ترکی کے روس اور اسرائیل سے تعلقات کا ایک نیا دور: کلیدی عناصر

اس نئے دور سے فلسطین ، شام کے مسئلے اور داعش سمیت پی کےکے کے خلاف جنگ میں روس کی معاونت بھی حاصل رہے گی

522803
ترکی کے روس اور اسرائیل سے تعلقات کا ایک  نیا  دور: کلیدی عناصر

   رواں ہفتے کے دوران   ترکی نے اسرائیل اور روس سے اپنے تعلقات کو  دوبارہ سے فروغ دینے  کی  کامیاب کوششیں   کیں   جس سے خطے میں  امن و امان اور استحکام    کا بول بالا ہوگا۔

  ترکی نے  ان تعلقات کو بہتر بنانے  میں  اہم قدم اٹھایا ہے  جس سے ترکی کی  خارجہ پالیسی ، علاقائی امن اور استحکام  پر مثبت اثر پڑے گا جبکہ امید ہے کہ  اس نئے دور سے  فلسطین  ، شام کے مسئلے اور داعش سمیت پی کےکے کے خلاف  جنگ میں روس  کی معاونت بھی حاصل رہے گی ۔

 جہاں تک  اسرائیل     سے تعلقات کا سوال ہے  تو  یہ پیش رفت چھ سال قبل خراب ہونے والے روابط   کو بحال کرنے  کےلیے 29  جون   2016کو شروع  کی گئی۔ ایک معاہدہ طے کیا گیا  جس  کی دوسری اور تیسری  شرط ترکی کے حق میں تھی  ۔   ان شرائط میں بلیو مارمرہ   پر  جارحیت کے نتیجے میں   مقتولین  کے  ورثا٫ کو ہرجانے کی ادائیگی  اور غزہ کا محاصرہ ختم   کرنا   شامل تھا۔ یہاں یہ باورر ہے کہ سن 2013 میں  صیہونی وزیراعظم بن یامین نیتین یاہو نے  صدر امریکہ اوباما  سے کی گئی ٹیلیفون گفتگو کے دوران  صدر ایردوان  سے   معذرت کا بھی ذکر کیا تھا۔

 تعلقات کی بحالی   کا یہ معاہدہ  خطے میں موجود دونوں ممالک    کےلیے ایک نئے دور کا آغاز ثابت ہوسکتا ہے  جس میں ترک ۔اسرائیل تعلقات اور غزہ کی صورت حال  کو  فوقیت  حاصل رہے گی ۔ طرفین،  سفیروں کی دوبارہ  تقرری  اور تجارتی  و سیاحتی شعبوں کی بحالی پر متفق ہو گئے ہیں لہذا امید ہے کہ مستقبل میں  یہ  تعلقات بعض نئی سرگرمیوں اور مثبت حوادث  کو بھی   جنم دیں گے۔

البتہ یہاں یہ بات اہم ہے  کہ  اس معاہدے کے نتیجے میں   ترکی، انسانی ہمدردری کی بنیاد پر غزہ کےلیے امدادی سامان  روانہ کر سکے گا  جس کی تازہ مثال  حال ہی میں  ترک بندر گاہ  مرسین سے اسرائیلی  ساحلی شہر اشدود کےلیے  رخت سفر باندھنے والے   "لیڈی لیلی" نامی بحری جہاز  کی صورت میں موجود ہے  جس پر  غزہ کےلیے امدادی سامان لدا ہے۔

