ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 42

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 42

593040
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 42

مراکش میں سات اکتوبر  کو عام انتخابات ہوئے۔بر سر اقتدار  مخلوط حکومت کے بڑی حصہ دار  انصاف و  ترقی پارٹی  پی جے ڈی نے اپنے ووٹوں کی  تعداد کو بڑھاتے ہوئے پہلی پارٹی کی حیثیت حاصل کر لی ۔ اسطرح اس پارٹی کے  125پارلیمانی   نمائندے قومی اسمبلی میں   پہنچ گئے ۔ پی جے ڈی مسلمان ڈیموکریٹ پارٹی ہے  ۔ مخلوط حکومت کی دیگر تین  پارٹیوں کی نشستوں کی تعداد میں  کمی ہوئی ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مراکش میں ہونے والے یہ انتخابات ڈیموکریٹک  معیار کیمطابق انتہائی شفاف  طریقے سے عمل میں آئے ہیں ۔انتخابات میں حصہ لینے والے رائے دہندگان کی تعداد دو پوائنٹس کی کمی  کیساتھ 43 فیصد رہی  ہے۔

انتخابات میں دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پام پارٹی کے ووٹوں کی تعداد میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔اس پارٹی کے پارلیمانی نمائندوں کی تعداد 47 سے بڑھ کر 102 تک پہنچ گئی ۔ماضی میں شاہ مراکش کے مشیر کے فرائض انجام دینے والے پام پارٹی کے لیڈر الیاس ال عمیری ان کے بچپن کے ساتھی بھی تھے ۔ سیاسی حلقے پام پارٹی  کو شاہی پارٹی کی نظر سے دیکھتے تھے ۔ اس پارٹی نے اپنی انتخابی   حکمت عملی کو مکمل طور پر اینٹی پی جے ڈی پلیٹ فارم پر   قائم کیا تھا ۔  سیاسی بیانات  سیکولرزم اور اسلام ازم   پر دئیے جاتے تھے ۔ اس پارٹی کا مقصد پی جے ڈی کو مرکز سے دور رکھنا تھا ۔

انتخابات کے نتائج کا جائزہ لینے کے لیے سب سے پہلے انتخابات میں شرکت کی شرح میں کمی پر غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ علاوہ ازیں، پانچ میلین رائے دہندگان نے ووٹ ڈالنے کے لیے اپنے نام رجسٹر نہیں کروائے ہیں ۔اس صورتحال کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ صرف ایک تہائی عوام نے ووٹ ڈالے ہیں ۔

 انتخابات کے نتائج مراکش کی سیاسی پارٹیوں کے عوام پر سیاسی عمل میں شمولیت کے معاملے میں رضامند کروانے میں ان کی ناکامی کا مظہر ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہےکہ عوام کو سیاستدانوں پر اعتماد نہیں ہے ۔عوام کی سوچ یہ ہے کہ انتخابات سے ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔

انتخابات کے نتائج سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی ہے کہ عوام کی بہار عرب سے جو خوش کن توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہو سکی ہیں ۔ 2011 میں بہار عرب کے دوران مراکش میں بھی مظاہرے ہوئے تھے جنھیں شاہ مراکش نے اصلاحات کے وعدوں کیساتھ ختم کروا دیا تھا ۔ شاہ مراکش نے بعض آئینی اصلاحات کرتے ہوئے اپنے بعض اختیارات کو پارلیمنٹ کے حوالے کر دیا تھا ۔ علاوہ ازیں،انھوں نے کسی پارلیمانی رکن کو حکومت کے فرائض سونپنے کے بجائے عام انتخابات میں کامیاب پارٹی سے وزیر اعظم منتخب کرنے  کو قبول کیا تھا اور پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے  کا اختیار بھی وزیر اعظم کوہی دیا تھا ۔ان اصلاحات کے باوجود عوام کی اس رائے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی کہ  آخری فیصلہ شاہ مراکش ہی کرتے ہیں ۔ یہ سوچ غالب تھی کہ پارلیمنٹ کے فیصلے دراصل شاہی فیصلے ہی ہوتے ہیں اور پارلیمنٹ سیاسی پارٹیوں کا بعض معاملات  پر محض  بحث و مباحثہ کرنے کا مقام ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے  چھوٹے حصہ داروں  کے ووٹو ں  کی تعداد میں کمی ہوئی ہے مگردوسری طرف پی جے ڈی نے اپنے ووٹوں  کی تعداد میں کسطرح اضافہ کیا ہے ۔

