ترکی کا ثقافتی ورثہ34

بحیرہ اسود کی رنگینیاں

559201
ترکی کا ثقافتی ورثہ34

آج  ہم بحیرہ اسود  کے علاقے میں واقع شہر اوردو کا ذکر کریں گے جو کہ بحیرہ اسود کے مشرقی حصےمیں  قدرت کی تمام تر خوبصورتیوں کے درمیان  اپنی بانہیں پھییلائے اپنے  زائرین کو خوش آمدید کہتا ہے ۔یہ شہر سمندری سیاحت کے حوالے سے بحیرہ اسود کے  خوش نصیب شہروں میں شمار ہوتا  ہے  چونکہ اس شہر کاساحل کافی طویل اور ریتیلا ہے ۔ ساحلی کنارے  پر جا بجا  خوبصورت دیہات ،قدرتی ساحل اور مختلف  تفریحی مقامات واقع ہیں۔ قصہ مختصر ،اوردو  نیلے اور سبز رنگ کے امتزاج کا حامل شہر ہے۔  اوردو کاشمالی علاقہ،شمالی اناطولیہ کے پہاڑ وں  سے گھرا ہوا ہے  جبکہ اس کے ساحل سے شروع ہونے والا پہاڑی سلسلہ     علاقے کے ساتھ ساتھ بڑھنا شروع ہوجاتا ہے۔ اوردو ۔گیریسون اور سیواس  کے  اضلاع کے درمیان  موجود پہاڑوں کی بلندی تین ہزار میٹر  تک  بلند ہوتی ہے جس کی وجہ سے  اس شہر کا ابتدائی نام  کوتوریا رکھا گیا تھا کہ جس کے معنی  وادی کے ہیں۔

سامسون ،ترابزون اور گیریسون  کے ہمراہ ان ساحلوں  پر اپنی دھاک بٹھانے  والے ملیٹ  کالونسٹ سینوپے  کی  جانب سے  ساتویں صدی قبلِ مسیح  کے وسط میں  قائم کیا جانے والا شہر اوردو دیگر بحیرہ اسود کی کالونیوں کے ہمراہ چھٹی صدی عیسویں  میں پارس قوم کے قبضے میں  رہا ۔ایرانیوں  کی جانب سے پونتوس  نامی صوبے پر مشتمل اس علاقے   کو334 قبلِ مسیح میں سکندرِ اعظم  کی یہاں آمد کے بعد تاریخ میں جگہ ملتی ہے۔تاہم، اس کی موت کے بعد  اناطولیہ کے علاقے میں  باہمی رنجشوں کا دور دورہ   رہا ۔ پونتوس قوم   نے تیسری صدی قبلِ مسیح  میں خود مختاری کا اعلان کرتے ہوئے ریاستِ  پونتوس کا قیام عمل میں  لانے سمیت  فارناکیس کے عہد میں  یعنی 183 قبلِ مسیح   میں سنوپ پر قبضۃ کرنے کے بعد  کوتوریا کو  بھی اپنی ریاست کی حدود میں شامل  کیا  ۔ 395صدی عیسویں  میں بازنطینی قوم کے زیرِ نگرانی  ساحلی علاقے کو ترکوں نے  دانشمند بے لی  کا نام دیا ۔ بعد ازاں یہ شہر سن 1461  میں محمد دوئم کی طرف سے خلافتِ عثمانیہ میں شامل ہوا۔

 اردو کے قیام کا پہلامقام پیر شمبہ کے  قریب  وونا بورنو کے جنوب مشرق میں واقع  بوزوک قلعے نامی مقام ہے۔لیکن زمانہ قریب  کی تاریخ کے حوالے سے   نو آباد اوردو کا ابتدائی مقام اوردو۔سیواس قومی شاہراہ  سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر  موجود بے لیک قوم کے دور  میں تعمیر ہونے  والی قدیم مسجد اور حمام کے کھنڈرات  کے جائے مقام یعنی ایسکی پازار کو مانا جاتا ہے ۔ دورِ حاضر  کے اوردو شہر کے 1780 یا 1790 میں قائم کیے جانے  کا ذکر کرنے والے مغربی سیاح  باو چیپمس  کے مطابق  اٹھارویں صدی کے وسط میں شہر نے تیزی سے ترقی کی ۔ اس کے بعد کے سالوں  میں  ہونے والی عثمانی اور  روسی جنگوں   اور  اس کے بعد پیدا ہونے والی پسماندگی  اور پھوٹنے والے وبائی امراض کے نتیجے میں اردو ایک فرسودہ حال شہر میں تبدیل ہوگیا۔ سن 2009 کی  رائے شماری کے مطابق ، سات لاکھ تیئس ہزار  کی آبادی پر مشتمل یہ شہر اردو  اس وقت  hazelnut  پر اپنی خود انحصاری کا خاتمہ کرتے  ہوئے  ترقی کے حوالے سے  سیاحت یا صنعت  کے درمیان  انتخاب کرنے  کے  مشکل گرداب میں پھنسا ہوا ہے ۔

