ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔04

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔04

658853
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔04

 

  اس پروگرام میں ہم آپ کو  مشرق وسطیٰ کے علاقے  میں پیش آنے والے اہم واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں اور آج کے اس پروگرام میں شام کے شمالی علاقے کو  داعش سے پاک کرنے کے لیے ترکی کی  آزاد شامی فوج کیساتھ مل کر شروع کردہ  فرات ڈھال  کاروائی کے  موضوع پر اتاترک یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے لیکچرار  جمیل دوعاچ اپیک   کاجائزہ  پیش خدمت  میں پیش کیا جائے گا ۔

ترکی نے شام کے شمالی علاقے کو اپنا گڑھ بنانے والی دہشت گرد تنظیم داعش ،پی کے کے اور وائے پی جی کے خلاف  جدوجہد کے لیے آزاد شامی فوج کیساتھ مل کر فرات ڈھال نامی جو کاروائی شروع کی تھی ابھی تک جاری ہے ۔

ترکی کی سلامتی کو شام کے بحران  کی وجہ سے داعش پی کے کے اور وائے پی جی اور  اپنے ہی عوام پر مظالم ڈھانے والی اسد انتظامیہ سے  خطرات لاحق تھے ۔شمالی شام میں دہشت گرد تنظیموں کے خطر ناک عزائم کیوجہ سے ترکی نے اپنی اولیت کے ایجنڈے کو بدلتے ہوئے داعش اور پی کے کے خلاف جدوجہد شروع کر دی ۔ اس دائرہ کار میں ترکی نےآزاد شامی فوج کیساتھ مل کر شمالی شام میں ڈیرہ جمانے والی تنظیم داعش کیخلاف 24 اگست کو فرات ڈھال کاروائی کا آغاز کیا جس   کا مقصد پہلے مرحلے میں سرحدی لائن سے داعش   کا صفایا کروانا تھا ۔

 اس کاروائی کے دائرہ کار میں ترک مسلح افواج کی زیر حمایت آزاد شامی فوج نے چوبان بے اور جرابلوس علاقے کو دس  دنوں میں  اور  داعش کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل شہر دبیک کو ایک دن میں  داعش کے قبضے سے وا گزار کروا لیا ۔ جس سے  الباب کی آزادی کے بارے میں  رائے عامہ کی توقعات بڑھ گئی ہیں لیکن الباب کو داعش کے قبضے سے چھڑانا آسان کام نہیں ہے ۔حلب کی شمالی تحصیل   الباب  کی آبادی  چوبان بے ،دابک اور جرابلوس سے زیادہ ہے ۔ فرات ڈھال فوجی کاروائی کے دائرہ کار میں الباب کے 6 علاقوں کا محاصرہ کیا گیا ہے لیکن سٹریٹیجک ترجیح کی وجہ سے پورے قصبے کو محاصرے میں نہیں لیا گیا  ۔  اس کاروائی میں ترک مسلح افواج ،آزاد شامی فوج، ترکمین منتصر بریگیڈ ،فاتح سلطان مہمت اور سلطان مرات ڈویژن حصہ لے رہے ہیں ۔ اندازے کے مطابق الباب کے اندر داعش کے 300 کے قریب خود کش حملہ آور موجود ہیں  اور سب سے بڑھ کر یہ کہ داعش  شہریوں  کوزبردستی جاندار ڈھال کے طور پر استعمال کر رہی ہے ۔داعش الباب پر قبضے کو طویل عرصے تک جاری رکھنے کے لیے ہر ممکنہ کوششیں کر رہی ہے ۔داعش  نےتاجکستان کے تجربہ کار سابق انٹیلیجنس کے اہلکار کرنل عمر الباب کو فوجی کمانڈر  مقرر کیا ہے  اور ترک دشمنی کی وجہ سے مشہور شمالی عراق نژاد  مذہبی رہنما ابو عبداللہ کردی کو الباب  میں  عدالتوں کا سربراہ تعینات کیا ہے ۔داعش کے لیڈر البغدادی نے ایک ماہ قبل الباب کے امیر ترین خاندان سے تعلق رکھنے والی ماریے نامی لڑکی سے شادی کی   ہے اور  الباب کے داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کو اپنے رشتہ دار ہونے کا اعلان کیا ہے ۔اسوقت  داعش پی کے کے اور وائے پی جی سے بڑھ کر مزاحمت کر رہی ہے ۔ داعش نے اپنے تمام محاذوں پر امریکہ کی زیر قیادت مخلوط قوتوں  کیطرف سے اسد انتظامیہ کیساتھ جدوجہد کو روک دینے کی وجہ سے داعش کو الباب میں طاقتور بننے کا موقع مل گیا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ داعش اسوقت صرف الباب میں بر سر پیکار ہے اور اس کے خلاف جنگ کرنے والا واحد ملک ترکی ہی ہے ۔

