ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔46

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔46

611088
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔46

  امریکہ میں 8 نومبر 2016 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں  ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کو  کامیابی ہوئی ہے ۔ انھوں نے اپنی صدارتی مہم کے دوران جو بیانات دئیے تھے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں منفرد پالیسی اختیار کریں گے ۔  یہ کہا  جا سکتا ہے  امریکہ کی مشرق وسطیٰ سے متعلق پالیسی میں  بعض تبدیلیاں کی جائیں گی ۔نو منتخب صدر ٹرمپ نےصدر اوباما کی لیبرل خارجہ پالیسیوں کیخلاف موقف اپنا رکھا ہے ۔  ٹرمپ کی نظر میں امریکہ کے عالمی برادری کیساتھ تعلقات کو فروغ دینے  کی یکطرفہ   خواہش  نہیں کی جا سکتی ۔ عالمی تنظیموں اور میثاق کے وجود  کی شکل  بھی یہی ہے ۔  اہم بات تعلقات کی نوعیت ہے  اگر تعلقات کی  قدرو قیمت توقع سے زیادہ ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ بعض غلط فیصلے  کیے جا  رہے ہیں ۔ اگرچہ ٹرمپ  کے ساتھیوں میں انتہا پسند بھی موجود ہیں لیکن اس کے باوجود ٹرمپ نے صدر اوباما سے پہلے کے  صدر بش  کی پالیسیوں کیساتھ بھی فاصلے رکھے ہیں ۔ صدر ٹرمپ نظام کی تبدیلی ،ڈیموکریسی کے اخراج اور قومی تعمیر جیسی  کوششوں کے سخت خلاف ہیں ۔ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی میں انسانی حقوق  کا کوئی مقام نہیں ہے ۔ حتیٰ کہ وہ اشکنجوں کا دفاع کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں ۔ اشکنجے کی وجہ کے دفاع پر نظر ڈالتے وقت ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی  پالیسی  کے اہم عناصر میں سے ایک جو  ہمارے سامنے آ جاتا ہے وہ دہشت گردی کیخلاف جدوجہد ہے ۔

 دہشت گردی کیخلاف جدوجہد  پر زوردینا  چند لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے ۔  اس  اصرارکا  اسلام فوبیا سے بھی تعلق ہے ۔ ان کی اکثر ساتھی  دہشت گردی کے  اسلام  سے  رابطہ ہونے کے نظریات کے حامی ہیں ۔  اس دائرہ کار میں   داعش کے علاوہ اعتدال پسند شامی مخالفین حتیٰ کہ اخوان المسلمین تحریک بھی دہشت گردی کے زمرے میں آتی ہے ۔

دہشت گردی سے متعلق ٹرمپ  کے قطعی موقف  سے  تقریباً 20 سال سے اصلاحات کے معاملے میں  بیرونی دباؤ کا سامنا کرنےوالے علاقائی  ممالک  نے سکون کا سانس لیا ہے ۔ صدر منتخب ہونے کے بعد مصر کے صدر عبدل فتح السیسی نے سب سے پہلے انھیں مبارکباد کا ٹیلیفون کیا ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دہشت گردی کیخلاف جدو جہد میں تعاون کی صورت میں ٹرمپ انتظامیہ کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہو گی کہ مشرق وسطی کے ممالک میں کون کس پر دباؤ ڈال رہا ہے ۔ایک دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ صدر اوباما   کیطرف سے مشرق وسطیٰ میں اپنائی گئی غلط پالیسیوں   کے نتیجے میں  روس ،ایران، عراق  جیسے ممالک اور عراقی شعیہ ملیشیاوں ، پی وائے ڈی اور حزب اللہ جیسی تنظیموں   نے فائدہ اٹھایا ہے ۔ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی سیاست اور دہشت گردی سے متعلق موقف سے   وہ   مزید  طاقتور بنیں گی ۔

