ترکی کے دریچے سے مشرق وسطی ۔ 28

ترکی اور اسرائیل کے باہمی تعلقات کی بحالی کے مسئلہ فسلطین پر ممکنہ اثرات اور اسرائیل ۔ فلسطین تنازعے کا تناظر

528721
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطی ۔ 28

 گزشتہ  دنوں ترکی اور اسرائیل نے     مصالحت قائم کرتے ہوئے     چھ برسوں سے  جاری  تنازعات کو رفع دفع کیا ہے۔  اس معاہدے نے    غزہ  کی  پٹی پر مقیم    فلسطینیوں کے   لیے بھی   بعض خوش آئند نتائج پیدا کیے ہیں۔ اب  غزہ کو بعض  مشکلات   کے  جاری رہنے کے  ساتھ ساتھ  ترکی سے کہیں  زیادہ انسانی امداد   بھیجی جا سکے گی۔  تا ہم  یہ معاہدہ    زیادہ تر ترکی ۔ اسرائیل   تعلقات  کے  حوالے سے  اہمیت    کا حامل  ہے۔ لہذا  بنیادی طور پر    یہ  مسئلہ فلسطین  کے حل سے متعلق  معاہدے کی ماہیت نہیں  رکھتا۔   ویسے بھی یہ مسئلہ      مذکورہ    سمجھوتے   کے دائرے    میں     نہ سما سکنے کی حد تک   پیچیدہ ہے۔  اس  اعتبار  سے  غزہ اور دریائے  اردن کے مغربی کنارے   پر   اسرائیل کا قبضہ ہونے والی 1967 کی فلسطین۔  اسرائیل جنگ    کی   49 ویں  برسی کے موقع  کے حوالے سے  فلسطین کے حقائق  پر روشنی ڈالنا         سود مند   ثابت ہو سکتا ہے۔

مشرقی القدس     سمیت       مذکورہ    دونوں  علاقے    سن 1967 سے اسرائیل کی زیرِ نگرانی ہیں۔  اس سر زمین پر اسرائیل کا قبضہ ہونے    کے   بعد     تین لاکھ  کے قریب  فلسطینیوں کو اپنا گھر   بار ترک کرنے  پر   مجبور کیا گیا جن کی ایک بڑی تعداد  بعد میں   واپس  نہ لوٹ سکی۔  اسی  برس    اسرائیل نے      بعض  فلسطینی   رہائشی مقامات  کو     خالی کراتے ہوئے   منہدم     کردیا۔  مسمار کیے جانے والے مکانات کی جگہ پر   مغربی  دیوار  پلازا  تعمیر  کیا گیا۔    دریائے اردن کے مغربی کنارے     پر پہلی غیر قانونی رہائشی بستی   لیبر پارٹی  کی حکومت کی حمایت سے  ستمبر سن 1967  میں  تعمیر کی گئی۔  یہ اور  اس کے بعد   تعمیر کردہ  اور سن 1949  میں وضع کردہ سرحدوں سے  باہر  کے رہائشی مقامات    بین الاقوامی قوانین کے منافی اور      چوتھے   جنیوا   سمجھوتے کی خلاف ورزی کا مفہوم  رکھتے ہیں۔    ایک  خفیہ    یادداشت کی مفاہمت میں  اسرائیلی  حکومت    کی قانونی مشاورت کو   بھی  غیر قانونی    قبول  کیا جاتا ہے۔

سن 1974  تا 1975     اسرائیل نے   مشرقی القدس میں  دریائے اردن کے مغربی کنارے   پر    اسوقت  وسیع ترین رہائشی مقام کے حامل    معالے ادومین کی نشاط کی۔     مذکورہ علاقوں میں حکومت کی منظوری   حاصل ہونے والی  125   عدد کالونیوں کا وجود ملتا ہے، جبکہ  غیر منظور   شدہ  کالونیوں کی تعداد  ایک سو   کے  لگ بھگ  ہے۔   ان   کالونیوں میں      تقریباً 6 لاکھ   یہودی غیر قانونی طور پر   آباد ہیں۔    اقوام    متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق      حالیہ دس برسوں میں    ان مکینوں کی جانب سے     فلسطینیوں کے ساتھ   پر تشدد    موقف اپنانے کی تعداد    2600  ہے۔

 1980 کی دہائی کے وسط تک   دریائے اردن کے   مغربی کنارے پر    قابل  ِ  کاشت      رقبے  میں   چالیس فیصد  تک  گراوٹ آئی ہے۔ سن   1991   سے لیکر   ابتک   اسرائیل  نے  مقّبوضہ   علاقوں میں  مقیم  فلسطینیوں کے فلسطین  میں داخلے کو خصوصی اجازت  نامے سے   منسلک کر رکھا ہے۔  

دریائے اردن کے مغربی کنارے    پر   فلسطینیوں کی نقل و حمل  پر حد بندی لانے والی   500 سے زائد    چیک پوسٹیں  یا پھر      کمیتی رکاوٹیں موجود ہیں۔    اسرائیل  نے اسی مقام پر سن  2003 میں  علیحدگی دیوار  تعمیر کی تھی۔  سن 2004 میں بین الاقوامی    عدالت نے    اس دیوار کے  عالمی  قوانین کے منافی ہونے پر    مشاورتی نطریے کو  پیش  کیا تھا۔ غزہ کی پٹی پر   19 لاکھ فلسطینی  آباد ہیں جن کا  70 فیصد  اقوام متحدہ  میں  ریکارڈ    موجود ہونے والے  مہاجرین اور سن 1948 کی جنگ میں  اپنی سر زمین  سے بدر کیے جانے والے فلسطینی    شہریوں پر مشتمل ہے۔   سن 2005 میں   غزہ  میں    چیک پوسٹوں اور   مزید  رہاِشی بستیاں آباد  کرنے کے عمل درآمد  کو ختم کر دیا گیا تو  علاقے پر عملی   طور پر  قبضہ تا حال  جاری ہے۔ 

