ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔41

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔41

591357
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ ۔41

ترکی  کی  قومی  اسمبلی نے یکم اکتوبر  کو  شام میں سرحد پار کاروائی کے لیے حکومت کو دئیے گئے اختیارات کی مدت کو 30 اکتوبر 2017 تک بڑھا دینے کے وزارت عظمی کے اجازت نامے کو منظور کر لیا ہے ۔  شام میں داعش کیخلاف جاری فرات ڈھال کاروائی اور داعش کو موصل سے نکالنے کے لیے عنقریب ہی شروع کی جانے والی کاروائی کے لیے یہ اجازت نامہ انتہائی اہمیت کا  حامل ہے ۔

صدر رجب طیب ایردوان نے اجازت نامے کی مدت میں توسیع کے فیصلے سے قبل چار اکتوبر کو دوبئی ٹیلیویژن کو انٹر ویو دیتے ہوئے   عنقریب ہی موصل کو داعش کے قبضے سے واگزار کروانے کی کاروائی   کے آغاز کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔ انھوں نے اسطرف توجہ دلائی کہ ترکی عراق اور شام کیساتھ طویل سرحدیں رکھنے والا ایک ملک ہےجس کی وجہ سے وہ ان ممالک کی سلامتی سے متعلقہ پیش رفت کا خاموش تماشا نہیں دیکھ سکتا ۔

موصل موصل کے باشندوں کا ہے ۔ موصل کو داعش کے قبضے سے  واگزار کروانےکے بعد یہاں پر سنی عربوں ،ترکمینوں اور سنی کردوں کو آباد ہونے کی ضرورت ہے ۔

۔ شام کے شمال میں پروازوں کے لیے ممنوع سلامتی کا علاقہ تشکیل دینے اور 5 ہزار مربع  کلومیٹر کے علاقے  کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے ۔

ترکی کے عراق کے بارے میں موقف پر عراق نے سخت رد عمل ظاہر کیا ۔ عراق کی قومی اسمبلی  نے اعلان کیا ہے کہ ترکی کی موصل کے باشیکا کیمپ میں موجودگی کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ترک فوجیوں کو عراق سے نکالنے کے لیےضروری تدابیر اختیار کی جائیں گی ۔قومی اسمبلی نے ترک قوتوں سےعراق میں داخلے کا  مطالبے کرنے والوں کیخلاف  عدالتی کاروائی کرنے،صدر ایردوان کے بیانات کی مذمت کرنے،ترکی کیساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات  پر نظر ثانی کرنے  اور ترک  فوج کو ملک سے نکالنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اور اقوام متحدہ سے فوری طور پر رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

 عراقی قومی اسمبلی کے فیصلے کے بعد وزیر اعظم حیدر العبادی اور شعیہ ملیشیاء قوت حشدی شابی کے سلامتی کے ترجمان یوسف ال کیلابی نے بھی بیانات دئیے ۔ وزیر اعظم العبادی  نے ترکی پر عراق کے داخلی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا  اور علاقائی جنگ کی دھمکی دی ۔ ال کیلابی نے کہا کہ وہ ترک فوجیوں کیساتھ جنگ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں  اور صدر ایردوان کا موصل میں کونسے افراد کے رہائش پذیر ہونے کا بیان امتیازی حیثیت رکھتا ہے ۔

عراق کیطرف سے جاری بیانات کی امریکہ اور دیگر ممالک نے حمایت کی ہے  لیکن ترکی کیخلاف رد عمل، ترکی کی عراق سے متعلق پالیسی اور صدر ایردوان کے اعلانات کا اپنی مرضی کیمطابق جائزہ لیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکام جس بات کو فراموش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ  عراق  میں داعش کے وجود میں آنے کی وجہ امریکی مداخلت سے پیدا ہونے والاانتشار اور افراتفری  ہی ہے ۔ علاوہ ازیں ، 1991 میں پہلی جنگ خلیج  کے بعد علاقے میں نظم و نسق کے فقدان سے دہشت گردوں نے شمالی عراق کو اپنا اڈہ بنا لیا تھا  ۔ شام کی صورتحال اور داعش کی کاروائیوں میں اضافے سے ترکی کو سلامتی کا خطرہ لاحق ہوا ۔اپنی سلامتی اور مفادات کا تحفظ کرنے والے ہر ملک کیطرح ترکی بھی صورتحال کا خاموش تماشا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔

