ترکی کے نقطہ نگاہ سے۔ 18

یورپ اس وقت محض اضمحلال ہی نہیں تباہی و بربادی کے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہے

626365
ترکی کے نقطہ نگاہ سے۔ 18

پروگرام " ترکی کے نقطہ نگاہ" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔  "دی فائنل کاونٹ ڈاون" ایک ایسا جملہ ہے کہ جس نے  میری زندگی میں بہت گہرا نشان  چھوڑا ہے۔ میرے نوجوانی کے دور میں  ریڈیو پر ، کیسٹ فروخت کرنے والوں کی دوکانوں پر  اور گاڑیوں ، بسوں ویگنوں میں ایک تواتر سے بجنے والے گیت کا نام تھا "دی فائنل کاونٹ ڈاون"۔ ہارڈ راک   طرز کا گیت ہونے کے باوجود اس کے بول دعوت فکر دیتے تھے۔ راک موسیقی کے برعکس 'یورپ' نامی میوزک گروپ کے اس گیت میں  جدائی، موت اور فانی زندگی کے بے معنی ہونے کو بیان کیا گیا تھا۔ صرف موت اور جدائی یا  زندگی کے ریزہ ریزہ ہونے کی خصوصیت کو ہی نہیں اس کے "بے معنی ہونے" کی خصوصیت کو بھی بیان کیا گیا تھا۔ سیکیولر اور دینی تعلیم حاصل کرنے والے فرد کی حیثیت سے اس گیت نے  مجھے بہت متاثر کیا۔ زندگی کے بارے میں میرے نقطہ نظر کی تشکیل میں بھی اس گیت نے اہم کردار ادا کیا۔ اسلامی تصوف کے بارے میں جن کتب کا میں نے مطالعہ کیا تھا ان کی تعلیمات  کو اس گیت میں ایک رومانوی بغاوت کی شکل میں ایک فریاد کی صورت میں  پیش کیا گیا تھا۔ لاسٹ کاونٹ ڈاون ، زندگی، دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے علیحدگی کے لئے آخری گنتی ۔ اٹلی کے انتخابات کے بعد کوئی 20 سال کے بعد یہ گیت دوبارہ سے میری زبان پر آ گیا ہے۔ ان انتخابات  کے ساتھ یورپی یونین جس المیے  کا شکار ہو گئی  ہے اسے یہ گیت نہایت خوبصورت انداز میں بیان  کرتا ہے ۔

یورپ نے اصل میں قبرصی یونانی انتظامیہ کو  یونین کا رکن  بنا کر اپنے آخری دموں کو گننا شروع کر دیا  تھا کیونکہ یورپی یونین کھلے بندوں یونین کے اصول و قوائد اور تحریری اصولوں کی خلاف ورزی کر رہی تھی۔ یورپی یونین کے اصولوں کے مطابق متنازع علاقوں کو یونین میں شامل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ جزیرہ قبرص بھی یونانی نسل پرستوں  کی ترکوں کی نسل کشی کرنے کی وجہ سے 1960 کی دہائی سے متنازع علاقہ تھا۔ دہشت گردنکوس سامسن  اور اس کے حامی قبرص کے  بشپ ماکاریوس نے ملک کو خون کی جھیل میں تبدیل کر دیا ،  ہر روز بچے ، بوڑھے، مرد اور عورت  کی تفریق کئے بغیر  بیسیوں ترکوں کو ہلاک کیا جا رہا تھا۔ جمہوریہ ترکی نے بھی بین الاقوامی سمجھوتوں  کے ساتھ اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں  کی رُو سے یونانی نسلیت  پرستی کی وجہ سے قبرص میں ہونے والے قتل عام  کو فوجی آپریشن کی مدد سے روکا۔ اس دن کہ جب ترک فوججزیرے میں داخل ہوئی، صرف قبرصی ترکوں  نے  ہی نہیں بلکہ  امن کے حامی  اور یونانی نسلیت پرستی کے خلاف قبرصی یونانیوں نے بھی نہایت محبت سے ترک  فوجیوں کا خیر مقدم کیا۔

ترکی  کے قبرصی یونانیوں  کی شروع کردہ نسل کشی  کے راستے میں رکاوٹ بننے کے بعد   ایکچوئل اسٹیٹ  قائم ہوئی۔ قبرصی ترکوں نے  1983 میں اعلان آزادی کر کے شمالی قبرصی ترک جمہوریہ  قائم کیا۔ یورپی ممالک نے قبرص کی ترک حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ کئی سالوں کے بعد یورپی یونین کا قیام  عمل میں آیا۔ یونین نے اپنے قیام کے اصولوں کے بر عکس  قبرص کے یونان کے زیر قبضہ حصے کو سال 2004 میں یورپی یونین کی رکنیت میں قبول کر لیا۔ اس واقعے کے ساتھ یورپی یونین  کی ترکی سے متعلق پالیسیوں کو قبرص کے جنوب میں یونانی قابض انتظامیہ کے ہاتھ میں گروی رکھ دیا۔

