ترکی کے دریچے سے مشرق وسطی ۔ 28
ترکی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی کے مسئلہ فسلطین پر ممکنہ اثرات اور اسرائیل ۔ فلسطین تنازعے کا تناظر
![ترکی کے دریچے سے مشرق وسطی ۔ 28](http://cdn.trt.net.tr/images/xlarge/rectangle/e710/2ba7/6d0b/56bdf7248c59d.jpg?time=1719061978)
گزشتہ دنوں ترکی اور اسرائیل نے مصالحت قائم کرتے ہوئے چھ برسوں سے جاری تنازعات کو رفع دفع کیا ہے۔ اس معاہدے نے غزہ کی پٹی پر مقیم فلسطینیوں کے لیے بھی بعض خوش آئند نتائج پیدا کیے ہیں۔ اب غزہ کو بعض مشکلات کے جاری رہنے کے ساتھ ساتھ ترکی سے کہیں زیادہ انسانی امداد بھیجی جا سکے گی۔ تا ہم یہ معاہدہ زیادہ تر ترکی ۔ اسرائیل تعلقات کے حوالے سے اہمیت کا حامل ہے۔ لہذا بنیادی طور پر یہ مسئلہ فلسطین کے حل سے متعلق معاہدے کی ماہیت نہیں رکھتا۔ ویسے بھی یہ مسئلہ مذکورہ سمجھوتے کے دائرے میں نہ سما سکنے کی حد تک پیچیدہ ہے۔ اس اعتبار سے غزہ اور دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسرائیل کا قبضہ ہونے والی 1967 کی فلسطین۔ اسرائیل جنگ کی 49 ویں برسی کے موقع کے حوالے سے فلسطین کے حقائق پر روشنی ڈالنا سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔
مشرقی القدس سمیت مذکورہ دونوں علاقے سن 1967 سے اسرائیل کی زیرِ نگرانی ہیں۔ اس سر زمین پر اسرائیل کا قبضہ ہونے کے بعد تین لاکھ کے قریب فلسطینیوں کو اپنا گھر بار ترک کرنے پر مجبور کیا گیا جن کی ایک بڑی تعداد بعد میں واپس نہ لوٹ سکی۔ اسی برس اسرائیل نے بعض فلسطینی رہائشی مقامات کو خالی کراتے ہوئے منہدم کردیا۔ مسمار کیے جانے والے مکانات کی جگہ پر مغربی دیوار پلازا تعمیر کیا گیا۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر پہلی غیر قانونی رہائشی بستی لیبر پارٹی کی حکومت کی حمایت سے ستمبر سن 1967 میں تعمیر کی گئی۔ یہ اور اس کے بعد تعمیر کردہ اور سن 1949 میں وضع کردہ سرحدوں سے باہر کے رہائشی مقامات بین الاقوامی قوانین کے منافی اور چوتھے جنیوا سمجھوتے کی خلاف ورزی کا مفہوم رکھتے ہیں۔ ایک خفیہ یادداشت کی مفاہمت میں اسرائیلی حکومت کی قانونی مشاورت کو بھی غیر قانونی قبول کیا جاتا ہے۔
سن 1974 تا 1975 اسرائیل نے مشرقی القدس میں دریائے اردن کے مغربی کنارے پر اسوقت وسیع ترین رہائشی مقام کے حامل معالے ادومین کی نشاط کی۔ مذکورہ علاقوں میں حکومت کی منظوری حاصل ہونے والی 125 عدد کالونیوں کا وجود ملتا ہے، جبکہ غیر منظور شدہ کالونیوں کی تعداد ایک سو کے لگ بھگ ہے۔ ان کالونیوں میں تقریباً 6 لاکھ یہودی غیر قانونی طور پر آباد ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ دس برسوں میں ان مکینوں کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ پر تشدد موقف اپنانے کی تعداد 2600 ہے۔
1980 کی دہائی کے وسط تک دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قابل ِ کاشت رقبے میں چالیس فیصد تک گراوٹ آئی ہے۔ سن 1991 سے لیکر ابتک اسرائیل نے مقّبوضہ علاقوں میں مقیم فلسطینیوں کے فلسطین میں داخلے کو خصوصی اجازت نامے سے منسلک کر رکھا ہے۔
دریائے اردن کے مغربی کنارے پر فلسطینیوں کی نقل و حمل پر حد بندی لانے والی 500 سے زائد چیک پوسٹیں یا پھر کمیتی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اسرائیل نے اسی مقام پر سن 2003 میں علیحدگی دیوار تعمیر کی تھی۔ سن 2004 میں بین الاقوامی عدالت نے اس دیوار کے عالمی قوانین کے منافی ہونے پر مشاورتی نطریے کو پیش کیا تھا۔ غزہ کی پٹی پر 19 لاکھ فلسطینی آباد ہیں جن کا 70 فیصد اقوام متحدہ میں ریکارڈ موجود ہونے والے مہاجرین اور سن 1948 کی جنگ میں اپنی سر زمین سے بدر کیے جانے والے فلسطینی شہریوں پر مشتمل ہے۔ سن 2005 میں غزہ میں چیک پوسٹوں اور مزید رہاِشی بستیاں آباد کرنے کے عمل درآمد کو ختم کر دیا گیا تو علاقے پر عملی طور پر قبضہ تا حال جاری ہے۔
