ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔47

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔47

615708
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔47

 

8 نومبر 2016 کو ہونے والے صدارتی انتخابات ریپبلکن امیدوار ڈونلد ٹرمپ نے جیت لیے ہیں ۔گزشتہ ہفتے کے پروگرام میں ہم نے ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی ممکنہ  پالیسی کا جائزہ پیش کیا تھا ۔اس ہفتے ہم ٹرمپ حکومت کی  مصر اور فلسطین  کے بارے میں پالیسی  کا جائزہ  لیں گے ۔

گزشتہ  ہفتے ہم نے  ٹرمپ کی دہشت گردی اور اسلام  کے عوامی زندگی میں اثرات سے متعلق نقطہ نظر  کو بیان کیا تھا ۔  اسے اسلام فوبیا کہا جا سکتا ہے ۔  اس نقطہ نظر کے سلامتی کے نظریے کا مرکز بننے سے اسلام سے وابستہ سماجی   تحریکوں  سے علیحدگی   منظر عام پر آ رہی ہے ۔ اس دائرہ کار میں مصر کی اخوان المسلمین تحریک کو بھی دہشت گرد تنظیموں میں  دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔  یہاں پر مصر کے صدر  عبدل فتح السیسی اور ٹرمپ کے نظریات کا ملاپ ہوتا ہے ۔

ٹرمپ کے دہشت گردی سے متعلق خیالات السیسی جیسے آمر لیڈروں کے لیے ہمدردانہ جذبات پیدا کرتے ہیں ۔  ٹرمپ دہشت گردی کیخلاف تشدد کے نظریے کیساتھ حرکت کر رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے ماہ ستمبر میں نیو یارک میں  بیان دیتے ہوئے السیسی کو سحر انگیز  شخصیت قرار دیا تھا ۔  انھوں نے ہر موقع پر مصر  کی دہشت گردی کی خلاف جدوجہدکی حمایت کرنے کا  اعلان کیا اور کہا ہے کہ  امریکہ مصر  کا ہمیشہ باعتماد اور وفادار دوست اور حلیف ملک  رہے گا ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس  کے دوران مصر کے پارلیمانی نمائندے کیساتھ ملاقات  کرنے والے ٹرمپ کے خارجہ پالیسی کے مشیر ولید فارس نے کہا  تھا کہ ٹرمپ اخوان المسلمین کو دہشتگرد تنظیم قرارا دیں گے ۔ یہی وجہ ہےکہ جب ٹرمپ صدر منتخب ہوئے تو السیسی نے سب سے پہلے انھیں  مبارکباد دی ۔ اوباما انتظامیہ نے 2013 میں انقلاب کے نتیجے میں بر سر اقتدار آنے والے السیسی انتظامیہ کو تسلیم کرنے میں کسی  قسم کے تردد کا مظاہرہ نہیں کیا تھا  لیکن امریکہ نے وقتاًفوقتاً مصری انتظامیہ  پر تنقیدکی ضرورت  بھی محسوس کی تھی۔ امریکہ نے مصر کیطرف سے خریدے  جانے والے ہتھیاروں کی حوالگی اور فوجی قرضوں کو بھی عبوری طور پر التواء میں ڈالا تھا  جسکا السیسی اور ان کے قریبوں حلقوں نے اوباما انتظامیہ کے اخوان المسلمین کے حمایتی موقف کی نظر سے جائزہ لیا تھا۔السیسی نے شام کی اسد انتطامیہ کیساتھ بھی  تعلقات کوفروغ دیا تھا۔  سعودی عرب کیساتھ تعلقات میں سرد مہری پیدا ہونے کی وجہ سے انھوں نے خارجہ پالیسی  میں روس سے مزید قریبی تعلقات قائم کر لیے تھے ۔علاوہ ازیں ،مصر کی تاریخ میں پہلی بار اسرائیل نے اقوام متحدہ کے ایک کمیشن میں منتخب ہونے کے لیے اس کے حق میں  ووٹ بھی ڈالا تھا ۔ السیسی  اس نظریے کے حامی ہیں کہ ٹرمپ کے دور میں  مشرق وسطیٰ سے متعلق امریکی پالیسی مصر کی علاقائی پالیسی  سے ہم آہنگ ہو گئی ۔

خیال پایا جاتا ہے کہ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان فلسطینیوں کو ہی اٹھانا پڑے گا ۔انتخابی مہم کے آغاز میں  ٹرمپ نے کہا تھا کہ  وہ اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مسئلے کے حل میں غیر جانبدار رہیں گے ۔انھوں نے اسرائیل کو دی جانےوالی کئی  میلین ڈالر کی فوجی امداد کو بھی غیر منطقی قرار دیا تھا ۔انھوں نے دو مملکتی حل کی حمایت کرتے ہوئے القدس کے اسرائیل کے دارالحکومت ہونے  کی مخالفت کی تھی ۔

