بغاوت  کا اقدام: ایک تجزئیہ

دنیا کی تاریخ میں شائد پہلی دفعہ کسی ملت نے ہردینی وسیاسی  نقطہ نظر  کے حامل اور ہر سماجی طبقے سے منسلک افراد کے ساتھ  حکومت پر قبضے کے خواہش مندوں   کو شکست دی ہے

534506
بغاوت  کا اقدام: ایک تجزئیہ

بغاوت  کا اقدام: ایک تجزئیہ

دنیا کی تاریخ میں شائد پہلی دفعہ کسی ملت نے ہردینی وسیاسی  نقطہ نظر  کے حامل اور ہر سماجی طبقے سے منسلک افراد کے ساتھ  حکومت پر قبضے کے خواہش مندوں   کو شکست دی ہے۔

حکومت کے دئیے ہوئے ٹینکوں اور بندوقوں کو شہریوں پر تاننے  اور حکومت کے جنگی طیاروں کے ساتھ شہریوں پر بمباری کرنے والے فوجی یونیفارم میں ملبوس غداروں  نے اپنے مقابل شہریوں کو پایا۔

15 جولائی کی رات ترک ملت نے ایک داستان رقم کی اور دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ "آپ میرے وطن کو، میرے پرچم کو، ووٹ دے کر منتخب کئے گئے صدر کو ، میری  اسمبلی  اور میرے منتخب کردہ اسمبلی اراکین کو ، میرے ملّی اتحاد و اخوّت کو ، دینی عقیدے کواور  طرز حیات کو ہاتھ نہیں لگا سکتے، چھُو نہیں سکتے۔"۔

اس کی خاطر جانیں قربان کرنے والی 208  وطن کی اولادوں کو اللہ اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے اور ان  کے خون کو  رائیگاں نہ جانے دے۔

اہانت  کرنے والا نیٹ ورک اصل میں  16 جولائی کی صبح  کے وقت اپنے منصوبے  پر عمل کرنے کا پروگرام رکھتا تھا لیکن اس کی مخبری ہونے  پر اگر غدار 15 جولائی کوشام کے وقت اپنی کاروائی   نہ کرتے تو  ترک ملت کے سر پر بہت بڑی تباہی آ جانا تھی۔

اس غدارانہ منصوبے کی پہلے سے خبر پانے کے بعد  جب صدر رجب طیب ایردوان نے ٹیلی ویژن کے وسیلے سے بذات خود شہریوں کو  آگاہ کیا تو کھیل اس وقت سامنے آگیا۔

صدر رجب طیب ایردوان اور وزیر اعظم بن علی یلدرم کی اپیل پر ملک کے چاروں طرف سے عوام گلیوں میں نکل آئے  اور قبضے کی کوشش کرنے والوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔

بغاوت کے اوّلین آثار 15 جولائی کی شام کو انقرہ  جنرل اسٹاف   کی ہلچل سے سامنے آئے۔

انقرہ کی فضاوں میں کئی گھنٹے تک جیٹ طیاروں نے نیچی پروازیں کیں۔

طیاروں اور فوجی ہیلی کاپٹروں سے متعدد حساس عمارتوں پر فائرنگ کی گئی، بعض جگہوں پر بم گرائے گئے اور عوام پر ٹینکوں سے چڑھائی کی گئی۔

ترکی کی قومی اسمبلی، جنرل اسٹاف ہیڈ کوارٹر، خفیہ ایجنسی ، انقرہ پولیس ڈائریکٹریٹ اور اسپیشل فورس کے ہیڈ کوارٹر پر کئی گھنٹوں تک فائرنگ کی گئی۔

مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی آقار کو غداروں کے ایک گروپ نے یرغمال بنا لیا۔

نام نہاد "مارشل لاء کے فیصلے کے متن" پر دستخط کرنے سے انکار کرنے پر جنرل حلوصی آقار کے گلے میں بیلٹ ڈال کر تشدد کیا گیا۔ اس دوران یہ متن  ترک مسلح افواج کی سرکاری انٹر نیٹ سائٹ سے شائع ہو گیا۔

متن میں کہا گیا تھا کہ فوج نے ملکی انتظامیہ پر قبضہ کر لیا ہے۔

اس وقت فوجیوں کے ایک گروپ نے  استنبول میں باسفورس  پل، فاتح سلطان مہمت پُل اور اتاترک ائیرپورٹ کو  داخلے کے لئے بند کر دیا۔

اسی دوران ہمارے نشریاتی ادارے ٹی آرٹی  پر بھی نام نہاد فوجیوں کے ایک گروپ نے قبضہ کر لیا۔

غداروں نے ٹی آر ٹی میں دہشت پھیلا کر ڈیوٹی پر موجود اہلکاروں کو دھمکیاں دیں۔

مارشل لاء کا جعلی اعلامیہ زبردستی براہ راست نشریات میں پڑھوایا گیا۔

تاہم  ملک بھر سے ہزاروں شہری ہاتھوں میں ترک پرچم لئے سڑکوں پر نکل آئے اور قابضوں کے خلاف ردعمل کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیا۔

