ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔08

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔08

678468
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔08

 

 جمہوریہ ترکی  اور آزاد شامی فوج نے شام کے شہر الباب میں داعش کیخلاف  جو کاروائیاں کی ہیں وہ انتہائی کامیاب رہی ہیں ۔ آج کے اس پروگرام میں ہم الباب  پر قبضے کے بعد فرات ڈھال کاروائی کے مستقبل اور کونسے علاقوں کی جانب پیش قدمی کے موضوع کا جائزہ لیں گے ۔ اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک  کا اس موضوع پر جائزہ  پیش خدمت ہے ۔

فرات ڈھال کاروائی  کے دائرہ کار میں الباب کاروائی تقریباً ختم ہونے کے قریب ہے ۔الباب پر قبضہ کرنے کے لیے شہر کے  اندر جھڑپیں شروع ہو گئی ہیں ۔ ترکی کی زیر حمایت آزاد شامی فوج نے  8 فروری 2017 کی شب الباب پر قبضہ کرنے کے لیے شہر کے مغربی علاقے سےپیش قدمی شروع کی تھی جو ابھی تک جاری ہے لیکن قوی احتمال ہے کہ قلیل مدت میں الباب  ترکی اور آزاد شامی فوج کے زیر کنٹرول آ جائے گا ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا الباب پر قبضے کے بعد فرات ڈھال کاروائی ختم ہو جائے گی یا پھر اسے وسعت دیتے ہوئے جاری رکھا جائے گا ۔ اگر اس کاروائی کو جاری رکھا گیا تو    پھر کونسے علاقوں میں یہ کاروائی کی جائے گی ؟

 حالیہ کچھ عرصے سے اس بارے میں مختلف رائے پیش کی جا رہی ہیں  لیکن صدر رجب طیب ایردوان نے خلیجی ممالک کے دورے سے قبل پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے  ترکی کی شام سے متعلق پالیسی کے اہداف کی وضاحت کی تھی اور کہا تھا کہ جلد ہی الباب کو آزاد کروا لیا جائے گا اور اس کے بعد ہمار ہدف راکا اور منبیچ کے علاقے ہونگے ۔

 ترکی کا ہدف الباب نہیں بلکہ علاقے کو دہشت گرد تنظیموں  داعش ، پی کے کے اور وائے پی جی

 سے پاک کروانا  اور شام کے شمالی علاقے کے چار پانچ ہزار کلومیٹر کے علاقے سے دہشت گردوں  کا صفایا کرواتے ہوئے اسے سلامتی کے علاقے بنانا اور اس علاقے کو پروازوں کے لیے ممنوعہ علاقہ قرار دلوانا ہے ۔   اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کروانے کے بعد بعض علاقوں میں شامی مہاجرین کو آباد کرنا ہے ۔

الباب اور راکا کے درمیان واقع بعض علاقے اسوقت  اسد قوتوں اور وائے پی جی کے قبضے میں ہیں ۔الباب پر ترکی اور آزاد شامی فوج کے کنٹرول کا مطلب ان علاقوں کی داعش کیساتھ سرحد کا  نہ ہونا ہے ۔ فرات ڈھال کاروائی کے دائرہ کار  میں اب منبیچ ،تل ابیاد ، آفرین اور تل رفعت کے علاقوں  کی جانب پیش قدمی کی جائے گی ۔

راکا شہر کا مرکز ترکی کی سرحد سے کافی دور  ہے جس کی وجہ سے ترکی کو فوری طور پر یہاں سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ داعش یہاں سے ترکی کو ہدف نہیں بنا سکتی  لیکن اس کے باوجود داعش سے لاحق خطرات کو ختم کرنے کے لیے راکا کو داعش سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔

 امریکہ اور مغربی ممالک شام ڈیموکریٹک قوتوں کیساتھ مل کر   راکا کاروائی کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ امریکہ نے  راکا کو داعش سے واگزار کروانے کے بعد وائے پی جی  کو شہر سے نکالنے کا جو اعلان کیا ہے وہ ناقابل یقین ہے ۔ امریکہ نے منبیچ اور تل ابیاد کے بارے میں بھی ایسے ہی وعدے کیے تھے  لیکن وائے پی جی نے ان علاقوں کو خالی نہ کیا  ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ تل ابیاد اور جوار کے علاقوں میں بسنے والے اور  اس کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے والے عربوں ،ترکمینوں اور کردوں کو زبردستی ہجرت پر مجبور کیا  گیا ہے ۔

ترکی عربوں ،ترکمینوں اور کردوں  کے درمیان  دشمنی کے بیج بونے والی اور طویل لمدت عدم استحکام کا سبب بننے والی پیش رفت کی روک تھام کرنا چاہتا ہے ۔ ان وجوہات کی بنا پر وہ راکا کاروائی میں حصہ لینے کا خواہشمند ہے ۔  اگر ترکی نے راکا کاروائی میں حصہ لیا تو فرات کے مشرق  میں بھی علاقہ حاصل کر لے گا اور آئندہ کے مرحلے میں اسے وائے پی جی کیخلاف جدوجہد میں استعمال کر سکتا ہے ۔

راکا کا ایک دوسرا پہلو بھی ترکی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔  راکا پر داعش اور وائے پی جی کے قبضے کے بعد  اس علاقے کے ہزاروں افراد نے ترکی کی جانب ہجرت کی تھی  ۔منبیچ اور راکا کیےمقامی عوام کا تعلق سنیّ عربوں اور ترکمینوں سے ہے ۔  ترکی ان انسانوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے لیے موزوں  شرائط پیدا کرنے کی آرزو رکھتا ہے ۔

صدر ایردوان یہ واضح کر چکے ہیں کہ شام کے جنوبی علاقوں میں  فوجی کاروائی نہیں کی جائے گی ۔ روس اورامریکہ شام اور عراق میں داعش کیخلاف جدوجہد کی  حکمت عملی  میں ترکی کے فعال کردار کی آدائیگی  کے خواہشمند ہیں  لیکن ان دونوں ممالک کا وائے پی جی  کے بارے میں موقف ترکی اور امریکہ اور روس کے تعلقات کے مستقبل کا تعین کرئے گا ۔

روس نے امریکہ کےمقابلے میں وائے پی جی سے تعلقات میں فاصلہ رکھا ہے لیکن امریکہ کے صدر ٹرمپ کا اس بارے میں موقف  واضح نہیں ہے۔  ٹرمپ اور ان کی ٹیم شام اور ترکی کے بارے میں مثبت بیانات دے رہی ہے  لیکن اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ  وائے پی جی کیساتھ اتحاد کی اہمیت کو بھی واضح کر رہے ہیں ۔ ٹرمپ انتظامیہ ترکی کیساتھ جامع سٹریٹیجک تعاون کیے بغیر ریڈیکل مشرق وسطیٰ پالیسی کے اہداف  کو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ اگر وہ اوباما انتظامیہ کی طرح ترکی اور وائے پی جی کیساتھ اتحاد کی پالیسی کو جاری رکھیں تو یہ تعاون ناممکن ہو گا ۔  اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکہ کو   ترکی  اوروائے پی جی میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے ۔



متعللقہ خبریں