ٹرمپ نے انتخابی مہم  کے آخری  دور میں  ہلیری کلنٹن کی اس موضوع پر  نکتہ چینیوں کی وجہ سے  مسئلہ فلسطین  کے بارے میں ریڈیکل بیانات دینے شروع کر دئیے۔  ابتدائی نتائج کے دوران ڈیموکریٹ سینڈر کے علاوہ دونوں پارٹیوں کے امیدواروں  نے اسرائیل نواز  پالیسی اپناتے ہوئے  ایک دوسرے کیساتھ رقابت شروع کر دی تھی ۔ جس کے بعد ٹرمپ نے اسرائیل کے دو مملکتی حل سے متعلق بیانات کو ختم کر دیا  ۔انھوں نے اسرائیل نواز پالیسی کو امریکہ کی ناقابل تبدیل  پالیسی کی نظر دیکھنا شروع کر دیا اور کہا کہ اسرائیل ایک قابض قوت نہیں ہے ۔انھوں نے دریائے اردن کے مغربی علاقے میں تعمیر نئی آبادیوں کی بھی بھر پور حمایت کرتے ہوئے کہا کہ وہ القدس کو اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کریں گے اور وہ امریکہ کے سفارتخانے کو وہاں پر منتقل کریں گے ۔ 

صدارتی انتخابات کے نتائج کے اعلان کے بعد ٹرمپ کی کامیابی  پر سب سے زیادہ السیسی اور اسرائیل  کے وزیر اعظم نیتان یاہو نے خوشی کا اظہار کیا  ہے ۔  بنیامین نیتان یاہو نے ٹرمپ کو مبارکباد دیتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران   کیے گئے وعدوں کی یاد دھانی کروائی۔ اسرائیل کے وزیر تعلیم نیفتالی بینیٹ  نے بھی کہا کہ وہ انتخابی نتائج کو دو مملکتی حل اور اسرائیلی مملکت کے قیام کی کوششوں کے انجام کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ دریائے اردن کی یہودی علاقائی  کونسل کے سربراہ یوسی ڈاگان  نے بھی کہا کہ انتخابات کے نتائج آبادکاری  کے عمل کوجاری رکھنے     میں مدد گار ثابت ہونگے ۔

  اب یہ سوال  پیدا ہوتا ہے کہ  ٹرمپ  نے انتخابی مہم کے دوران  فلسطین کے بارے میں جو موقف اپنایا تھا کیا وہ اس پر قائم رہیں گے ؟  نائب صدر مائیک پینس کے علاوہ  ٹرمپ کی پوری ٹیم کٹر  دائیں بازو کے اسرائیل نواز سیاستدانوں پر مشتمل ہے ۔ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ  وہ اپنے وعدوں  کی پاسداری کریں گے  لیکن القدس کو  اسرائیل کے دارالحکومت کے طور پر تسلیم کرنے  کے معاملے  میں وہ پیچھے قدم اٹھا سکتے ہیں ۔

 ٹرمپ نے  ایران کیساتھ ہونے والے جوہری معاہدے  پر دوبار ہ مذاکرات کروانے کا  جو بیان دیا تھا اس نے نیتان یاہو اور ٹرمپ کو ایک دوسرے کے قریب   تر کر دیا ہے ۔   توقع ہے کہ ٹرمپ  صدر کے فرائض سنھبالنے کے بعد وہ آپس میں گہرا تعاون  کریں گے  لیکن یہ بات  بھی اہم ہے کہ اگر ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر دباؤ ڈالا تو روس اور مشرق وسطیٰ  کے بارے میں وہ جس پالیسی کو اپنانا چاہتے ہیں اس کی کارڈینیشن کے لحاظ سے مسئلہ پیدا ہو سکتا ہے ۔

   ٹرمپ کی اسرائیل اور مصر سے متعلقہ سیاست ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہے ۔ اسرائیل کی حماس اور مصر کی اخوان المسلمین کیخلاف پالیسیاں  ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں  اور یہ ٹرمپ کی دہشت گردی  کیخلاف جدوجہد  کے  نظریے پر پورا اترتی ہے ۔علاوہ ازیں، مصر اور اسرائیل کے تعلقات  میں  قربت اسرائیل کی سلامتی کے لحاظ سے مصر سے تعلقات انتہائی  اہمیت  کے حامل ہیں ۔

 



متعللقہ خبریں