ترکی کے نقطہ نظر سے ۔ 2

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ  ترکی اور روس کے درمیان ہمسائیگی کے تعلقات کے معمول پر آنے پر خوشی محسوس کئے جانے کی بجائے افسردگی کی فضاء دیکھنے میں آ رہی ہے

559340
ترکی کے نقطہ نظر سے ۔ 2

پروگرام "ترکی کے نقطہ نظر سے" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ   اقوام متحدہ کے ادارے کا بنیادی مقصد ممالک کے درمیان ڈائیلاگ کو فروغ دینا، امن قائم کرنااور اس امن کا تحفظ کرنا ہے۔ کیوں کہ یہ اقوام متحدہ کے قیام کے متن میں واضح الفاظ میں لکھا گیا ہے۔ جیسے جیسے دنیا میں ممالک  کے درمیان تعلقات  معمول پر آتے ہیں  تو اس پر دیگر ممالک کے حکام بھی مطمئن ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ  ترکی اور روس کے درمیان ہمسائیگی کے تعلقات کے معمول پر آنے پر  خوشی محسوس کئے جانے کی بجائے افسردگی کی فضاء دیکھنے میں آ رہی ہے۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد ترکی اور روس کے درمیان قربت خاص طور پر ہمارے یورپی ہمسائیوں  سمیت تمام مغربی اتحادیوں  کو ہمیشہ سے افسردہ کرتی رہی ہے۔

مصطفیٰ کمال کے روس سے قریب ہونے پر بھی اسی قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کیا گیا اور نئی قائم ہونے والی سوویت یونین اور ترک جمہوریہ کے باہمی تعلقات کا فروغ بھی مغربی ممالک کو اچھا نہیں لگا اور مختلف شکلوں میں ان تعلقات کے راستے مِن رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔

اسی طرح کے ردعمل  کا مظاہرہ وارسا اور نیٹو معاہدوں کے بعد بھی جاری رہا۔ جمہوریہ ترکی اپنے بانی مصطفیٰ کمال کے بعد سے جب بھی روس سے قریب ہوا اسے بھاری سیاسی بدل چکانا پڑے ہیں۔

ترکی  کی روس کے ساتھ پہلی دفعہ سنجیدہ سطحی کی قربت سن 1950 میں وزیر اعظم عدنان مندریس کے دور میں ہوئی۔ اور ملک کی حیثیت سے ہم نے  اس دو طرفہ قربت کا بھاری بدل  چکایا۔ یہ قربت ملک کے اہم ترین تین سیاست دانوں کی پھانسی کا سبب بنی۔ ترکی کے وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ اس قربت کی بھینٹ چڑھا دئیے گئے۔ ترکی کے نیٹو پیکٹ میں شامل ہونے کے بعد ترک فوج اس تنظیم کے ساتھ مکمل طور پر منسلک ہوگئی اور عوامی مینڈیٹ کے سوویت یونین سے قریب ہونے کو برداشت نہ کر تے ہوئے  حکومت پر حملہ کر دیا اور وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور وزیر خزانہ کو پھانسی دے دی۔ ایک اور ترکی۔روسی قربت دوبارہ نیٹو فوج میں شامل  ترک فوجیوں نے  کسی اور بہانے سے  حکومت  کا تختہ الٹ دیا۔

سوویت یونین ٹوٹ گئی۔ وارسا معاہدہ ختم ہو گیا اور روسی فوج سے کوئی خطرہ نہ رہا لیکن اس کے باوجود ہمارے مغربی دوستوں نے ترکی۔ روس قربت پر ہمیشہ سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔

یورپی یونین نصف صدی سے ترکی کو اپنے دروازے پر منتظر بٹھائے ہوئے ہے لیکں اس کے باوجود ترکی کے کسی تیسرے ملک کے ساتھ روابط قائم کرنے پر رضا مند نہیں ہے۔ نہایت دلچسپ ردعمل کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ اپنی مغربی ذہنیت کے ساتھ ایک جلن اور حسد کا ردعمل ظاہر کر رہی ہے۔

