ترکی کے دریچے سے مشرق وسطی 09
کرکوک اور موصل میں ترکمین ایک طرف داعش سے برسر پیکار ہیں تو دوسری طرف وہ سیاسی مسائل کے حل کے منتظر ہیں
عراق میں داعش کے خلاف جدوجہد اور موصل کاروائی بھر پور طریقے سے جاری ہے ۔ اس تجزیے میں عراق میں بسنے والی قوم ترکمین کے بارے میں اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار جمیل دوعاچ اپیک کی تحریریں پیش خدمت ہیں۔
اگر چہ ترکمین جنوبی عراق سے لیکر شمالی علاقے ڈھوک تک کے وسیع و عریض علاقے میں مقیم ہیں لیکن ان کی اکثریت کرکوک ،عربل صلاح الدین اور دیالہ جیسے اضلاع میں ہے ۔
کرکوک کی چار تحصیلوں میں سے تین دیبیس ،تاوک اور مرکز میں ترکمینوں کی بھاری اکثریت آباد ہے۔ تازے ہوماتو میں بھی ترکمین آباد ہیں ۔ موصل کی آبادی عربوں اور ترکمینوں پر مشتمل ہے ۔ موصل کےعلاقوں تلیفر، مرکز، تل کیف اور حمدانیے میں بھی ترکمین آباد ہیں ۔کفری، باکوبا ،بیلےدروز، حانیکین، مقدادیے کے علاقوں میں بھی ترکمینوں کی اکثریت آباد ہیں ۔صلاح الدین کے علاقے توزحرماتو اور اس کی تحصیلوں عامر لی اور سلیمان میں سب سے زیادہ ترکمین آباد ہیں ۔
عراق کے دیگر شہروں میں بھی ترکمین خاندان آباد ہیں ۔ اگر 2010 کے انتخابات میں بغداد میں ترکمین امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کا حساب کیا جائے تو 20 ہزار ترکمینوں نے انھیں ووٹ دئیے ہیں ۔ عربل میں تین لاکھ کے قریب ترکمین موجود ہیں ۔ ترکمین قلعے کے جوار میں بھی تاجی ، میریکے اور عچھ تاک محلوں میں بھی ترکمینوں کی اکثریت آباد ہے ۔
1991 میں بحران خلیج کے بعد شمالی عراق میں انتظامیہ کا خلاء پیدا ہوا ۔شام کے شمالی علاقوں میں ترکمین سیاسی تحریکوں نے زور پکڑا جس کی وجہ سے انھیں سیاسی تنظیموں نے اپنا ہدف بنایا ۔ 2003 تک ترکمین سیاسی تنظیموں کو ہدف بنانے والے حملے کیے جاتے رہے ۔ 1996 ،1998 اور سن 2000 میں عراقی ترکمین محاذ پر سفاکانہ حملے کیے گئے ۔امریکہ اور اتحادی قوتوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ترکمینوں کے لیڈروں پر قاتلانہ حملے کیے جاتے رہے ۔ 2003 سے لیکر ابتک 10 سے زائد ترکمین لیڈر ہلاک ہو چکے ہیں ۔
جب سے عراق معرض وجود میں آیا ہے اسوقت سے لیکر ابتک نسلی گروپوں میں سے ترکمینوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں ۔ 2003 میں عراق پر امریکی قبضے کے بعد بھی ترکمین دہشت گردی ،سیاسی دباؤ اور سیاسی قطب پذیری کا ہدف بنتے رہے ہیں ۔ ترکمینوں کو جائے مقیم جغرافیے اور نفوس کے ڈھانچے کی وجہ سے بھی نسلی ،دینی، سیاسی اور انتظامی چپقلش کا سامنا کرنا پڑا ۔ انھیں 2009 تک سیاست سے دور رکھا گیا ۔ 2014 میں جب داعش نے موصل میں دہشت گردی شروع کی تو ا نھوں نے موصل اور شام کے علاقے میں بسنے والے ترکمینوں کو اپنا ہدف بنایا ۔ امریکہ کی زیر قیادت اتحادی قوتوں نے داعش پر بمباری کا سلسلہ شروع کیا لیکن وہ داعش کی دہشت گرد کاروائیوں کو ختم نہ کروا سکیں۔ہجرت کی عالمی تنظیم نے اعلان کیا ہے کہ 2014 کے آغاز سے لیکر ماہ ستمبر تک عراق کے 1634 علاقوں سے 1٫8 میلین ترکمین ،سنیّ عرب ،یزیدی ،عیسائی اور شیبک باشندے اپنے گھر بار ترک کرنے پر مجبور ہوئے ہیں ۔
ترکمینوں کو سیاسی میدان میں جو اہم ترین مسئلہ درپیش ہے وہ نمائندگی کا مسئلہ ہے ۔ترکمینوں کی حکومت میں نمائندگی کے مسئلے کو ابھی تک حل نہیں کیا جا سکا ہے ۔ اگست 2015 میں عراقی حکومت نے بعض وزارتوں کو ملا نےیا ان کی تعداد میں کمی کرنے کا فیصلہ کیا جس کے بعد ترکمینوں کے پاس جو ایک وزارت تھی وہ بھی ختم ہو گئی ۔ ترکمین وزیر محمد مہدی بیاتی کی انسانی حقوق کی وزارت کو حکومت عراق نے ختم کر دیا ۔اس طرح حکومت میں ترکمینوں کی نمائندگی کو ختم کر دیا گیا ۔
کرکوک اور موصل میں ترکمین ایک طرف داعش سے برسر پیکار ہیں تو دوسری طرف وہ سیاسی مسائل کے حل کے منتظر ہیں ۔ عراق میں درپیش انسانی المیہ کے علاوہ ترکمینوں کو دیگر سنجیدہ خطرات بھی لا حق ہیں ہم نسل ہونے کی بنا پر ترکی پر اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ۔ عالم ترک کو اس حساسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے عراقی ترکمینوں کے بارے میں عراق اور عالمی سطح پر قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ اسوقت ترکمینوں کے حقوق کو قانونی طور پر ضمانت میں لینے اور ترکمینوں کو اپنے تحفظ کے لیے اپنی مسلح فوج تشکیل دینے کے لیے زمین ہموار کرنے کی ضرورت ہے ۔ عراق میں اہم آبادی رکھنے والے نسلی اور مذہبی گروہوں میں سے صرف ترکمین ہی ہیں جو اپنے دفاعی میکانزم سے محروم ہیں ۔ اس صورتحال کی وجہ سے ترکی اور عالم ترک کو ان کی مدد کرنے کی ضرورت ہے ۔