سن 1967 میں  اسرائیل   نے  یوروشلم  کی سرحدوں کو وسعت دینے کا اعلان کیا اور اسی برس لڑی گئی  جنگ کے بعد زیر   نگرانی لیے جانے والے علاقے کے ایک حصے کو       اس شہر  سے وابستہ کر دیا گیا۔ یہ چیز کھلم کھلا  سرزمین کے الحاق کا مفہوم رکھتا ہے  جس کی عالمی  برادری نے   بھی مخالفت کر رکھی ہے۔   اس علاقے  کو زبردستی   فلسطینیوں سے خالی کراتے ہوئے اس پر    47 ہزار   افراد  کی حامل کالونی   تعمیر کر دی گئی۔  یوروشلم میں مقیم فلسطینیوں کی اکثریت شہریت  کے بنیادی حق  سے محروم ہے اور انہیں   محض   بعض   شرائط پر پورا اُترنے  کے بعد ہی   انہیں اقامت نامہ  دیا جاتا ہے۔ جبکہ اسرائیلی حکام    گاہے بگاہے        شرائط پر پورا  نہ اُترنے کا دعوی کرتے ہوئے  ان اجازے ناموں کو  منسوخ کر دیتے ہیں۔

علاوہ ازیں    یہ   فلسطینیوں  کے خلاف تفریق  بازی سے بھی کام لیتے ہیں۔  1967 کی جنگ کے  بعد نگرانی    میں  لیے  جانے والے مقامات  پر اسرائیل  دہری عدالتوں کے  نظام پر  عمل کیا  جاتا ہے ۔ساڑھے چار ملین    فلسطینیوں کےمقدمات کی فوجی عدالتوں میں پیروی کی جاتی ہے۔  فوجی عدالتوں     نے  99٫74 فیصد   مقدمات میں    مدعا علیہ  کو   قصور  وار ٹہرایا ہے۔  واضح  رہے کہ  اسرائیلی  حکام کو  اس علاقے  سے    حراست  میں لیے جانے والے  فلسطینیوں کو    بلا کسی   فردِ  جرم   یا پھر   عدالت کے  کٹہرے میں پیش کیے بغیر  6 ماہ تک  قید میں  رکھنے  کا حق  حاصل  ہے۔  اس مدت کے اختتام  پر   اس میں مزید  6 ماہ کی  توسیع   بھی ممکن  بن سکتی ہے۔  اسوقت   اسرائیل کی  قید میں ہونے والے  7 ہزار    فلسطینی قیدیوں  میں  سے 715 اسی   عمل درآمد کے ساتھ   جیلوں میں بند ہیں۔

سن 1967 سے    یہودی     عہدیدار   اجتماعی   سزا  کے طور پر    فلسطینیوں کے  سینکڑوں  مکانات کو مسمار کر   تے  چلے آئے  ہیں۔ ان کے اکثر مکانات کو    بلا  اجازت  ہونے  کے جواز  میں   منہدم    کر دیا گیا۔  دوسری جانب  مکانات کی تعمیر کی درخواستیں   دینے    والے   فلسطینیوں کی 95 فیصد   درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔ رواں سال کے پہلے 5 ماہ میں   مکانات  مسمار کیے جانے والے   فلسطینیوں کی تعداد  625 ہے۔  پہلی  بغاوت       کے دوران 20  بچوں  سمیت   ایک ہزار سے  زائد  فلسطینی  ہلاک ہو گئے تھے۔  جبکہ   2006 تا 2014        میں ہونے والے حملوں  میں  ایک ہزار  97  بچے   ہلاک ہو گئے۔

نوے کی دہائی  کے وسط میں     طے پانے والے اوسلو معاہدے  کے نتیجے میں  فلسطینی  انتظامیہ کا قیام  عمل میں آیا۔  یہ انتظامیہ سن  1967  کے بعد   اسرائیلی نگرانی  میں   ہونے والے   فلسطینی  رہائشی مقامات      کے ایک   حصے میں     بعض معاملات پر فلسطینی  شہریوں کو خدمات فراہم کرتی ہے۔   اس معاہدے کی رو سے   اسرائیل کی  زیر نگرانی      علاقوں کو اے بی اور سی   زونز میں  تقسیم کیا گیا ہے۔   اے اور بی زون  ساتھ ساتھ واقع نہیں ہیں ۔ یہ  227 علیحدہ   کالونیوں  پر مشتمل ہیں جن پر  فلسطینی انتظامیہ کے اختیارات  میں   بھی  فرق پایا جاتا ہے۔ تا ہم  دریائے اردن کے مغربی کنارے کا     60 فیصد  رقبہ    سول اور فوجی  اعتبار سے    حکومت ِ اسرائیل کی نگرانی   میں  ہے۔

انسانی حقوق کی کمیٹی کی   طرح کی   تنظیموں  اور   اقوام متحدہ کی بعض کمیٹیوں  نے  اسرائیل کے   فلسطینی عوام پر   عمل درآمد اور پالیسیوں کو اخلاقی اور  قومی      اعتبار سے   تفریق بازی  کے طور پر بیان کیا ہے۔

مختصراً   قدرے پیچیدہ    مسئلہ  فلسطین   کا حل      عالمی  برادری  کے  اس  معاملے کو سنجیدہ    لینے اور قانونی میکانزم کو پُر عزم طریقے سے       نافذ  العمل کیے  جانے کے ساتھ ہی ممکن بن سکتا ہے۔



متعللقہ خبریں