ترکی کو، شام کی خانہ جنگی کی وجہ سے سال 2010 سے لے کر اب تک PKK  سمیت متعدد بین الاقوامی دہشت گرد تنظیموں کا خطرہ لاحق ہے۔ اور ترکی براہ راست نقصان اٹھا رہا ہے۔خاص طور پر شامی خفیہ ایجنسی کے زیر کنٹرول دہشتگ رد تنظیموں کے حملوں کے دوران ترکی کو اس کے مغربی دوستوں کی طرف سے تنہا چھوڑ دیا گیا۔ترکی کو ایک طرف شام کے ڈکٹیٹر بشار الاسد  کے S300  اورS 300 A کا اور دوسری طرف داعش ، القائدہ  اور دیگر انواع و اقسام  کی دہشت گرد تنظیموں کے طویل المسافت میزائلوں کا خطرہ لاحق ہے۔ اس کے باوجود پہلے امریکہ نے اور اس کے بعد جرمنی نے اپنے ائیر ڈیفنس سسٹم کو ترکی سے نکال کر ترکی کو دہشت گردی کے خطرے کے مقابل تنہا چھوڑ دیا۔ اس کے بعد بعض دن ایسے بھی تھے کہ ترکی میں 15 سے 20 میزائل اور راکٹ گرے۔  تنہا چھوڑے جانے کے بعد جب ترکی نے نیٹو سے باہر دفاعی  تعاون کرنے کی کوششیں شروع کیں تو امریکہ اور جرمنی سمیت دیگر مغربی دوست ممالک نے ناحق اعتراضات کرنا شروع کر دئیے۔ ترکی کو دھمکی دینے والے انداز میں اس قربت پر تنقید کی۔خاص طور پر چین سے میزائلوں کی خرید  اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر پر ان مغربی دوستوں نے سخت الفاظ میں تنقید کی۔

ترکی کے اس موضوع پر اصرار کو جاری رکھنے پر  سالوں سے محو خواب PKK  نے ایک عجیب و غریب شکل میں دوبارہ سے شہریوں، پولیس اور فوجیوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا۔اس کے بعد خانہ جنگی کی کوشش اور آخر میں ایک بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم فیتو کے رکن فوجی اہکاروں کی مدد سے حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کی۔

ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان اور عوام نے 15 جولائی کے  اس حملے کے سامنے مزاحمت کا مظاہرہ کیا اور کامیابی حاصل کیا۔ترکی نے ایک طرف القائدہ کی طرز پر قائم اس دہشت گرد تنظیم فیتو کے اراکین سے حکومتی اداروں کو صاف کرنا اور دوسری طرف روس کے ساتھ جاری سرد تعلقات کو معمول پر لانا شروع کر دیا۔

صدر رجب طیب ایردوان نے 9 اگست کو روس کا دورہ کیا اور سینٹ پیٹرزبرگ میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن کے ساتھ ملاقات کی۔اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان سالانہ 35 بلین ڈالر کے تجارتی حجم کو 100 بلین ڈالر تک پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہی  نہیں بلکہ جوہری پاور پلانٹ سمیت  روسی گیس کو محفوظ شکل میں یورپی منڈیوں تک پہنچانے کے پروجیکٹ کو بھی عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا گیا۔

صدر ایردوان یہیں تک ہی نہیں رہے بلکہ دہشت گردی اور سکیورٹی کے موضوعات پر روس کے ساتھ اسٹریٹجک تعاون پر فوری نظر ثانی کا مطالبہ  بھی کیا۔ روسی صدر  پوٹن  نے ان مطالبات کو ایسے قبول کیا کہ جیسے وہ پہلے سے ہی اس کے لئے تیار تھے۔

ایردوان۔پوٹن کے مذاکرات میں خاص طور پر شام میں داخلی امن  کے حوالے سے سنجیدہ سطح پر امیدیں پیدا ہوئیں لیکن اس کے باوجود یورپی یونین کے رکن ممالک سمیت مغربی دنیا  نے خوشی محسوس کرنے کی بجائے  تحفظات کا اظہار کیا۔ اس کے باوجود کہ یورپ اور مغربی ممالک کو بھی دہشت گردی کا اسی قدر خطرہ ہے جس قدر کہ ترکی اور روس کو ہے۔ اور اس خطرے کو شام میں قیام امن کے بغیر برطرف نہیں کیا جا سکتا۔ اب ساری دنیا یہ  بات جانتی ہے کہ دنیا کے دہشت گردی کے جس ماخذ سے خطرہ ہے وہ شام کی صورتحال ہے۔

بلاشبہ ترکی اور روس  کا شام میں ایک مشترکہ پالیسی پر عمل کرنا داعش اور PYD سمیت دیگر مسلح دہشتگرد تنظیموں کے بھی خطرے کو کم کرے گا۔ دہشت گردی کم ہونے سے یورپ کو زیادہ سستی انرجی مل سکے گی اور یہ چیز یورپی صارفین سمیت حکومتی بجٹ  میں بھی اہم کردار ادا کرے گی۔



متعللقہ خبریں