سن 1967 میں اسرائیل نے یوروشلم کی سرحدوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا اور اسی برس لڑی گئی جنگ کے بعد زیر نگرانی لیے جانے والے علاقے کے ایک حصے کو اس شہر سے وابستہ کر دیا گیا۔ یہ چیز کھلم کھلا سرزمین کے الحاق کا مفہوم رکھتا ہے جس کی عالمی برادری نے بھی مخالفت کر رکھی ہے۔ اس علاقے کو زبردستی فلسطینیوں سے خالی کراتے ہوئے اس پر 47 ہزار افراد کی حامل کالونی تعمیر کر دی گئی۔ یوروشلم میں مقیم فلسطینیوں کی اکثریت شہریت کے بنیادی حق سے محروم ہے اور انہیں محض بعض شرائط پر پورا اُترنے کے بعد ہی انہیں اقامت نامہ دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکام گاہے بگاہے شرائط پر پورا نہ اُترنے کا دعوی کرتے ہوئے ان اجازے ناموں کو منسوخ کر دیتے ہیں۔
علاوہ ازیں یہ فلسطینیوں کے خلاف تفریق بازی سے بھی کام لیتے ہیں۔ 1967 کی جنگ کے بعد نگرانی میں لیے جانے والے مقامات پر اسرائیل دہری عدالتوں کے نظام پر عمل کیا جاتا ہے ۔ساڑھے چار ملین فلسطینیوں کےمقدمات کی فوجی عدالتوں میں پیروی کی جاتی ہے۔ فوجی عدالتوں نے 99٫74 فیصد مقدمات میں مدعا علیہ کو قصور وار ٹہرایا ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیلی حکام کو اس علاقے سے حراست میں لیے جانے والے فلسطینیوں کو بلا کسی فردِ جرم یا پھر عدالت کے کٹہرے میں پیش کیے بغیر 6 ماہ تک قید میں رکھنے کا حق حاصل ہے۔ اس مدت کے اختتام پر اس میں مزید 6 ماہ کی توسیع بھی ممکن بن سکتی ہے۔ اسوقت اسرائیل کی قید میں ہونے والے 7 ہزار فلسطینی قیدیوں میں سے 715 اسی عمل درآمد کے ساتھ جیلوں میں بند ہیں۔
سن 1967 سے یہودی عہدیدار اجتماعی سزا کے طور پر فلسطینیوں کے سینکڑوں مکانات کو مسمار کر تے چلے آئے ہیں۔ ان کے اکثر مکانات کو بلا اجازت ہونے کے جواز میں منہدم کر دیا گیا۔ دوسری جانب مکانات کی تعمیر کی درخواستیں دینے والے فلسطینیوں کی 95 فیصد درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ رواں سال کے پہلے 5 ماہ میں مکانات مسمار کیے جانے والے فلسطینیوں کی تعداد 625 ہے۔ پہلی بغاوت کے دوران 20 بچوں سمیت ایک ہزار سے زائد فلسطینی ہلاک ہو گئے تھے۔ جبکہ 2006 تا 2014 میں ہونے والے حملوں میں ایک ہزار 97 بچے ہلاک ہو گئے۔
نوے کی دہائی کے وسط میں طے پانے والے اوسلو معاہدے کے نتیجے میں فلسطینی انتظامیہ کا قیام عمل میں آیا۔ یہ انتظامیہ سن 1967 کے بعد اسرائیلی نگرانی میں ہونے والے فلسطینی رہائشی مقامات کے ایک حصے میں بعض معاملات پر فلسطینی شہریوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔ اس معاہدے کی رو سے اسرائیل کی زیر نگرانی علاقوں کو اے بی اور سی زونز میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اے اور بی زون ساتھ ساتھ واقع نہیں ہیں ۔ یہ 227 علیحدہ کالونیوں پر مشتمل ہیں جن پر فلسطینی انتظامیہ کے اختیارات میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ تا ہم دریائے اردن کے مغربی کنارے کا 60 فیصد رقبہ سول اور فوجی اعتبار سے حکومت ِ اسرائیل کی نگرانی میں ہے۔
انسانی حقوق کی کمیٹی کی طرح کی تنظیموں اور اقوام متحدہ کی بعض کمیٹیوں نے اسرائیل کے فلسطینی عوام پر عمل درآمد اور پالیسیوں کو اخلاقی اور قومی اعتبار سے تفریق بازی کے طور پر بیان کیا ہے۔
مختصراً قدرے پیچیدہ مسئلہ فلسطین کا حل عالمی برادری کے اس معاملے کو سنجیدہ لینے اور قانونی میکانزم کو پُر عزم طریقے سے نافذ العمل کیے جانے کے ساتھ ہی ممکن بن سکتا ہے۔