  علاوہ ازیں  اسرائیل کی طرف سے  اس معاہدے میں  یہ شرط بھی قبول کی گئی ہے کہ وہ   عوام الغزہ  کے  معیار زندگی کو بہتر بنانے  میں    مدد کرے گا جس میں اُسے ترکی کا تعاون بھی حاصل ہوسکتا ہے۔ معاہدے کی روشنی میں اسرائیل    وقت ضائع  کیے بغیر  غزہ  کو  پانی اور بجلی کی  مناسب فراہمی ممکن بنائے گا  جس سے علاقے میں  زرعی اور شعبہ صحت  کی   ناقص صورت حال  دور کرنے میں  مدد ملے گی ۔ پانی اور بجلی کے شعبوں     کی مرمت   اور نقائص دور کرنے کےلیے     ایک   تکنیکی وفد  غزہ روانہ کیا جائے گا اس کے  علاوہ   ترکی،  غزہ میں جاری  تعمیراتی   منصوبوں  ،غزہ میں  قائم کیے جانے والے اسپتالوں  اورحملوں میں اپنے گھروں سے محروم  افراد کےلیے رہائشی  بستیوں   کی تعمیر جاری رکھےگا۔

قوی امکان ہے کہ انشااللہ  غزہ کے عوام اپنی  روزمرہ کی زندگی  کا معیار  اس معاہدے کی روشنی میں  بہتر بنا سکیں گے۔

یہ  خیال پایا جاتا ہے کہ  غزہ   کی عوام      اپنی روز مرہ کی زندگی میں   اس نئے  ترک ۔ اسرائیلی     معاہدے  کے ٹھوس نتائج  کا       مشاہدہ کریں  گے، ترکی اس   چیز کے   ہر ممکنہ تعاون  کے لیے تیار  اور      اسرائیلی   حکام    اس چیز کی اہمیت کا واضح  طور  پر مشاہدہ  کر لیں  گے۔

سیاسی  طور پر  ترکی،   فلسطینی عوام کے آزاد مملکت  کے  مالک بننے  کے حق     کےلیے اور  جنگوں، جھڑپوں،  مصائب اور   دردناک واقعات کی اہم ترین وجہ یعنی  قبضے کے     خاتمے    کی  کوششوں  میں  تعاون و حمایت کے عمل کو  جاری  رکھے گا۔  ترکی ، فلسطینی   گروہوں کے  ساتھ  رابطے  کو برقرار رکھنے اور دریائے اُردن کے مغربی کنارے         اور   غزہ    کے تمام  تر فلسطینیوں   کو  امدا د فراہم  کرتا رہے گا۔  اسرائیل  کے ساتھ  تعلقات کو معمول پر لاتے ہوئے    ترکی  نے سلسلہ   امن میں اپنی خدمات  کے مواقع میں بھی اضافہ کیا ہے  اور بلا وجہ کی کشیدگی  اور    ہلاکتوں کا بھی سد باب کر لیا گیا ہے۔  یہ صورتحال  القدس  میں واقع    مسجدِ اقصی   اور اس کے گرد ونواح کے علاقوں میں     کلیدی اہمیت کے حامل معاملات  پر بھی   لاگو ہوتی ہے۔

اس ہفتے کی   دوسری   بڑی خبر   روس کے  ساتھ  ہونے والی پیش  رفت پر مبنی ہے، یہ   پیش رفت کئی ایک طرفین کے لیے ایک   غیر متوقع      صورتحال کے مترادف  ہے تا ہم  دراصل روسی   طیارے کو  2015  کے ماہ نومبر میں  گرائے جانے کے بعد  پیدا ہونے والے بحران کو حل  کرنے  کے    زیر مقصد   کئی ماہ سے  کوششیں   جاری تھیں۔  اس کے لیے ایک    عقبی   دروازے  کی ماہیت کی ڈپلومیسی          کی گئی اور  صدر  ایردوان نے    اپنے روسی ہم منصب  ولا دیمر پوٹن  سے ٹیلی فون   پر   بات چیت کرتے ہوئے روسی پائلٹ  کی ہلاکت  پر اپنے گہرے افسوس   کا اظہار کرنے پر مبنی ایک  خط بھی بھیجا۔ ان دونوں سربراہان نے    خطے      کے دو کلیدی ملکوں کے  باہمی تعلقات  کومعمول پر لانے کے زیر مقصد   بہادرانہ اقدامات اٹھائے۔

