ابنِ خالدون اور ٹونی بی کی یاد: ابراہیم قالن کے قلم سے

ترکی  مسلمان ممالک کیساتھ مضبوط تاریخی اور ثقافتی روابط  کی بنا پر یورپی یونین  کی رکنیت  سے دستبردار نہیں  ہو سکتا

657360
ابنِ خالدون  اور ٹونی بی کی یاد: ابراہیم قالن کے قلم سے

ترکی کی خارجہ پالیسی  کے بارے میں حالیہ   کچھ عرصے کے دوران ہونے والی پیش رفت  نے  روس،  عراق،  ایران، آذربائیجان،  قازقستان،  اوزبکستان، سعودی عرب ، قطر متحدہ عرب امارات ،اسرائیل ، یورپی یونین ، بلقانی ممالک  اور کئی ایک اہم  افریقی ممالک  کے ساتھ  تعلقات کے  ایک نئے دور   کے امکانات  پیدا کیے ہیں۔ متحدہ امریکہ  کی جانب سے دہشت گرد تنظیم پی کے کے  کی شام میں موجود ایکسٹینشن  وائی پی جی  کی حمایت اور پشت پناہی کے باوجود  ترکی نے اوباما انتظامیہ کے ساتھ کئی ایک علاقائی   مسائل کے بارے میں  مشترکہ طور پر  کام کیا ہے۔ترکی نے مشرقی اور مغربی ، یورپی اور  مشرقِ وسطیٰ ، یوریشیا اور افریقہ ، شمالی  اور لاطینی  امریکی ممالک کے درمیان ایک توازن  اور مساوات قائم کرتے ہوئے  اپنی سیاسی حکمتِ عملی کو جاری رکھے ہو ئے ہے۔

اس طرح  ترکی کے اس نقطہ نظر  کے ذریعے  ترکی کی خارجہ پالیسی  کو   توازن پر عمل درآمد  کرنے کی پالیسی کے  طور پر ہی دیکھنے کی ضرورت ہے۔   ترکی   کے نیٹو  کے رکن ملک  ہونے   سے اس کے روس  ییا پھر چین کے ساتھ   اچھے تعلقات   قائم نہ  ہونے کے معنیٰ میں نہیں لیا جاجانا چاہیے۔

ترکی  مسلمان ممالک کیساتھ مضبوط تاریخی اور ثقافتی روابط  کیوجہ سے یورپی یونین  کی رکنیت  سے دستبردار نہیں  ہو سکتا  ۔  ان  دونوں عوامل میں  ایک دوسرے کو الگ تھلگ رکھنے  جیسی  عدم مساوات موجود نہیں ہے ۔اس کے برعکس اگر اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو عالم اسلام اور عالم مغرب میں  ایک صدی سے  پائے جانے والے مفروضوں ،غلط فہمیوں  اور سیاسی رقابت پر قابو پایا جا سکتا ہے اور طرفین کو  دو طرفہ تعلقات کو مستحکم بنانے کے مواقع مل  سکتے ہیں ۔ ترکی   ان تعلقات  کو  کسی دوسرے  پر برتری دیتے ہوئے  انھیں فروغ دینے یا قائم کرنے پر مجبور نہیں  ہے ۔

 ترکی  جغرافیائی محل وقوع  کی بنا پر  مختلف علاقوں اور براعظموں  کیساتھ تاریخی روابط کو برقرار رکھنے،سلامتی کےتحفظ ، عالمی مسائل کو دور کرنےاور  متوازن اور مساوی سیاست  کی پالیسی   اپنانے   پر مجبور ہے ۔ کم مراعات کے حامل عوامل ا نسانوں کے لیے  موثر ثابت نہیں ہو  سکتے۔ بعض حلقے ترکی کو حاصل تمام تر امکانات کو واحد سیٹ  پر لانے کے خواہشمند ہیں  لیکن حقیقت  اور ترکی کی وسیع النظری کثیر متبادل کا مالک بننے کی ضرورت پر زور دیتی ہے ۔

 شام میں حالیہ تین ماہ میں پیش آنےوالے واقعات اس کی واضح مثال ہیں ۔ گزشتہ سال ماہ جون میں روس کیساتھ تعلقات  کے معمول پر آنے کے بعد  ترکی نے روس کیساتھ دو طرفہ تعاون اور  شام کی جنگ سے متعلقہ  معاملات کو تیزی کیساتھ فرو غ دینا شروع کر دیا  تھا ۔

اقوام متحدہ اور امریکہ  جنیوا معاہدے  کے ماتحت  شام میں  وسیع  پیمانے  کی فائر بندی  کے قیام  میں ناکام  رہنے      کے بعد    اب ترکی اور روس نے    مشرقی حلب سے    انخلاء   اور فائر بندی  کے قیام  کو ممکن  بنایا  ہے۔

30 دسمبر  سن 2016  میں  نافذ العمل   ہونے والا ملک  گیر فائر بندی  کا معاہدہ    شامی انتظامیہ اور ملیشیا  گروہوں  کی خلاف ورزیوں کے  کے باوجود   تا حال لاگو ہے۔  اگر    ہم   عمومی  طور پر بات کریں تو   گزشتہ 6 برسوں   میں لاکھو ں کی تعداد میں انسانوں کے لقمہ اجل بننے  والی جنگ سے کہیں زیادہ بہتر صورتحال   اب  اس ملک میں قائم ہے اور اب   شام    کے مخالف     گروہ  اور  ملکی انتظامیہ 23 جنوری   کو آستانہ   مذاکرات    میں  شرکت    کے لیے  تیاریوں میں مصروف ہے۔

