ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 17

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 17

483444
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 17

ایران کے صدر   حسن روحانی  نے استنبول میں منعقد ہ تنظیم اسلامی کانفرنس   کے سربراہی اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے بعد وہ  انقرہ تشریف لے گئے ۔   ان کے تنظیم اسلامی کانفرنس کے اجلاس  کے بعد  انقرہ کا دورہ نہ کیے جانے کی  توقع  کی جا رہی تھی کیونکہ تنظیم اسلامی کانفرنس   کے حتمی اعلامیے میں  ایران کے بارے میں  منفی   بیان کو جگہ  دی گئی تھی لیکن ایرانی انتظامیہ نے اس کے باوجود   کانفرنس میں شرکت کر نے   اور انقرہ کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس دورے سے  ایران کو دہرا فائدہ حاصل ہونا تھا۔ ایک تو وہ حتمی اعلامیے میں اپنے اعتراض  کا حق استعمال کرتے ہوئے  حتمی اعلامیے میں   ایران سے متعلق منفی  بیان کو  نکال باہر کرسکتا تھے اور  دوسرا عالمِ اسلام میں  ایران سے متعلق منفی  امیج  کو دور کرسکتا تھے۔

حتمی اعلامیہ  ایران کی توقعات کے مطابق  جاری کیا گیا  اور ایران  پر براہ راست  اور حزب اللہ کی پشت پناہی کرنے  کی وجہ سے  مذمت کی گئی۔ اس اعلامیے کو حتمی شکل دینے میں سعودی عرب  نے بڑا اہم کردار ادا کیا  تھا۔ ایران کی اسد انتظامیہ کو دی جانے والی حمایت اور مدد    بھی  اس   فیصلے کی وجہ بنی۔   اس بات سے   سب لو گ واقف ہیں کہ شام کی جنگ میں ایران کی پشت  پناہ کی جانے والی حزب اللہ  بھی  شامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ شام میں ہونے والی تباہی اور   ہلاکتوں کے پیچھے ایران   کا ہاتھ ہونے پر یقین کیا جاتا ہے۔

اس سے قبل  اس قسم کی مذمتی اعلامیے کو تنظیم اسلامی کانفرنس میں کبھی بھی جگہ نہیں دی گئی ہے۔ شام کی جنگ کی وجہ سے علاقے میں سرد جنگ کی کیفیت   کو تنظیم اسلامی کانفرنس کے اعلامیے  میں  بیان کیا گیا تھا  اور یہ قدرتی بات ہے کہ ایران نے اس اعلامیے پر  اپنے شدید ردِ عمل کا اظہار بھی کیا ہے۔  

ایران  نے اس بارے میں  بڑا محتاط رویہ اختیار کر رکھا ہے اور اس نے اپنے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایران کے صدر حسن روحانی نے انقرہ میں اپنے مذاکرات جاری رکھے۔ ا یرانی  صدر حسن   روحانی نے اپنے دورہ ترکی کے دوران انقرہ میں صدر رجب طیب ایردوان سے ملاقات کی۔ صدر روحانی  جب  ایوانِ صدر پہنچے تو  صدر رجب طیب ایردوان کی طرف سے ایک سرکاری تقریب کے ساتھ خیر مقدم کیا گیا۔ دونوں سربراہان نے پہلے ون ٹو ون ملاقات کی اور اس کے بعد دونوں ممالک کے وفود کے درمیان مذاکرات ہوئے۔  بعد ازاں ایردوان اور روحانی کی صدارت میں ترکی ۔ ایران اعلی سطحی تعاون کونسل کا تیسرا اجلاس بھی منعقد ہوا۔ سن 2011 سے شام    کے مسئلے کے سر اٹھانے سے  ترکی اور ایران کے درمیان تعلقات  پر کوئی زیادہ اثرات مرتب نہیں ہوئے تھے ۔اس دوران صدر رجب  طیب ایردوان نے ایران کا دورہ بھی کیا تھا اور اس دورے پر خوشی کا اظہار کیا  گیاتھا۔ وزیراعظم احمد داؤد اولو بھی ایران کا دورہ کرچکے تھے لیکن اس دوران ترکی ایران اور روس  کے شام کے ساتھ گھٹ جوڑ کرنے کی وجہ سے  اپنی بے چینی  کا اظہار کیا تھا۔

روس کے شام کی جنگ میں فعال کردار ادا کرنے  اور پھر ایران سے مشورہ لیے بغیر  علاقے سے  اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرنے سے متعلق فیصلہ کرنے  سے   علاقے کی سیاست پر منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ اس دوران  پی وائی ڈی  کی وجہ سے ترکی اور متحدہ امریکہ کے تعلقات میں سرد مہری دیکھی گئی اور ترکی کی جانب سے شام کی جنگ میں  اس کے اتحادی ممالک کی طرف سے    کوئی زیادہ  اہمیت نہ دیے جانے اور ترکی کی  امداد نہ کیے جانے پر ترکی کئی بار  شکوے بھی کرچکا تھا۔

اس صورت حال  کی وجہ سے  علاقے کے دو اہم ممالک ترکی اور ایران  ایک بار  پھر سپر قوتوں کی  آپس میں  چپقلش کی وجہ سے   ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے۔  تاہم ایران  کے نکتہ نظر سے جب ہم دیکھتے ہیں تو  ہمیں  پتہ چلتا ہے  ایران اپنی اندرونی صورتِ حال کی  وجہ سے ترکی  کے قریب رہنا چاہتا ہے۔  ایران اقتصادی حالت کو بہتر کرنے  کے لیے ترکی کے ساتھ تجارت  کو بڑی اہمیت دے رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ایران ترکی اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات  کو بڑی اہمیت دے رہا ہے۔شام اور عراق اس لحاظ سے اس کے لیے ایک اچھا متبادل نہیں ہیں۔شامی انتظامیہ اگر اپنے پاوں پر  کھڑی بھی رہتی ہے تو اس کے باوجود  وہ ایران کی اقتصادی ضروریات کو پورا کرنے سے کافی دور رہتی ہے۔ عراق میں اگرچہ  شام  کے لحاظ سے بہتر   صورتِ حال موجود ہے  لیکن وہ اقتصادی لحاظ سے اتنا مضبوط نہیں ہے کہ  ایران اس پر بھروسہ کرسکےاس لیے  عراق کے حالات بہتر ہونے میں ابھی کافی وقت درکار ہے۔

ایران جس کے اسرائیل اور عرب ممالک سے اچھے تعلقات موجود نہیں ہیں  علاقے  میں  اقتصادی لحاظ سے مستحکم ملک ترکی کے تعاون  کا  محتاج ہے اور وہ اس لیے ترکی کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

وزیراعظم احمد  داؤد اولو  نے اپنے حالیہ دورہ ایران  میں اس بات کا برملا اظہار کیا تھا کہ  ترکی ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑی اہمیت دیتا ہے۔ ترکی کے سعودی عرب کے ساتھ قریبی تعلقات کے باوجود ایران  کو  اہمیت دیے جانے سے ایران  کے نکتہ نظر سے دونوں ممالک کے تعلقات  کو مزید فروغ دینے کے لیے ایک سنہری موقع موجود ہے۔

ترکی  کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی  وجہ سے ایران کے صدر  کو  اندرونِ ملک سیاسی لحاظ سے مشکلات کا سامنا کرنا  پڑ سکتا ہے۔ تاہم یہ  بات واضح ہے کہ  ترکی کے ساتھ تعلقات  کو فروغ دینے سے ایران کو  بڑا فائدہ حاصل ہوگا۔



متعللقہ خبریں