گولن کی 30 سالہ بغاوت
دی نیو یارکر " نے دہشت گرد تنظیم فیتو کی ترکی میں گزشتہ دنوں خونی بغاوت کی کوشش کے حوالے سے ایک تجزیے کو "30 سالہ بغاوت" کے زیر عنوان اپنے قارئین تک پہنچایا ہے
امریکی کثیرالاشاعت جریدے " دی نیو یارکر " نے دہشت گرد تنظیم فیتو کی ترکی میں گزشتہ دنوں خونی بغاوت کی کوشش کے حوالے سے ایک تجزیے کو "30 سالہ بغاوت" کے زیر عنوان اپنے قارئین تک پہنچایا ہے۔
بغاوت کی کوشش اور گولن تحریک کے حوالے سے ڈیکسٹر فلکنز کی جانب سے قلم بند کردہ اس کالم میں مذکورہ تنظیم کے ترکی میں ڈھانچے اور اس کے ارکان کی سرغنہ فتح اللہ گولین سے وابستگی اور یقین کی جانب اشارہ دیا ہے۔
فِلکنز کی جانب سے فیتو کے محکمہ پولیس، خفیہ سروس اور عدالتوں سمیت سرکاری سڑیٹیجک اداروں میں کس طریقے سے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کو وسیع پیمانے پر پیش کیے جانے والے کالم میں اس بات کی یاد دہانی کرائی ہے کہ انہوں نے اس سے پیشتر فتح اللہ گولین اور اس کے بعض ساتھیوں سے انٹرویو کیا تھا۔
گولین سے انٹرویو لینے کی خاطر پہلی بار سن 2014 میں تنظیم کے نیو یارک میں مرکز کو جاتے ہوئے اس حوالے سے درخواست پیش کرنے کی وضاحت کرنے والے فلکنز نے لکھا ہے کہ طبیعت کی ناسازگی کے جواز میں اس کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا تا ہم آئندہ برس تنظیم نے اس سے رابطہ قائم کرتے ہوئے انٹرویو کے لیے گولین کے بنگلے میں آنے کی دعوت دی تھی۔
گولین سے بات چیت کو "بلواسطہ اور سمجھنے میں دقت آنے " کے طور بیان کرنے والے فلکنز کا کہنا ہے کہ "جب میں نے اس سے قیادت کردہ جماعت کا سیاست سے تعلق ہونے کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میرے حامیوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔ کوئی بھی شہری یا پھر سماجی گروہ سیاست سے عاری نہیں رہ سکتا کیونکہ حکومتی فیصلے اور کاروائیاں ان کی زندگیوں کو متاثر کرتی ہیں۔"
گولین کے تھکن سے چور ہونے کا مشاہدہ کرنے کا ذکر کرنے والے فلکنز نے بتایا ہے کہ تقریباً 45 منٹ بعد انہوں نے ملاقات کا وقت ختم ہونے کا اشارہ دیا۔
اپنے مقالے میں گولین کے ترکی میں عدالتی نظام و محکمہ پولیس میں وسیع پیمانے کا اثر رسوخ ہونے کا کہنے والے فلکنز نے دیگر ملاقاتوں سے بھی چند اقتباسات پیش کیے ہیں۔
انقرہ کے دورے کے وقت سن 2011 میں اورہان غازی ای تیکن نامی ایک شخص سے ملاقات کرنے کا ذکر کرنے والے کالم نگار نے لکھا ہے کہ ایر تیکن نے انہیں فیتو کے عدالتوں کے اندر ڈھانچے کے بارے میں جامع معلومات بھی فراہم کی تھیں۔انہوں نے ججوں اور اٹارنیوں کی اعلی کمیٹی میں فیتو کے ارکان کی کس طریقے سے تقرری کیے جانے کا بتایا البتہ وہ اس دوران خفیہ زبان استعمال کر رہا تھا۔ ا سکے مطابق گولن کے آدمیوں نے اپنی مرضی کے مطابق تقرریاں شروع کر دیں جس کے بعد انہیں دوسری جماعتوں کے ساتھ سودا بازی کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی ۔
کالم نگار نے ہائی اسکول کی تعلیم کے دور سے تنظیم میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے طویل مدت تک اس کے لیے کام کرنے اور اہم عہدوں پر خدمات ادا کرنے کے بعد تنظیم سے علیحدگی اختیار کرنے والے احمد کیلیش نے بتایا تھا کہ ان کو نرم مزاج اور سادہ لوح کے طور پر متعارف کروایا گیا گولن در اصل سخت گیر رویے کا مالک تھا اور یہ بلا تردد کے اس کی اطاعت کیے جانے کا حکم دیتا تھا۔