2011 سے لیکر 2016 تک عبداللہ بن کران کے دور وزارت میں  پی جے ڈی کی زیر قیادت  دو بار مخلوط  حکومتیں قائم ہوئی لیکن یہ حکومتیں اپنے وعدوں کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں ۔  اقتصادی ترقی کا ہدف سات فیصد تھا  مگر دو فیصد سے بھی کم ترقی ہو سکی تھی جس کے بعد پی جے ڈی حکومت کفایت شعاری کی پالیسیوں پر عمل درآمد کروانے پر مجبور ہو گئی تھی مگر اس کے باوجود بے روزگاری اور بد عنوانیوں پر قابو نہ پایا جا سکا ۔

مخلوط حکومت کی بڑی حصہ دار پارٹی پی جے ڈی کا اپنے ووٹوں کی شرح کو بڑھانے اور چھوٹی پارٹیوں کے ووٹوں کی شرح میں کمی کا حکومت کی کمزور کارکردگی کے طور پر جائزہ نہیں لیا جا سکتا ۔

دوسری طرف مراکش کے سیاسی میدان میں بائیں  بازو کی مقبولیت میں مسلسل کمی کا مشاہدہ کیا گیا ہے ۔حالیہ انتخابات سے قبل تین پارٹیوں کے اتحاد سے قائم ہونے والی نیو ڈیموکریٹک لیفٹ فیڈریشن انتخابی مہم میں کافی کامیاب نظر آتی تھی لیکن انتخابات میں وہ صرف دو نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکی ہے ۔

 دوسرا اہم نکتہ  یہ ہے کہ پام پارٹی کو شاہی  سر پرستی حاصل تھی  جس کی وجہ سے شاہی  محل سے وفاداری رکھنے والے عوام نے پام پارٹی کو ووٹ دئیے ۔ یہ پارٹی سیکولرازم اور اسلام ازم کی حمایت کی وجہ سے دیگر پارٹیوں کے سیکولر رائے دہندگان کو  اپنی طرف کھنچنے میں کامیاب رہی ۔

حکومتی اقدامات کی بد تر کارکردگی کی ذمہ داری عام طور پر نظام پر ڈالی جاتی ہے۔ بہار عرب کے دائرہ کار میں شاہی محل کیطرف سے کیے گئے وعدے پرانے سسٹم کو نئے طریقے سے دکھانے کے مترادف تھے جس کی وجہ سے عوام نے انتخابات میں حصہ لینے کو کوئی اہمیت نہ دی ۔

ان انتخابات کی روشنی میں  پی جے ڈی کے ووٹوں کی شرح  کا کس لحاظ سے جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ 18 نشستوں کے اضافے کا مراکش میں سیاسی اسلام کا حکومت پر مہر ثبت کرنے کی نظر سے جائزہ لینا درست نہیں  ہو گا ۔ انتخابات میں شرکت کی شرح انتہائی کم رہی ہے اور انتخابات میں 32 فیصد ووٹ حاصل کرنا مجموعی رائے دہندگان کے تقریباً 10 فیصد کے برابر ہے ۔  یہ کہا جا سکتا ہے کہ پی جے ڈی پارٹی مستحکم سماجی بنیاد کی مالک ہے  اور یہ پارٹی عوام کے ایک اہم حصے کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے ۔

 دوسری طرف  دیگر مسلمان ممالک  کی صورتحال کا جائزہ  لینے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ انھوں نے گردو نواح کی سماجی طاقتوں کو مرکز تک لانے والے ایک سیاسی عنصر کا کردار ادا کیا ہے۔ پی جی ڈی شاہی محل سے وابستہ بند سیاست کو حساس سیاسی توازن کو نقصان پہنچائے بغیرسماجی شعبوں تک لانے میں کامیاب رہی ہے ۔ 1998 سے لیکر 2007 تک ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی کا نمائندہ مشن اسوقت پی جی ڈی  کی صورت میں سامنے آیا ہے ۔ شاہی پارٹی کے طور پر مشہور پام پارٹی کا حالیہ انتخابات میں انتخابی حکمت عملی کو پی جی ڈی کی مخالفت کیساتھ وضح کرنا انتہائی اہمیت کا حامل عنصر بنا ہے ۔

مراکش میں اصلاحات کے باوجود شاہی محل اور اس کے قریبی حلقے سیاسی قوت کو اپنے ہاتھ میں رکھےہوئے ہیں ۔ شاہ مراکش کے سسٹم پر اثرورسوخ جاری رکھنے کی وجہ سے رقابت رکھنے والے آمرانہ نظام کی موجودگی کی طرف توجہ دینا لازمی ہے ۔ کچھ عرصہ قبل کروائےجانے والے ایک عوامی سروے کے مطابق عوام کا 82 فیصد اس نظریے کا حامی ہے  کہ حکومت بد عنوانی کا شکار ہے اور 91 فیصد کے مطابق سفارش کے بغیر ملازمت ملنا ممکن نہیں ہے ۔



متعللقہ خبریں