اردو  کی سیر کرنے والے جب شہر کے مرکز میں آتے ہیں تو انہیں بلدیہ کی عمارت کے قریب  سر سبز علاقے میں  نصب ایک مجسمہ متوجہ کرتا ہے جو کہ سلیمان فلک کا ہے،  بلدیہ کے ناظم سلیمان فلک   کو اس شہر میں کافی عزت و احترام سے یاد کیا جا تا ہے۔ شہر کا مرکز اور بازار ان کی کاوشوں سے عملی جامہ پہننے والے شہری منصوبہ بندی   کے باعث آج حقیقت  کا روپ دھار چکا ہے۔ بازار میں تانبے کی کاری گری سے وابستہ چند ماہر   استاد    آپ وہاں دیکھ سکتے ہیں۔شہر کی سیر کرتے وقت  فیدان گور سے سیتکی جان نامی شاہراہ سے مڑتے ہوئے عقبی گلیوں  میں اگر چہل قدمی کریں تو بہتر ہوگا کہ جہاں  آپ    قدیم گورنر ہاوس کہ  جسے از سر نو  تزیئن و آرائش  کے بعد   میٹنگ ہال میں تبدیل کر دیا گیا  ہے دیکھ سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ  یونانی گرجا گھر  اور   زرد حویلی  کے نام سے یاد کی جانے والی کوستی نامی حویلی  کی بھی سیر کرنے کا لطف اٹھا سکتے ہیں۔

 اردو  میں صرف کھانے کے وقفے کے دوران قیام کرنے والے  افراد  بھی بازار میں سے گزرتے ہوئے عزیزیہ نامی مسجد   سے بخوبی واقف ہوجاتے ہیں۔ شہر کے قیام کےابتدائی سالوں میں تعمیر ہونے  والی یہ مسجد سن 1894 میں قاضی زادہ حاجی حسن آفندی کی طرف سے مسمار کرتے ہوئے   دوبارہ تعمیر کی گئی۔اس کے علاوہ یہاں  کی دیگر اہم ترین تعمیرات میں شمار فرزندِ   خزینہ دار عثمان پاشا کی طرف سے سن 1905 میں  بنایا گیا  ایک فوارہ  شامل ہے،سن 1939میں ایرزینجان کے زلزلے کے دوران نقصان زدہ ہونے والے  اس فوارے    کی دوبارہ تعمیرِ نو دراصل وہاں کے ممتاز فوٹو گرافوں کی انجمن کی کاوشوں سے عمل میں لائی گئی ۔

نسل  نگاری کا عجائب خانہ شاہراہِ   بوز تیپے   پر واقع ہے ۔ اتاترک کی اردو آمد   پر انہوں نے یہاں  پر قیام کیا تھا کہ جسے بعد میں  عجائب خانے میں تبدی کر دیا گیا ہے ۔ اس حویلی کو سن 1896 میں  پاشا صاحب زادے حسین  آفندی کی جانب سے بنوایا گیا تھا۔ سنگ کاری  کے اعلی نمونے کی حامل اس حویلی کے پتھر خاص طور سے اونیے سے جبکہ لکڑی رومانیہ سےمنگوائی گئی تھی۔

دراصل  د ن کے  ہر وقت  اردو کا نظارہ کرنے کےلیے بوزتیپے    پر آتے ہوئے وہاں  سے غروبِ آفتاب کا  نظارہ ضرور کر سکتے ہیں چونکہ اس کا نظارہ یہاں سے کافی خوبصورت ہوتا ہے۔ کسی زمانے میں بوز تیپے پر انسان چائے یا قہوہ پینے کو ترس جاتے تھے لیکن اب یہاں پر کافی تعداد میں ریستوران موجود ہیں۔ اواخرِ ہفتہ یہاں پر آنے والے اوردو کے شہری  کھلے مقامات پر پکنک مناتے ہوئے اپنا وقت گزارتے ہیں۔بڑھتی ہوئی تعمیرات کے باوجود بوز تیپے سے اردو کا نظارہ کرنا  کافی  حسین تجربہ ہوتا ہے اس پر کجا غروبِ آفتاب کے  بعد برقی قمقموں سے جگمگانے والے سر سبز پہاڑ  کے دامن میں پھیلے اس شہر کا نظارہ ان پر  ایک  انوکھی رقّت طاری کر دیتا ہے ۔ا س کے بعد   محسن  ایرتوعورول  کی جانب سے سن 1964 میں قائم کردہ بلدیہ اردو  کا بحیرہ اسود تھیٹر  ہے کہ جو کسی زمانے میں  یونانی گرجا گھر ہوا کرتا  تھا۔



متعللقہ خبریں