ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 44

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 44

602368
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 44

اسوقت مصری عوام  کا 27 فیصد سرکاری طورپر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے ۔  ماہانہ 50 ڈالر آمدنی میں کسقدر حقیقت ہے یہ بھی زیر بحث  معاملہ ہے ۔  مصر کے بالائی علاقوں میں  غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد 60  فیصدسے بھی زائد   ہے ۔مصر کو سیاسی استحکام سے ہمکنار کرنے کے لیے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی ضرورت ہے لیکن اس معاملے میں پیش رفت کا کوئی اشارہ موجود نہیں ہے ۔ صورتحال سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مصر کے اقتصادی اور مالی مسائل میں مزید اضافہ ہو گا ۔ ملک کو در پیش اقتصادی مسائل اور مالی بحران  عبدل فتح السیسی انتظامیہ کو بھی سیاسی بحران میں دھکیل رہا ہے ۔

 2011 میں مصر ی عوام نے روٹی ،آزادی اور سماجی انصاف جیسے  تین مطالبات کیساتھ حسنی مبارک کے خلاف  مظاہرے شروع کیے تھے ۔ ملک میں پہلی بار منتخب کیے جانے والے صدر محمد مرسی کو انقلاب کیساتھ ہٹاتے ہوئے بر سر اقتدار آنےوالی السیسی  انتظامیہ کی کارکردگی  حسنی مبارک کے دور  سے بھی بد تر ہے ۔ ملک کی  اقتصادی   حالت دن بدن خراب ہو تی جا رہی ہے ۔  2015 سے مصر کی اقتصادیات میں بعض مثبت اشارے ملنے لگے تھے ،افراط زر پر کچھ حد تک قابو  پا لیا گیا تھا  ،بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوئی تھی، ملک  ترقی   کی جانب گامزن ہو گیا تھا اور  2015 میں بجلی کی  قلت کو بھی کچھ حد تک دور کر لیا گیا تھا لیکن  اس مثبت پیش رفت سے پوری آبادی فائدہ نہیں اٹھا سکی تھی ۔ حقیقت تو یہ تھی کہ کم آمدنی والےخاندانوں کی حالت مزید خراب ہو گئی تھی ۔ 2013 کے انقلاب کے بعد مصر میں سنگین اقتصادی بحران

 پیدا ہونے کی  توقع کی جا رہی تھی لیکن خلیجی ممالک سے ملنے والی مالی امداد نے السیسی حکومت کی مشکلات کو کچھ حد تک آسان کر دیا تھا   لیکن امداد کے خاتمے کے بعد  اقتصادی بحران بڑھتا  ہی گیا ۔

 11 فروری  2011 کو جب ملٹری کونسل نے انتظامیہ کو اپنے ہاتھ میں لیا تو اسوقت امریکی ڈالر 5٫8 مصری لیرے کے برابر تھا  لیکن اسوقت ایک ڈالر 15 مصری لیرے کے برابر  ہے  ۔اس سال مصری لیرے کی قدر میں 40 فیصد کمی آئی ہے ۔2011 میں مصری مرکزی  بینک میں زر مبادلہ کے ذخائر 36 ارب ڈالر تھے جبکہ  اگست  2016 میں   یہ ذخائر کم ہو کر 5٫15 ارب ڈالر  رہ گئے ۔ 2013 میں خلیجی ممالک کی امداد ملنے کے بعد ان ذخائر کی مقدار 50 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھی  لیکن مرکز ی بینک کے ذخائر 20 ارب ڈالر کی  اضافی  امداد کیساتھ بخارات بن کر اڑ گئے ۔ مصر کے بیرونی قرضوں  میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔2015 میں 48 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ بڑھ کر 2016 میں 55٫7 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ۔

  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بخارات بن کر اڑ جانے والی رقم کہاں گئی ہے؟  حکومت  نے مصری عوام کی خوشحالی کے لیے کوئی رقم خرچ نہیں کی ہے   اور اقتصادیات بھی بد تر ہیں ۔  دراصل حکومت نے  اس رقم کو نئے جیل خانوں کی تعمیر ، مظاہروں کو دبانے ، سلامتی کی تدابیر کو بڑھانے اور مواصلاتی ریاست کو مضبوط بنانے کے لئے  خرچ کیا ہے ۔ ملک میں جاری

 بد عنوانیاں بھی    ملکی ذخائر  کے خاتمے  کا سبب بن رہی ہیں ۔ مصر کی قومی آمدنی  میں سیاحتی سیکٹر  کا بھی اہم کردار تھا ۔ 20 فیصد زر مبادلہ سیاحت کے شعبے سے حاصل کیا جاتا تھا ۔  ملک کی منفی صورتحال کے نتیجے میں  سیاحتی سیکٹر سے حاصل ہونے والی 10 فیصد  آمدنی کے خاتمے نے بھی  ملک کی منفی پیش رفت میں اہم کردا ر ادا کیا ہے ۔

ملکی حالات کیوجہ سے روز مرہ کی زندگی سخت متاثر ہو رہی تھی ۔ کرنسی کی قدر میں کمی اور افراط زر  کی وجہ سے عوام ضرورت کی اشیاء بھی خریدنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے ۔ محدود آمدنی  کے مالک اور  غریب شہریوں   کے لیے زندگی کی جدوجہد کٹھن ہو گئی تھی ۔چینی ،چاول ،گھی، بے بی  فوڈ اور ادویات جیسی بنیادی ضرورت کی چیزوں کا حصول نا ممکن ہو گیا تھا۔

ماہ نومبر میں  حکومت مصر اور عالمی مالیاتی فنڈ کے درمیان 12 ارب ڈالر کے قرضوں کی فراہمی کے معاہدے پر دستخط کیے جائیں گے ۔ اس معاہدے کی رو سے حکومت مصر نے کفایت شعاری کی پالیسی پر عمل درآمد کو قبول کر لیا ہے  لیکن اگر اقتصادی استحکام کی تدابیر کامیاب بھی رہیں تو بھی عوام کی اکثریت شدید مالی مشکلات کا شکار رہے گی ۔  معاہدے کی رو سے حکومت دوھرے ٹیکس پر عمل درآمد کرئے گی ،سرکاری رعایت ختم کرئے گی اور  تخفیف زر کرئے گی ۔اس عمل در آمد سے اشیائے صرف کی قیمتوں میں دوبار ہ اضافہ ہو جائے  گا اور عوام کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔

 مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت مصر ڈھانچے کی ہم آہنگ پالیسی کو نجات کا راستہ سمجھتی ہے   لیکن  اس دائرہ کار میں اپنائی جانے والی  اقتصادی تدابیر سے عوام کی زندگی مزیدکٹھن ہو جائے گی  اور السیسی حکومت کو دوبارہ بحران کا سامنا ہو گا ۔ اس قسم کے ریڈیکل ڈھانچے سے ہم آہنگی کی پالیسی کو مصر جیسے اور جمہوری  ماحول میں نافذ کرنے کی تاریخ میں  بہت کم مثالیں موجود ہیں ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ  بحران کی وجہ سے  آمر حکومت ان پالیسیوں پر عمل درآمد کروانے کے لیے مزید تشدد کرئے گی اور اس تشدد کی وجہ سے ملک میں پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کا احتمال بہت ہی کم  ہو جائے گا ۔



متعللقہ خبریں