 ترک فوجیوں کی عراق میں موجودگی اس ملک کی سلامتی اور خود مختاری کے لیےہر گز خطرہ تشکیل نہیں دیتی ہے ۔ ترک فوجیوں کی علاقے میں موجودگی کا واحد مقصد  داعش کے زیر قبضہ علاقوں کو واپس لینا اور مقامی قوتوں کو تربیت دینا ہے ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترک فوجی حکومت عراق کی دعوت  پر اس ملک میں فرائض انجام دے رہے ہیں ۔

نائب وزیر اعظم نعمان قرتلمش نے کہا ہے کہ ترک فوجی عراق میں استحکام کے عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ترکی دہشت گرد تنظیموں کیطرف سے پیدا کیے گئے سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے اورموصل کے عوام کو تحفظ دینے کا عزم رکھتا ہے ۔

 دریں اثناء شعیہ حشدی شابی ملیشیا  وں کیطرف سے اپنے اندر پناہ دینے والے عناصر کی سر گرمیوں کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا ۔ حکومت عراق  اس ضمن میں منفی موقف اختیار کرتے ہوئے حالات کو فردی خطاؤں کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔ حشدی شابی داعش کے قبضے سے واگزار کروا نے کے لیے زیر محاصرہ شہروں کو ترک کرنے والے شہریوں  پر حملوں کیوجہ سے مسلسل ایجنڈے میں ہے ۔انبار کے گورنر نے اعلان کیا ہے کہ فلوجے کو داعش  کے قبضے سے چھڑانے  کی کاروائی کے دوران ان ملیشیاؤں نے ہزاروں شہریوں کو قتل کیا ہے ۔ ابھی تک ہزاروں افراد لاپتہ ہیں ۔انسانی حقوق کی نگران کمیٹی کی طرف سے  9 جون کو جاری رپورٹ میں  بتایا گیا ہے کہ حشدی شابی نے ہزاروں شہریوں کو اشکنجوں  سے ہلاک کیا ہے اور ٹکڑے ٹکڑے کی جانے والی لاشوں کی ذمہ دار بھی  یہی تنظیم ہے۔ جن شہروں کو  داعش کے قبضے سے  آزاد کروانے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں کے عوام ملیشیاؤں سے رابطہ نہیں چاہتے ہیں  ۔اس دائرہ کار میں انبار کے  حکام نے  حکومت سے فلوجہ کی عوام کو حشدی شابی کے ملیشیاؤں سے دور رکھنے کا مطالبہ کیا تھا ۔  داعش کے قبضے سے واگزار کروائے جانے سنی علاقوں میں جھڑپوں سے قبل علاقے کو ترک کرنےوالے انسانوں کو واپسی کی اجازت  نہ دینا باعث تشویش ہے ۔ شہر کے باسیوں کو اپنے گھروں کو واپس آنے کی اجازت نہ دینے سے شہر وں کی ڈیمو گرافی  میں تبدیلی کا خدشہ لا حق ہے ۔

مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ عراق نے ترکی کے خلاف جو رد عمل ظاہر کیا ہے  وہ حقائق کے منافی ہے ۔  اسے معلوم ہے کہ دہشت گردی کیخلاف  جدوجہد کرنے والا ملک ترکی عراق کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کی حمایت  کرتا ہے  اور اس میں کسی قسم کا شک و شبہ موجود نہیں ہے ۔ ترکی کی پالسی واضح ہے  ۔وہ عراق کی علاقائی سالمیت کا تحفظ کرنے ،اس کے مستحکم ملک بننےاور امن و امان  کے قیام کا تہہ دل سے متمنی ہے   لیکن  ملک میں بسنے والے تمام فرقوں کی مساوی حیثیت کو قبول  نہ کرنے سے اسے حقیقت کا روپ دینے  ممکن نہیں ہو گا ۔



متعللقہ خبریں