ترکی کے نقطہ نظر سے -4

کمیونسٹ  دنیا بھی اور مغربی دنیا بھی اپنی افواج کی اس اسٹریٹجی کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیشہ اپنی عوام کی بچتوں  کے ایک بڑے حصے کو  فوجی اخراجات پر لگاتی رہی ہیں

563463
ترکی کے نقطہ نظر سے -4

پروگرام " ترکی کے نقطہ نظر سے" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ جارحیت اور ملٹری فورسز  "امن کے لئے جنگ" کی پالیسی کے تحت حرکت کرتی ہیں۔20 ویں صدی سے انسانیت اس بات یا قول کو ہمیشہ سے سنتی چلی آ رہی ہے۔ خاص طور پر کمیونسٹ حکومتوں کے بعد اس جملے نے  تمام حدود کو پار کر تے ہوئے اجتماعی مواصلاتی ذرائع  کے وسیلے سے انسانوں کی ضرب المثل کی  دنیا میں جگہ بنا لی۔  "امن کے لئے جنگ"   کی ضرب المثل جب توسیع پسند حکومتوں کا بنیادی فلسفہ بنی تو  افواج نے نئے دفاعی تصورات کو اس کے مطابق ڈیزائن کیا۔ کمیونسٹ  دنیا بھی اور مغربی دنیا بھی اپنی افواج کی اس اسٹریٹجی کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیشہ اپنی عوام کی بچتوں  کے ایک بڑے حصے کو  فوجی اخراجات پر لگاتی رہی ہیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جس دور میں انسانیت  عام سے بیماری یعنی "فلُو " کے ساتھ موت کے منہ میں جا رہی  تھی اس وقت بھی حکومتیں طبّی تحقیقات  کے لئے مخصوص کردہ بجٹ سے بیسیوں گنا زیادہ کو فوجی دفاعی تصورات کے لئے خرچ کر رہی تھیں۔

امن کے لئے جنگ  انسانیت کو ایک رتّی برابر بھی خوشی نہیں دے سکی۔ بالکل برعکس اس جملے کی انسانیت کو بخشی ہوئی میراث 'موت اور تباہی' تھی۔

اور سینکڑوں سالہ "امن کے لئے جنگ" کی دوڑ  پاگل پن  کی حدوں تک پہنچ کر "انسدادی جنگ" میں تبدیل ہو گئی۔ ایسے ممالک جن کی مسلح قوت مضبوط تھی انہوں نے " انسدادی جنگ" کے نام سے اقتصادی لحاظ سے کمزور ممالک یا علاقوں  پر قبضہ کر کے  استبدادیت  کرنا شروع کر دی۔

"انسدادی جنگ" کا تصور بھی نہایت عجیب ہے اور اس تصور کے ابھرنے کا زمانہ سوویت یونین کے ٹوٹنے کا دور ہے۔ یعنی "پیریسٹرائکا" یعنی معاشی ، سیاسی ، سماجی نظام کی تشکیل ہونے کے ساتھ  جیسے ہی سوویت یونین  نے فوجی رقابت میں اپنی شکست کا اعلان کیا  اقوام متحدہ نے، جو اس سے قبل صدام حسین کو تعاون فراہم کر رہی  تھی، اب اس کے  اپنے مفادات  کے برعکس کاروائیوں میں مشغول ہونے کے دعوے کے ساتھ "انسدادی جنگ" کے تصور کو عملی شکل دی اور عراق پر قبضہ کر لیا۔

عراق سے قبل انہی وجوہات کے ساتھ اقوام متحدہ  ، ہزاروں فوجیوں کے ساتھ کُل چار پانچ ہزار فوجیوں والے ملک  پاناما پر قبضہ کر چکی تھی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے جنرل مانوئیل انتونیو نوریاگا  کا تختہ الٹا  اور اسے گرفتار کر کے امریکہ بھیجا  کہ جسے یہ خود اقتدار میں لائی تھی اور جو سالوں سے سی آئی اے کے لئے کام کر رہا تھا۔