 ترکی الباب میں داعش پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ   شمالی شام میں پی کے کے کے لیے راہداری کھلنے کی  بھی روک تھام کر رہا ہے ۔   الباب شہرشام میں تشکیل دئیے جانے والے سلامتی کے علاقے کے لیے سٹریٹیجی اہمیت کا حامل ہے ۔ ترکی فرات ڈھال کاروائی کیساتھ  داعش کیخلاف جدوجہد میں کامیابی حاصل کر رہا ہے لیکن ایسا  نظر آتا  کہ امریکہ اس کاروائی سے خوش نہیں ہے ۔ اس کی وجہ امریکہ کا شمالی  شام میں پی کے کے اور وائے پی جی کی مدد سے اپنے زیر کنٹرول علاقہ تشکیل دینے کا مقصد  ہے ۔ امریکی انتظامیہ وائے پی جی کی مدد سے داعش کا صفایا کروانا چاہتی ہے لیکن ترکی کی  کامیاب مداخلت اور ٹرمپ انتظامیہ کے بر سر اقتدار آنے سے امریکہ کی پالیسی میں تبدیلی آ سکتی ہے ۔

 حالیہ کچھ عرصے سے داعش کو شمالی عراق میں ترکی اور اس کی حلیف قوتوں کے سامنے سخت ہزیمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ اگر الباب شہر داعش کے قبضے سے نکل گیا تو اس کی کمر ٹوٹ جائے گی اور ان حالات میں  شامی مخالفین  اور پی کے کے ،وائے پی جی اور اسد قوتوں کے درمیان سخت جدوجہد شروع ہو سکتی ہے ۔

  یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ وائے پی جی دہشت گرد تنظیم پی کے کے کی ہی شام میں سر گرم عمل  شاخ ہے  اور شامی ڈیموکریٹک قوتوں کا 90 فیصد  کا تعلق وائے پی جی سے ہی ہے ۔  انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے وائے پی جی سر فہرست ہے ۔  آپ کو معلوم ہی ہے کہ اس تنظیم نے راکا شہر کے شمالی علاقے ال ابیاد  میں ترکمین ،سنی عربوں اور ان کی حمایت نہ کرنے والے کردی علاقوں پر حملے کرتے ہوئےانسانوں کو ہجرت کرنے پر مجبور کیا تھا   ۔ان وجوہات کی بنا پر پی وائے ڈی اور وائے پی جی کو فوری طور پر فرات کے مشرقی علاقوں کی جانب پس قدمی پر مجبورکرنے  اورفرات کے مشرقی علاقے میں بھی اسے طویل عرصے تک پناہ لینے کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی ضرورت ہے ۔اس تنظیم کیطرف سے عالمی فوجداری عدالت اور جنیوا معاہدے میں شہریوں کے حقوق  سے متعلقہ  شقوں کی خلاف ورزی کی حیثیت کے حامل جرائم کیوجہ سے اب عالمی برادری  کیطرف سے خاموشی اختیار کرنے کے بجائے آواز بلند کرنے کی توقع کی جاتی ہے ۔

 جمہوریہ ترکی کو طویل عرصے سے علاقے میں سنجیدہ  خطرات  کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا  ۔  جس کی وجہ سے ترکی کو بھی اپنی سلامتی کے تحفظ کے لیے جوابی کاروائی کی ضرورت تھی۔  دہشت گرد تنظیم  فیتو  کی 15 جولائی کی ناکام بغاوت کے بعد  ترکی کیطرف سے سرحد پار کاروائی  علاقے میں ترکی کی قوت کا بھی واضح ثبوت ہے ۔

 



متعللقہ خبریں