑ کے باہر سنگ مرمر کی ایک خوبصورت مسجد دور سے دکھائی دیتی ہے۔ کچھ فاصلے پر ہندووں کے مندر بھی موجود ہیں۔ مسجد کی خوبصورتی دیدنی ہے۔

زمانہ قدیم میں چولستان میں کبھی دریائے ہاکڑ ہ ٹھاٹھیں مارا کرتا تھا جو اب خشک پگڈنڈی کی شکل میں موجود ہے۔ اس کے اردگرد کچی پکی اینٹوں کے تقریباً چالیس قلعوں کے کھنڈرات ہیں۔ غالباً ان قلعوں کی صورت میں مسلمانوں نے اپنے اردگرد کے خون خوار ہمسایوں سے حفاظت کے خیال سے دفاعی لائن قائم کی تھی۔ آج سے نصف صدی پہلے تک چار ہزار سے زائد قدیم عمارات کے آثار موجود تھے جو چار ہزار قبل مسیح سے اسلامی دور کے آغاز تک یہاں تہذیب و تمدن کی ارتقا کی کہانی بیان کرتے ہیں۔

قلعہ دراوڑ میں چالیس برج ہیں۔ اندر ایک کنواں اور مرکزی دروازے کے پاس ایک بہت بڑا تالاب ہے۔ یہ دونوں اب خشک ہیں۔ مشرقی سمت میں قلعہ کا خوبصورت مرکزی دروازہ ہے۔ قلعے کے برج اور بیشتر عمارات جو نواب کے فوجی دستوں اور شاہی رہائش گاہ کے طور پر استعمال ہوتی تھیں ابھی تک موجود ہیں۔ جنوب مشرقی برج میں نواب کی ذاتی رہائش گاہ نہایت خوبصورتی سے منقش کی گئی ہے۔

قلعے کے صحن نما بڑے میدان میں ایک قدیم توپ رکھی گئی ہے جو حملہ آوروں پر گولہ باری کےلئے استعمال ہوتی تھی۔ اس کے قریب ہی ایک سرنگ ہے جس میں جانے کےلئے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں، سرنگ میں راہداری بنی ہوئی ہے سیڑھیوں سے تھوڑا آگے سرنگ پر ایک چبوترہ بنایا گیا ہے جس کے ذریعہ ہوا اور روشنی سرنگ میں آتی ہے۔ اس تاریخی قلعے کی خوبصورتی برقرار رکھنے کےلئے اس کے تحفظ اور مرمت کی ضرروت ہے۔ قلعہ دراوڑ کو جاتے ہوئے سرخ اینٹوں کے کھنڈرات دکھائی دیتے ہیں جو صحرا کے ریتلے پس منظر میں جداگانہ حیثیت کے حامل ہیں۔ بہاولپور کے علاقہ چولستان کے جس حصے میں یہ قلعہ دراوڑ واقع ہے اس میں کئی ٹیلے، وسیع میدان اور ٹھیکریوں کے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں۔

قلعہ دراوڑ کے کچھ فاصلے پر چنن پیر کا مزار ہے جو روایتی قبروں سے مختلف، گولائی میں ایک بڑے ٹیلے کی شکل میں ہے۔ یہاں ہر سال فروری اور مارچ میں دو ماہ تک عرس ہوتا ہے۔ مرد، خواتین اور بچے دور دراز سے پیدل اور ٹریکٹر ٹرالیوں وغیرہ پر یہاں آ کر حاضری دیتے ہیں۔ خاص طور پر جن خواتین کے ہاں اولاد نہیں ہوتی وہ یہاں آ کر منت مانتی ہیں۔ کہا جاتا ہے وہ من کی مرادیں پاتی ہیں۔

قلعہ کے نزدیک ایک اہم جگہ صحابہ کرامؓ کے مزار ہیں۔ ایک چوکور کمرے میں چار صحابہ کرامؓ کی بڑی بڑی قبریں ہیں۔ ان کے نام حضرت طیبؓ، حضرت جوارؓ، حضرت طاہرؓ اور حضرت جوادؓ لکھے ہوئے ہیں۔ ساتھ ہی بارگاہ رسالتﷺ میں عرصہ خدمت بھی لکھا ہوا ہے جو 6 سال سے 21 سال تک ہے۔ یہاں بھی لوگ دور دراز سے حاضر ہوتے ہیں۔

حال ہی میں یہاں صحرائے چولستان جیپ ریلی کا بھی آغاز کیا گیا ہے جس میں ملک بھر سے آنے والے ماہر ڈرائیور ریگستان کے ٹریک پر جیپ ریس میں حصہ لیتے ہیں۔ جیتنے والوں کو بھاری انعامات دیئے جاتے ہیں۔ اس ریلی کو اب ایک ثقافتی میلے کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے کیونکہ ریلی کے علاوہ یہاں ثقافتی شو اور مختلف پروگرام بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ اس سے سیاحوں کی اس علاقے میں دلچسپی بڑھ گئی ہے اور ہزاروں لوگ یہ جیپ ریلی دیکھنے آتے ہیں۔ جیپ ریلی محکمہ سیاحت اور ہوبارہ فاونڈیشن انٹرنیشنل پاکستان کے اشتراک سے ہوتی ہے۔ بہاولپور، رحیم یار خان اور رجھان وغیرہ میں ہوبارہ فاونڈیشن کی خدمات مثالی ہیں۔

 



متعللقہ خبریں