پاناما اور عراق  پر قبضے کے بعد افغانستان میں طالبان حکومت کو بہانہ بنا کر  اقوام متحدہ کی طرف سے ملک پر قبضہ کر لیا گیا ۔  جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جب افغانستان میں طالبان حکومت قائم ہوئی تو اسے سب سے پہلے امریکہ نے تسلیم کیا تھا۔

یہ انسدادی جنگ کا تصور  اپنے پوری وحشت کے ساتھ آج شمالی افریقہ ، عراق اور شام میں جاری ہے۔ ہر روز بیسیوں بچے بوڑھے اور عورتیں قتل کی  جا رہی ہیں۔ اس سب کی واحد وجہ "امن کے لئے جنگ" نامی اس تصور کا شر انگیز فتنہ یعنی "انسدادی جنگ" کا تصور ہے۔ زیر قبضہ علاقوں پر قبضے کے ساتھ شروع کئے گئے قتل عام کی وجہ  ان علاقوں میں جمہوریت لانا ہے۔  جمہوریہ ترکی اس علاقے کے بالکل وسط میں واقع ہے کہ جہاں قیام جمہوریت کے لئے ہر روز سینکڑوں انسانوں کو قتل کیا جا رہا ہے ، گھروں اور قصبوں پر بمباری کی جا رہی ہے۔ ترکی کے حکام نے اصرار کے ساتھ جنگ کے خلاف پالیسیوں کو بیان کرنے کی کوشش کی  اور اپنے اتحادیوں کی خون ریزی کی ہوس میں شامل نہیں ہوئے۔ یہ پالیسی صرف ترک سول سیاسی حکام ہی کی نہیں ترک مسلح افواج کی بھی پالیسی ہے۔

ترک فوج  اپنی 5 ہزار سالہ تاریخ کے ساتھ دنیا کے قدیم ترین دو افواج میں سے ایک ہے۔ ترک برّی فوج کی تاریخ برطانیہ کی تاریخ سے زیادہ پرانی ہے۔ جب ہم اس کی اتحادی نیٹو افواج کے حملوں کی طرف نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایسی تاریخی میراث کی اور شہنشاہیت کے کلچر کی  مالک ترک فوج کے اطراف میں تشکیل پانے  والے اس اقتدار اور فوج کے خلاء کو  قبضہ کی حکمت عملی کے ساتھ پورا کرنا ضروری ہے۔

نہایت دلچسپ بات یہ ہے کہ ترک فوج   اس موقع  کو  خاطر میں نہیں لائی۔ بلکہ اس کے برعکس اپنے ہمسایہ ممالک کی منتشر فوجوں کے دوبارہ منظم ہونے کے لئے اپنے تمام اداروں کو ان کی تربیت کے لئے کھول دیا۔ ان اداروں میں پاکستان سے لے کر جزائر تک، سوڈان سے لے کر صومالیہ تک تمام ممالک کے فوجی طالبعلموں کو تربیت دی جا رہی ہے۔

ترک مسلح افواج کی سب سے اہم  ترین خصوصیات  میں سے  ایک یہ ہے کہ جہاں یہ فوج داخل ہوتی ہے وہاں اس کا مقصد بہتے خون کو بند کرنا ہوتا ہے۔ یعنی جہاں ترک فوج قدم رکھتی ہے وہاں امن اور سکون آتا ہے۔ موجودہ  صدی میں  ترک مسلحح افواج نے دو بڑی کاروائیاں کیں جن میں بڑے پیمانے کے قتل عاموں کا سدباب کیا اور ان علاقوں میں حتمی فائر بندی کو یقینی بنایا۔ ان دو بڑی فوجی  کاروائیوں میں  سے ایک قبرص کا فوجی ریڈ اور دوسرا منبج کا فوجی ریڈ ہے۔