صدر ٹرمپ  دہشت گردی کی سنی مسلمانوں کی انتہا پسندی  سے وابستگی کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔ اسی جواز کیساتھ علاقے میں اپنی موجودگی کو مشروع حیثیت دینے کے لیے سر گرم عمل روس کیساتھ مشترکہ مفاد ات کو سامنے رکھا  گیا ہے ۔  اس صورتحال کو مد نظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ حکومت شام کی اسد  انتظامیہ کے لیے  راہیں ہموار کرئے گی کیونکہ ٹرمپ کی نظر میں  شامی مخالفین  بھی دہشت گرد ہیں ۔  علاوہ ازیں ، یہ کہا جا سکتا ہے کہ  ٹرمپ کیطرف سے روس کو ایک حصہ دار کی نظر سے دیکھنا بھی اسد انتظامیہ اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان  پل ثابت ہو سکتا ہے ۔  یہ کہنا بجا ہو گا کہ صدر اسد کو دہشت گردی کیخلاف حلیف کی نظر سے دیکھنے کی وجہ سے اب شام میں اسد کے بغیر شام کے مسئلے کے حل   کی تجویز کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی ہے لیکن جھڑپوں کا جاری رہنا اپنے گھر بار ترک کرنے والے شامی شہریوں  کے مسئلے کو ایجنڈے میں لاتا ہے  ۔  اس معاملے میں صدر ٹرمپ کی تجویز یہ ہے کہ ایک غیر جانبدار علاقہ تشکیل دیتے ہوئے مہاجرین کو اس علاقے میں  پناہ دی  جائے۔  مسلمانوں کو ایک خطرے کی نظر سے دیکھنےوالےٹرمپ کا  مقصدر بے گھر انسانوں کا تحفظ  کرنے کے بجائے مغرب کی جانب مہاجرین کے ریلے کو روکنا   ہے ۔ شامی باشندوں کی نظر میں ٹرمپ امیدوں کے دروازوں کو بند کرنے والے صدر ہیں ۔

 اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ شامیوں کے علاوہ ٹرمپ کی پالیسی سے سب سے زیادہ فلسطینی متاثر ہونگے  کیونکہ انھوں نے پوری صدارتی مہم کے دوران اسرائیل حمایت میں ہی بیانات دئیے ہیں ۔اب امریکہ کی طرف سے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کو جاری رکھنے  کے لیے اسرائیل پر   دباؤ ڈالنے  کی توقع رکھناخکام خیالی ہو گا ۔انھوں نے اسرائیل کیطرف سے قائم غیر قانونی بستیوں کی وجہ سے بھی  اس پر کسی قسم کی تنقید نہیں کی ہے ۔سنگین ترین مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ القدس کو اسرائیل کے ابدی دارالحکومت کے طور پر  سرکاری طور پر تسلیم کرنے میں کوئی  عار محسوس نہیں کرتے ہیں ۔

ٹرمپ ابتک اوباما کے دور میں ایران کیساتھ ہونے والے جوہری معاہدے کی مخالفت  کرتے رہے ہیں  لیکن یہ کہنا درست نہیں ہو گا کہ اس صورتحال سے ایران اور امریکہ کے تعلقات متاثر ہونگے ۔ اس کے برعکس  ایران کے جوہری معاہدے کی مخالفت کرنے والی شخصیات  حسن روحانی اور جواد ظریف کے خلاف طاقتور بن جائیں گی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے ایران کی اندرونی سیاست متاثر ہو گی ۔ اگر ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ کی سیاست کو دیکھا جائے تو  یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایران  اپنی فائدہ مند پوزیشن کو بر قرا رکھے ہوئے ہےکیونکہ  ٹرمپ دہشت گردی کا ذمہ دار زیادہ تر ریڈیکل سنیوں کو ٹھہراتے ہیں اور وہ  اسد انتظامیہ اور روس کیساتھ تعاون کے لیے تیار ہیں۔ٹرمپ کا یہ موقف ایران کے حق میں ہے ۔ علاوہ ازیں، ٹرمپ کیطرف سے  سعودی عرب  پر  ریڈیکل تنظیموں کیخلاف نرم موقف اپنانے کا الزام  اور سعودی پٹرول کی درآمد کو روکنے کی  دھمکیاں  ایران کے لیے خوشی کا باعث ہیں ۔

ٹرمپ کیطرف سےجوہری معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کرنے کےاعلان کا صرف ملک کے اعتدال پسند  قوت مرکز کو  نقصان پہنچانے والی پیش رفت  کی نظر سے جائزہ لیا جا رہا ہے ۔

مختصراً یہ کہ  ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ  پالیسی سے علاقے کے مسائل کو حل کرنے میں مدد نہیں ملے گی ۔ان کی پالیسی موجودہ طاقت کے توازن کی  تقسیم  کو تبدیل کرنے کی خصوصیت بھی نہیں رکھتی ہے ۔

 

 

 

 

 

 

 

 



متعللقہ خبریں