روسی طیارے کو مار گرائے جانے کے بعد  ترکی   نے  تعمیری اور   مصالحتی    موقف کو اپنائے رکھا ۔صدر پوٹن  کی جانب سے ترکی پر  عائد کردہ اقتصادی   و ٹورزم  پابندیوں   کو  ہٹاتے ہوئے     ان اقدامات کا  سرعت سے جواب دیا گیا۔   یہ پیش  رفت دونوں ملکوں   کی عوام اور   کاروباری حلقوں  کے    لیے   ایک  پر مسرت        واقع ثابت ہوئی ہے۔

اقتصادیات سمیت ترک۔ روسی تعلقات  میں      کھولا گیا یہ نیا صفحہ   کلیدی اہمیت   کی حامل  شام جنگ   کے مستقبل کے  بارے  میں  اور دہشت گردی کے خلاف     جہدوجہد  کے معاملات  میں بھی  اہم ثابت ہو گا۔ 29 جون  کے  روز ہونے والی ٹیلی فون  گفتگو  میں صدر ایردوان اور  پوٹن     نے ان دونوں معاملات  پر کام کرنے پر اتفاق قائم کیا ہے تو  انہوں  نے    اپنی ٹیموں کو اس  معاملے کا  تعاقب کرنے کے فرائض  سونپے ہیں۔  یہ ایک   حد درجے اہم پیش رفت ہے۔    شام کی  ہر گزرتے دن مزید  بگڑنے والی  صورتحال        پر  اس نئے ماحول  کے مثبت نتائج پیدا ہو سکتے ہیں ۔

ترکی   کا  شام کی جنگ اور   بشارا لاسد   کے مستقبل کے   حوالے سے موقف عیاں اور واضح ہے۔   ترکی اور  روس کے   درمیان        منظر عام پرآنے والی یہ کوششیں    شام میں     حالات کو معمول پر لانے میں معاون ثابت ہو سکتی ہیں۔  یہ چیز  علاوہ ازیں    شامی سر زمین سے ترکی  کی سرحدوں   میں داخل ہونے والے   داعش کے عسکریت پسندوں  کے خلاف  مزید  موثر    جدوجہد کرنے  میں  معاون ثابت ہو  گی۔

استنبول کے اتاترک  ہوائی  اڈے پر    ہونے واہلے    دہشت گرد حملوں کا  اسرائیل اور روس کے  ساتھ طے پانے والے معاہدوں کے روز   وقوع پذیر ہونا  محض ایک  اتفاق  نہیں ہے۔   داعش   ان دونوں معاہدوں کے بر خلاف ہے اور یہ ترکی کو ایک  ایک سٹریٹیجک  ہدف کی نظر سے   دیکھتی  ہے۔  ترکی  اس دہشت گرد تنظیم کے  خلاف سخت  تدابیر اختیار کرنے اور اس ضمن میں اپنی کوششوں کو   امریکہ  اور روس   اور شاید  اسرائیل کے ساتھ  مل    جل کر جاری رکھے گا۔

ترکی   کے اسرائیل اور روس  کے ساتھ  تعلقات کو معمول پر لانے  کی کوشش ایک صحیح موقع پر  سامنے  آئی ہے اور دو طرفہ مفادات  و احترام  پر مبنی اصولوں ،  علاقائی تعاون  ، امن و سلامتی کے اصولوں پر وضع  کیا گیا ہے۔

مشرق وسطی     اور دنیا بھر کی منفی پیش  رفتوں    کا جائزہ لینے سے      سکھ کا سانس لینے کا موقع فراہم کرنے والا یہ اقدام    فوری طور    بعض معاملات کو  رفع دفع کرنے کے لیے    قطعی طور پر اہمیت کا حامل تھا۔

 

 

 

 



متعللقہ خبریں