ترکی کا ثقافتی ورثہ 51

اسنتبول کا تاریخی پس منظر

632511
ترکی کا ثقافتی ورثہ 51

استنبول براعظم ایشیا اور یورپ کے دہانے پر  واقع  خوبصورت شہر ہے ۔ کسی   نفیس موتی   کی مانند دو براعظموں  کے درمیان موجود یہ شہر  بیک وقت  دو سمندروں   کو بھی  ملانے  کا سہرا  پنے سر لیے ہوئے  ہے ۔ بحیرہ  ایجیئن اور بحر اسود  کو ملانے والا  یہ شہر  محض خوبصورتی   سے ہی نہیں بلکہ  تاریخی سرمائے سے بھی مالا مال ہے ۔

اس شہر  میں  آبادی  تین لاکھ سال قبل،شہری  آباد کاری  تین ہزار سال  اور صدر مقام  بننے کی تاریخ سولہ سو  سال پرانی ہے۔   مختف ادوار میں  متعدد تہاذیب اور ثقافتوں  کی میزبانی کرنے  والا یہ شہر  صدیوں تک   لا تعداد مذاہب ، زبانوں   اور نسلوں      کویکجا  رکھنے  کا سبب بنا رہا ۔ ، تاریخی اعتبار سے   رومی ،بازنطینی  اور عثمانی سلطنتوں کا صدرمقام  یہ شہر  استنبول  طویل زمانے  تک ہر شعبہ  ہائے زندگی   کا مرکز  بنا رہا ۔سولہ سو سالہ اس شہر  کی تاریخ   کے دوران  یک سو بیس فرمانروا اور سلطانوں نے حکمرانی  کے دور دیکھے  جو کہ دنیا کا  واحد شہر ہے

استنبول  کی تاریخ  تین لاکھ سال  قدیم  تک  پھیلی ہوئی ہے ۔ کوچک چیک میجے  جھیل کے کنارے  واقع یارِم بوعاز  نامی  غار   میں کی جانے والی کھدائی  کے دوران  انسانی  تاریخ کے   آثار ملے ہیں ۔خیال ہے کہ اس دور میں  یہاں  نیولیٹیک  اور کالکولیٹیک ادوار سے منسوب انسان  بسا کرتے تھے ۔استنبول کی ابتدائی آباد کاری   میگار قوم   کی جانب سے عمل میں آئی تھی۔ میگار قوم    چھہ  سو اسی  صدی قبل مسیح میں  آبنائے مارمارہ  عبور کرتے  ہوئے استنبول  پہنچی   کہ جہاں  اس قوم نے  خالکیدون  نامی ایک شہر آباد کیا جو کہ  قاضِ کوئے کے جوار میں  واقع تھا ۔خالکیدون  کے باسی زراعت  سے وابستہ تھے ۔ چھۃ سو  ساٹھویں  صدی  قبل مسیح  میں  تھریس  نسل کے  کمانڈروں نے  بازنطینیوں  کی قیادت میں   ہجرت کرنے والی میگار قوم نے  آلتین  بوئینوز  کے مقام  پر ایک دیگر شہر قائم کیا  کہ جسے  بازانتون  کانام دیا ۔اس علاقے میں میگار قوم   بھی  تھریس قوم کی طرح  عوام سے گھل مل گئی تھی ۔ چھ سو سڑ سٹھ  سے تین سو بتیسویں  صدی  کے درمیانی عرصے میں  پہلے بائیزانتیون بعد ازاں بازنطینی دور  میں ایک تاریخی شہر  کے طور پر   استنبول   پررومی سلطنت کا قبضہ ہو گیا ۔بائی زانتیئون  شہر کو  رومیوں  کی جانب سے  لاطینی رنگ میں ڈھالتے ہوئے  سلطنت روم  کے  اہم شہر میں  تبدیل کر دیا گیا ۔ بعد ازاں اس شہر کا نام بدل کر  اوگسٹا  انتونیا رکھ دیا گیا ۔