جب ترکی نے قبرص میں اپنی فوجیں بھیجیں تو اس سے قبل جزیرے میں پورے 14 سال سے اجتماعی قتل عام ہو رہا تھا۔ یونانی دہشت گرد تنظیم EOKA قبرصی ترکوں سمیت علاقے میں امن کے حامی یونانیوں کو ہدف بنا  کر ہزاروں انسانوں کو قتل کر چکی تھی۔ جزیرے میں برطانوی فوج ضامن ملک کی فوج کی حیثیت سے موجود تھی لیکن یہ فوج جیسے 1940 میں یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنی رہی اسی طرح قبرص میں ترکوں کے قتل عام پر خاموش تماشائی بنی ہوئی تھی۔ برطانیہ کے فوجیوں  کی اس خاموشی سے جرات پاکر یونانی دہشت گرد تنظیم EOKA نے اپنے لیڈر نکوس سیمسن کی زیر قیادت قبرص میں حکومت پر حملہ کر کے منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا ۔ منتخب حکومت کے اور  حکومتی نظام   کے برقرا نہ رہنے   پر ترک فوج نے قبرص پر چڑھائی کی اور ترک شہریوں کے بھی اور یونانی شہریوں کے بھی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا۔

ترک فوج کے 1974 میں جزیرہ قبرص میں داخل ہونے سے لے کر اب تک جزیرے میں کوئی ایک بھی ترک یا یونانی شہری دہشت گردی کی بھینٹ نہیں چڑھا۔ اپنے پورے مفہوم کے ساتھ جزیرہ امن کا گہوارہ  بن گیا ہے اور یہاں ترک اور یونانی باشندے اپنی زندگیاں  دہشتگردی اور افراتفری   سے پاک محفوظ اور خوشگوار  ماحول  میں گزار رہے ہیں۔

اسی طرح شام کہ جہاں سال  2010 سے لے کر اب تک خانہ جنگی جاری ہے اور جہاں  امریکہ ، روس برطانیہ سمیت  بیسیوں ممالک کے جنگی طیارے ہر روز سینکڑوں ٹن بم برسا رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود امن تو کسی طرح  بحال نہیں ہو سکا لیکن 5 لاکھ انسان اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً 10 ملین شامی  مہاجر بن گئے ہیں۔ اتحادی سالوں سے ترکی کی سکیورٹی زون کی تجویز  کو سنی ان سنی کر  کے اس قتل عام کے ساجھے دار بھی بن رہے  ہیں اور اس کا سبب بھی۔

ترک فوج نے دو ہفتوں سے زائد عرصے سے شام کے شمالی علاقے میں  آپریشن کیا۔ اور 5 سالوں سے  اقوام متحدہ، برطانیہ، کینیڈا، روس، ایران اور شام کی برّی فورسز اور فضائیہ   داعش کے جن دہشت گردوں کو علاقے سے نہیں نکال سکی وہ 1500 کے قریب ترک فوجیوں  اور ایک ٹینک یونٹ کے سامنے 2 گھنٹے بھی نہیں جم سکے۔ شام میں اس وقت تک صرف امریکہ 2000 جنگی پروازیں کر چکا ہے جبکہ آپریشن کے دوران ترکی نے صرف 12 جنگی پروازیں کیں۔ ترک فوج نے فرات کے شمالی علاقے کو محفوظ علاقے کی شکل دی ہے۔ اور اس وقت سے اب تک ہزاروں شامی اپنے وطن کو واپس لوٹ آئے ہیں۔

ترک فوج "امن کے لئے جنگ" اور "انسدادی جنگ" کے تصورات پر یقین نہیں رکھتی اور اس نے ایک دفعہ پھر  پوری دنیا کو  ایک درس دیا ہے۔ وہ درس یہ ہے کہ "فوجیں چاہیں تو امن قائم کر سکتی ہیں اس کے لئےصرف اتنا کافی ہے کہ وہ امن کے لفظ کو استعمال کئے بغیر اس کو عملی شکل دینے کا تجربہ کریں۔



متعللقہ خبریں