حقیقی کمانڈروں نے قبضے کی کوشش میں ملوث غداروں سے بیروکوں میں واپس لوٹنے کی اپیل کی۔

قوم کے بھی تعاون سے ٹی آر ٹی میں داخل ہونے والے غدار وں میں سے کسی کو حراست میں لے لیا گیا اور کوئی پیچھے دیکھے بغیر بھاگ کھڑا ہوا اور ایک مختصر وقت میں ٹی آرٹی معمول کی نشریات دینے لگا۔

خفیہ ایجنسی نے بھی مختصر وقت کے بعد قبضے کی کوشش کو رفع کئے جانے کا اعلان کیا۔

مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی آقار کی طرف سے کوئی خبر موصول نہیں ہوئی  بعد ازاں انہیں ایک آپریشن کر کے بچایا گیا۔

اس دوران قبضے کی کوشش میں ملوّث فوجیوں کی طرف سے مسلح افواج کے سربراہ جنرل حلوصی آقار  کے میسج سسٹم سے یونٹوں  کو مارشل لاء کا پیغام بھیجے جانے کی بات منظر عام پر آئی۔

یہ پیغام 3 صفحات ا ور 20 شقوں پر مبنی تھا۔

اس پیغام کے مطابق شام 3 بجے حکومت پر قبضہ کیا جانا اور 6 بجے کرفیو نافذ کیا جانا تھا۔

ترک مسلح افواج کو بھیجے جانے والے  اس مارشل لاء متن پر "وطن میں امن "جتھے کے لیڈر بریگیڈئیر مہمت پارٹی کوچ اور سٹاف  کرنل جمیل تُرحان نے دستخط کئے۔

اعلامیے کے ضمیمہ میں مارشل لاء کمانڈروں کو مارشل لاء عدالتوں میں متعین کرنے  اور دیگر تعیناتیوں  کے بارے میں فیصلوں کو جگہ دی گئی ہے۔

یہاں جو بات سوچنے کی ہے وہ یہ کہ حکومت پر قبضے کے پلان کو 15 جولائی پر کیوں منتقل کیا گیا ۔

اصل میں یہ خفیہ  پلان ایک محب وطن فوجی کے پولیس کو فون کر کے "فوجی صبح کے قریب بیرکوں سے نکلیں گے اور قبضے کے لئے قتل عام کیا جائے گا" کے الفاظ سے کی گئی مخبری سے خراب ہو گیا۔

پلان  کی پہلے سے ہوا نکلنے پر فتح اللہ دہشت گرد تنظیم FETO نے پلان کو وقت سے پہلے عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا۔

توقع سے 8 گھنٹے پہلے شروع کئے جانے والے اس باغیانہ حملے کو فرسٹ آرمی کمانڈ  کی تدابیر ، صدر رجب طیب ایردوان  کے عزم  اور ملت کے جمہوریت کے تحفظ کے لئے پہرے کی طفیل ناکام بنا دیا گیا۔

اسپیشل فورس کمانڈ  پر قبضے کی کوشش کرنے والے بریگیڈئیر سمیح تیرزی  کو یہاں کے  کمیشنڈ آفیسر کی طرف سے پیشانی میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔

اس کمیشنڈ آفیسر کو بعد ازاں بریگیڈئیر تیرزی کے ساتھیوں نے شہید کر دیا۔

اسپیشل فورسز کمانڈ  کو قبضے میں لینے کی کوشش کے دوران حراست میں لئے جانے والے فوجیوں  کو بیان لینے کے بعد گرفتار کر لیا گیا۔ ان فوجیوں نے صدارتی حفاظتی دستے میں موجودگی کے دوران انہیں مسلح کئے جانے کا اعتراف کیا۔

گرفتار کئے جانے والے فوجیوں نے اپنے بیان میں کہا کہ 15 جولائی کو فوجی مشقوں  کی وجہ سے انہیں صدارتی محافظ دستے  میں لایا گیا۔ یہاں فوجیوں میں کیمو فلاج، اسلحہ اور ایمونیشن تقسیم کیا گیا۔

ترک مسلح افواج  کے اندر FETO کے اراکین غدار گروپ  کی طرف سے شروع کی گئی قبضے کی کوشش پر عوام کے تعاون سے تقریباً  22 گھنٹے میں قابو پا لیا گیا۔

اور پیچھے جو دو حتمی نتیجے  باقی بچے ہیں ان میں سے 

پہلا ، عوام کا اپنے مینڈیٹ کو  گروی رکھنے کی ہرگز اجازت نہ دینا۔

دوسرا ، شہریوں اور قومی اسمبلی پر بمباری کرنے والے کا نام ہرگز ترک فوجی نہیں ہو گا۔



متعللقہ خبریں