متعدد قبضوں  سے متاثرہ اس شہر کو  دو سو انسٹھویں صدی قبل مسیح میں  بیتھنیا قوم کی طرف سے  لوٹ مار کرتے ہوئے   تسخیر کیا  گیا ۔ دو سو دو صدی قبل مسیح میں  مقدونیئن قوم   کی دھمکیوں سے  خوف زدہ ہوتے ہوئے اس قوم نے رومیوں سے مدد طلب کی  جس کے نتیجے  میں  اس شہر  پر رومی سلطنت کا دبدبہ قائم  ہونا شروع   ہوتے ہوئے با الاخر  ایک سو چھیالیسویں  صدی قبل مسیح  میں   یہ  شہر رومی سلطنت کے زیر قبضہ آگیا ۔

73 ویں صدی  عیسویں  کے دوران  بیزانتیون   کا الحاق  روم   کی ریاست بیتھنیا ۔پونتوس سے ہو گیا ۔  فرمانروا  ویس پاسیانوس  نے اس شہر کی تعمیر و ترقی میں بذاتِ خود دلچسپی لی  لیکن سن 193   میں  رومی شاہ سیپتیموس سیویروس  نے پارت قوم کے زیرِ حمایت اس شہر     کا محاصرہ کرتے ہوئے اس کے در و دیوار کو تہس نہس کر دیا  بعد ازاں اس شہر کی دوبارہ تعمیر  کرتے ہوئے بسا گیا ۔ سن 269 میں  اس شہر پر  گوُت  قوم  نے حملہ کرتے ہوئے قبضہ کرلیا    جس کے بعد سن 313 میں نیکومیدی قوم   نے اس شہر پر اپنی حاکمیت قائم کرلی۔ کونستانتینوس اول نے   نیکو مید قوم کو شکست دیتے ہوئے   اس شہر  پر  اپنا جھنڈا گاڑتےہوئے   اسے مشرقی سلطنت کا صدر مقام قرار دیا اس اہم تبدیلی کی وجہ بیزانتیون  ثقافتی اور سیاسی اعتبار سے  اہم کردار    ادا کرتا رہا ۔ سن 324 تا 337 کے عرصے میں  کونستانتینوس اول  نے افزائشِ نسل میں اضافےکی خاطر  رومی نژاد باشندوں کو اس شہر میں   لا کربسانے کا حکم دیا ۔ اس کے علاوہ اس نے یہاں پر  پانی کی تقسیم   کے نظام کی بھی بنیاد ڈالی  اور دفاع کےلیے  ایک  قلعہ تعمیر کروایا ۔ کوستانتینوس اول نے  ایک بڑے اور نا مکمل اکھااڑے  کی  بھی تکمیل کروائی کہ جسے  سیپتیموس سیویریوس   نے شروع کروایا تھا۔ اس اکھاڑے کی طوالت 480 میٹر جبکہ وسعت 117 میٹر تھی ۔ شہر پر لاطینیوں کے قبضے کی وجہ سے یہاں سے گھوڑوں کے مجسمے   وینیس  کے سان مارکو میدان میں نصب کروائے گئے۔  اس شہر کو نیو روما اور بعد میں شاہ کونستانتینوس اول  کے حکم  پر  11 مئی سن 330 کو  کوستانتینو پولیس  کا نام دیا گیا کہ جہاں  سن 360 میں آیا صوفیہ   کے گرجا گھر کوتعمیر کرواتےہوئےاس فرماں روا نے   مسیحی دنیا   میں اس شہر کی   اہمیت کو مزید چار چاند لگوا دیئے۔

سن 476 میں مغربی روم کے  سقوط  کے بعد مشرقی رومی سلطنت    بازنطینی سلطنت میں تبدیل  ہو گئی   کہ جس کے نتیجے میں  استنبول اس نئی سلطنت کا صدر  مقام   قرار کیا گیا ۔  7 ویں ،8 ویں  اور نویں صدی  میں استنبول پر یکے بعد دیگرے حملے کیے گئے۔  ساتویں صدی میں  ساسان  اور آوار قوم   کے حملوں سے متاثر  ہونے والا یہ شہر  8 ویں صدی  میں بلغار اور مسلمان عربوں  کے جبکہ نویں صدی  میں روسیوں اور بلغاریوں  کے زیرِ قبضۃ رہا۔



متعللقہ خبریں