اس وقت  موجود مرحلے میں یوں لگتا ہے کہ جیسے  یورپی یونین نے اپنی توسیع کی اسٹریٹجی  کویورپی اقدار 'کہ جن کا پوری دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے ' پر نہیں بلکہ اپنے اعتقادات پر قائم کیا ہے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک   کی ایک بڑی اکثریت سے زیادہ مضبوط اقتصادیات  اور تقریباً تقریباً پورے یورپ سے زیادہ تغیّر پذیر  اور کثیر الثقافتی معاشرتی ساخت کے مالک  ترکی کے لئے اپنے دروازوں کو ہمیشہ بند رکھا۔

رکنیت کے مرحلے میں وہ تمام شرائط ترکی پر لاگو کی گئیں کہ جنہیں کسی دوسرے ملک پر لاگو نہیں کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ٹرم چئیر مینوں کی تبدیلی کے ساتھ یورپی یونین کے ساتھ ترکی کے تعلقات، رکنیت کے مذاکرات اور کھلنے والے ابواب کی عاقبت بھی تبدیل ہوتی رہی۔

اپنی کثیر الثقافتی پر فخر کرنے والی  یورپی یونین  ،ترکی کے لئے اپنے دروازوں کو سختی سے بند کرنے کے بعد، تیزی سے سیاسی اضمحلال کا شکار ہونے لگی۔ یہی نہیں بلکہ عالمی سیاست پر یورپ کے اثرات بھی معدوم ہونے لگے۔ مثال کے طور پر یوکرائن کے بحران میں روس کے صدر نے یورپی یونین کو اتنی سی اہمیت بھی نہیں دی کہ اس کے بیانات، مطالبات اور دھمکیوں کا جواب ہی دے دے۔ لامحالہ طور پر یورپی یونین کی کثیر الثقافتی  کے مقابل مزاحمت  نے علاقے میں نسلیت پرستی اور امتیازیت کی حامی  قوتوں کو پھلنے پھولنے اور مضبوط ہونے کا موقع دیا۔ قومیت کی لہروں  نے 1930 کی دہائی کی یاد تازہ کر دی۔

مفادات کے موضوع بحث ہونے پر ان اقدار تک کو طاق نسیاں میں ڈالنے سے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا گیا کہ جو یورپ کا طرہ امتیاز تھیں۔ مثال کے طور پر ہزاروں مصریوں کو ہلاک کرنے اور فوجی قبضے کے ساتھ  منتخب صدر محمد مرسی  کا تختہ الٹنے والے   جنرل سیسی کے خلاف محض لفظی ردعمل کا بھی  مظاہرہ نہیں کیا۔ یہی نہیں بلکہ اس خون آلود ہاتھوں والے جرنیل کے پیروں تلے یورپ بھر کے دارالحکومتوں میں سرخ قالین بچھایا گیا اور اسے پہلے درجے کا سرکاری پروٹوکال دیا گیا۔

15 جولائی کو ترک عوام کے نصف سے زائد  کی طرف سے منتخب صدر اور اس کی حکومت کے خلاف بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم فیتو کے حملے کے اقدام کے مقابل  یورپ ایک طویل مدت تک خاموشی اختیار کئے رہا۔ ترک عوام کے  باغیوں کو شکست دینے پر یورپی یونین کے رکن ممالک کا شرمندگی سے خاموشی اختیار کرنا ضروری تھا لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے ترکی کے ،بین الاقوامی قوانین کے دائرہ کار میں، باغیوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے کے خلاف ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ ایسے وقت میں کہ جب یورپ کا طیاروں ، ہیلی کاپٹروں، ٹینکوں  اور  نشانے بازوں کی طرف سے ہلاک اور زخمی کئے گئے ہزاروں ترکوں کا ساتھ دینا ضروری تھا  اس نے فیتو کے حملہ آور اور قاتل   جرنیلوں کی پشت پناہی کرنے کو ترجیح دی۔

اس تضاد کو پوری دنیا اور خاص طور پر عالم اسلام نے دیکھا۔ یورپ کے چہرے کا غازہ حقیقی معنوں میں اُتر گیا۔ یہی وجہ ہے کہ تقریباً  نصف صدی سے یورپی یونین میں شامل ہونے کے خواہش مند ترکی کے عوام کی ایک  بڑی اکثریت  اب یورپی یونین میں شامل نہیں ہونا چاہتی۔

صرف ترک ہی نہیں ، اطالوی، ہسپانوی اور ہالینڈ سمیت یورپی یونین کی رکن  سب ترقی یافتہ اقتصادیات کے شہری یونین سے نکلنا چاہتے ہیں۔  

یورپی یونین کا ایڈوینچر بہت مختصر رہا ہے۔ تاہم میگنا کارٹا سے لے کر اب تک یورپ کی جموری،عالمگیر حقوق، شخصی حقوق  اور آزادیوں جیسی  اقدار  عالمگیر اقدار بھی اس مختصر وقت میں ختم کر دی گئیں۔ اس وقت یورپ کے پاس کوئی ایسی اقدار نہیں ہیں کہ جنہیں وہ دنیا کے سامنے رکھ سکے ۔ یورپ اس وقت محض اضمحلال ہی نہیں تباہی و بربادی کے ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے کہ جہاں سے واپسی ناممکن ہے۔ ہاں تو 'یورپ میوزک گروپ 'کے گیت کے بول کیا تھے ؟ دی لاسٹ کاونٹ ڈاون۔۔۔ جی ہاں آخری لمحات۔  یورپی یونین بھی اپنے آخری  لمحات کو گن رہی ہے۔



متعللقہ خبریں