فیتو کے ارکان کے گولن کے چھوڑے گئے کھانے پر ٹوٹ پڑنے حتی بعض اوقات اس کے لیے آپس میں جھگڑا کرنے کا بھی تذکرہ کرنے والے مقالے میں لکھا گیا ہے کہ گولن کو ان تمام باتوں کی اطلاع ہوتی تھی تا ہم وہ اس پر محض مسکرا دیا کرتا تھا۔
ڈیکسڑ فلکنز نے اپنی تحریر میں 17 برسوں تک گولن تحریک میں شامل رہنے کے بعد سن 2003 میں علیحدگی اختیار کرنے والے سعید الپ سوئے کی بعض یادوں کو بھی جگہ دی ہے جنہیں اس نے فلکنز کو انٹرویو میں بتایا تھا۔ کہ گولن کے استعمال کردہ جوتے کو پہننے والا ایک شخص ایک مذہبی تقریب میں شرکت کرتا تھا اور یہ اس جوتے سے چمڑے کا ایک ٹکڑا کاٹتے ہوئے ابلتے ہوئے پانی میں ڈال دیتا تھا، کئی گھنٹوں تک ابلنے کے بعد چمڑے کے ٹکڑے کو وہاں پر موجود مرید کھا جاتے تھے۔
بعض امریکی سابق حکام کے بیانات کو بھی جگہ دینے والے مقالے میں واضح کیا گیا ہے کہ فیتو کے ارکان کا بغاوت کی کوشش میں قائدانہ کردار ادا کرنے کا احتمال قومی ہے۔ کیونکہ ترک فوج میں ان سے زیادہ بڑا اور منظم کوئی دوسرا گروہ موجود نہیں ہے۔
تحریر میں سن 2008 تا 2011 ترکی میں فرائض ادا کرنے والے امریکہ کے ترکی میں سفیر جیمز جیفری کے خیالات کو بھی جگہ دینے والے فلکنز کا کہنا ہے کہ جیفری کے مطابق ترکی میں 15 جولائی کی خونی بغاوت کی کوشش کے پیچھے 'گولن تحریک 'کے کار فرما ہونے کا احتمال پایا جاتا ہے کیونکہ یہ حکومتی اداروں میں مخالفین کا سب سے زیادہ طاقتور گروپ ہے۔
اپنے آپ کو لیفٹنٹ کرنل کے طور پر متعارف کروانے والے ایک دوسرے عہدیدار نے فلکنز کو بتایا ہے کہ وہ "گولن کے لیڈر گروپ میں شامل ایک شخص کی وساطت سے بغاوت کی کوشش سے ایک ہفتہ قبل اس کاروائی سے آگاہ تھا۔
ایوان صدر کے ترجمان ابراھیم قالن نے ان کو بتایا تھا کہ "گولن تحریک ایک بڑی جرم پیشہ تنظیم ہے۔ ہمارے اندازے کے مطابق بغاوت کی کوشش میں 11 ہزار سے زائد افراد شامل تھے۔ ہم اس تحریک سے کسی بھی قسم کا رابطہ اور تعلق موجود ہونے والوں سے ضرور حساب پوچھیں گے۔
مقالے میں فیتو کے سرغنہ فتح اللہ گولن کے امریکہ میں رہائش پذیر ہونے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اور گولن کو گرین کارڈ دلانے میں معاونت فراہم کرنے والے امریکی خفیہ سروس کے سابق جاسوس گراہم فولیر کے خیالات کو بھی جگہ دی گئی ہے۔
فولیر کے سی آئی اے سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد سیاسی اسلام پر اکیڈمک ریسرچ کرنے کے وقت گولن سے متعارف ہونے کی جانب اشارہ کرنے والے فلکنز نے بتایا ہے کہ فولیر کےمطابق گولن اور سی آئی اے کے درمیان تعلق کا اسے علم نہیں ہے۔ تا ہم اس نے گولن کے لیے ایف بی آئی کو سفارشی خط لکھنے کا اعتراف ضرور کیا ہے۔
فلکنز نے اپنے مقالے میں امریکی سفارتکار اسٹورٹ اسمتھ کی جانب سے 2005 میں تحریر کردہ ایک ٹیلی گراف میں تین اعلی سطحی پولیس اہلکاروں کی جانب سے گولن کے امریکہ میں باآسانی قیام کرنے کے زیر مقصد امریکہ کے استنبول میں قونصل خانے کا دورہ کیا تھا۔
آخر میں کالم نگار نے لکھا ہے کہ بعض امریکی حکام کے گولن کو گرین کارڈ دیے جانے کے خلاف ہونے کے باوجود گولن کے اس میں کامیاب ہونے میں بعض سفارشوں کا ہاتھ تھا۔ سی آئی کے سابق عہدیدار جیورج فیداس، امریکہ کے ترکی میں سابق سفیر مورٹون ابرامووٹز اور گراہم فولیر کے گولن کے قریبی دوست ہیں۔