یہ   تازہ  پیش رفت   شام،  عراق اور     دیگر ملکوں  کی جھڑپوں کے قدرے   پیچیدہ      فطرت کے مالک ہونے   کی عکاس ہے اور عالمی  سیاسی توازن کو مختلف پہلووں  سے    متاثر   کر رہی ہے۔

دہشت گردی نے   قومی سرحدوں  سے باہر      ایک عالمی مسئلے کی  ماہیت اختیار کر لی ہے۔ ناکام حکومتیں اور کمزور ممالک ،   غیر سرکاری      اداکار،  طاقتور   رقابت  اور   اختیارات  کا فقدان      جنگوں کو مشرق وسطی سے یورپ    تک اور حتی امریکہ تک      تمام تر ملکوں کی سلامتی و  امن  کے لیے خطرہ تشکیل دے رہا ہے۔ یہ  چیلنج   عالمی سطح پر    ایک دوسرے سے  رابطہ قائم  اس کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے  کا تقاضا پیش کرتا  ہے۔۔ وگرنہ ہر  چیز اور ہر کس جدید   دہشت گردی  کے  وحشی  شعلوں کی  نظر ہو جائیگا۔  یہ صورتحال  ہمیں     تباہ کن   راستے پر     آگے   بڑھنے والی موجودہ  پیش  رفت  کے خلاف محاذ آرائی کرنے  اور ہمارے   مستقبل  کی جانب وسیع  نقطہ نظر کی ضرورت ہونے      پر سنجیدگی  سے  عمل  درآمد کا تقاضا پیش کرتی  ہے۔

  اس  تناظر میں    راقم گزشتہ  ایک ہزار سالوں کے مشہور زمانہ دو اہم  محققین  کا حوالہ دینا  ضروری سمجھتا  ہے۔ آرنلڈ ٹوئن  بی  تہذیب و تمدن   سے منسلک تبدیلی کے عمل  کو تبدیل کرنے کی نصیحت کرتا ہے  کیونکہ اُس کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرہ  تہذیب و تمدن        کی غیر  متوقع  صورت حال   اور خطرات کا   تعمیری انداز میں مقابلہ کرنے   کی بھرپور سکت رکھتا ہے اوراگر یہ عمل  رک جائے  تو  وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ   اپنی حیثیت  و وقعت کھونے لگتا ہے۔

 ٹوئن بی نے اپنی تصنیف  "اے اسٹڈی آف ہسٹری"  یعنی   "مطالعہ تاریخ " میں  قدیم ادوار  سے لے کر زمانہ جدید  تک   کی تمام تہاذیب  اور ریاستوں  میں موجود  اندرونی و بیرونی  خطرات   کا مقابلہ کرنے کی استعداد  کا احاطہ کیا ہے۔

وہ کہتا ہے کہ  انسانی تہذیب، در حقیقت   فطری  صلاحیتوں  یا جغرافیائی  ماحول  کا نہیں بلکہ   خود کو درپیش مشکلات کا سامنا  کرتےہوئے مخصوص قوت ارادی کے ذریعے ان خطرات کا  ڈٹ کر مقابلہ کرنے کا نام ہے ۔

تیونس کے مفّکر اور  عظیم  تاریخ دان ابن خلدون کے نظریہ "عصبیہ"  میں اس پہلو کا جائزہ  لیا گیا ہے کہ   معاشرتی اتحاد و تعاون اور یک جہتی کو تخلیقی شکل میں استعمال کرنے کی صورت میں   انسانی گروہ کس طرح ترقی   کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ ٹائن بی  سے پوری چھ صدیاں  پہلے پیش کیا گیا اور اپنے مندرجات کے اعتبار سے بالکل وہی خیالات پیش کر رہا ہے جو کہ ٹائن بی نے پیش کئے۔  تاہم ابن خلدون نے مزید آگے بڑھ کر  اپنے نظرئیے میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ جب ان باہم متحد اور یک جان ملل و اقوام  سے زیادہ متحد  و یک جان ملل و اقوام  انہیں للکارتی ہیں تو سابقہ متحد اقوام کسی طرح اور کیونکر اپنی سبقت و برتری سے محروم ہو جاتی ہیں۔

جب ہم موجودہ دور کی دنیا کے بحرانوں  کی داخلی  اور ضعف کی شکار صورتحال  پر غور کرتے ہیں تو  ہم خود کو، مشرق سے لے کر مغرب تک ممالک کے ایک دوسرے کے مقابل آنے کا ، ایک دوسرے کی للکاروں کے جواب دینے یا نہ دینے  کی شکل کا  تجزئیہ کرنے پر مجبور پاتے  ہیں۔ اس دو طرفہ انحصار کے گلوبل دور میں کوئی بھی ناکامی  کسی منفرد واقعے کی شکل میں برقرار نہیں رہتی بلکہ گلوبل طاقت کے توازن پر اثر انداز ہو کر  عدم توازن کی فضاء پیدا کرتی ہے۔ ایک دوسرے کی مدد کرنے سے ہمارے اندر   مشترکہ للکاروں  کوردعمل پیش کرنے کے لئے نئی اور تخلیقی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اس روّیے کو  گلوبل پیمانے پر اختیار کرنا نہ صرف  ایک شہری کی حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ  ایک ایسی حکمت عملی بھی ہے کہ جسے اجتماعی تحفظ  اور خوشحالی کے لئے   اختیار کیا جانا ضروری ہے۔



متعللقہ خبریں