ترکی کا ثقافتی ورثہ 16

سیواس میں ترکوں کی آمد اور اس کے اثرات

474533
ترکی کا ثقافتی ورثہ 16

گیارہویں صدی کے وسط میں اناطولیہ میں آباد ترکوں کی طرف سے تعمیر کروائی جانے والی عمارتیں فن معماری میں ایک دور کے آغاز کی بنیاد بنیں ۔ان کے درمیان منگو قوم کے بارے میں اناطولیہ کے سیاسی نقشے پر کافی کم معلومات کی موجودگی کے باوجود ان کی فن معماری انفرادیت کی حامل رہی ہے ۔سن ایک ہزار اکہتر میں ہونے والی ملازگرت کی جنگ کے بعد منگو قوم نے اناطولیہ میں دریائے فرات کے بالائی حصے میں ایک ریاست قائم کی ۔ اس ریاستی دور میں بارہویں اور تیرہویں صدی کے دوران ارزن جان ،کماح اور دیو ریعی میں خاص کر فن تعمیر میں سنگ سازی کو کمال حاصل رہا ۔ ان عمارتوں میں بالخصوص منگو ریاست کے حکمراں احمد شاہ اور اس کی بیگم ملکہ خاتون کی طرف سے تعمیر کردہ اولو جامع مسجد اور دارالشفا کو مقبولیت حاصل ہے ۔ان دونوں عمارتوں کو اپنی منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے غیر ملکی محققین نے اناطولیہ کے الحمرا کا لقب دیا ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے مشرقی اناطولیہ کے علاقے میں واقع دیوریعی ضلع سیواس کی ایک تحصیل ہے ۔ یہاں کی زمین سے فولاد نکالا جاتا ہے کہ جس کا سلسلہ کئی صدیوں سے جاری ہے۔ یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل یہاں کی جامع مسجد اور دارالشفا علاقے کے قابل قدر تاریخی مقامات میں شامل ہیں۔

دیورعی کے قلعے کے مغرب میں سن بارہ سو اٹھائیس میں ایک کلیہ تعمیر کروایا گیا تھا کہ جس میں واقع مسجد میں داخلے کےلیے تین دروازے موجود ہیں۔اس مسجد میں پتھروں کی کاری گری کا کام انتہائی نفاست سے کیا گیا ہے مسجد کی تعمیر میں منفرد فن معماری کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے ۔دارالشفا مسجد کے مغربی جانب واقع ہے کہ جو اوپر سے بند ہے ۔اس عمارت کے اندرونی حصے کو ایک دوسرے سے منسلک کرنے کے لیے دروازے موجود ہیں جن پر خوبصورت نقش و نگاری کی گئی ہے۔ اس شفا خانے کا مرکزی دروازہ اور اس پر کی گئی کاری گری اسے دوسرے دروازوں سے منفرد ہے کیونکہ اس پر ہونے والی کاری گری ایرانی، افغانی اور ہندوستانی فن نقش و نگاری سے متاثر دکھائی دیتی ہے ۔
دیوریعی کی ان دونوں عمارتوں کی زیارت کرنے والے قریب واقع قلعے جامع مسجد کی بھی زیارت کر سکتے ہیں کہ جسے شہنشاہ بن سلیمان نے تعمیر کروایا تھا ۔ مسجد کا مرکزی دروازہ آذری طرز تعمیر حسن بن فیروز کے ماہرانہ ہاتھوں کی کاوش ہے ۔
دیوریعی میں منگو قوم کی جانب سے ایک دیگر عمارت مقبرے کی شکل میں موجود ہے کہ جسے دور حاضر میں ستہ ملک کہا جاتاہے ۔اس مقبرے کو منگو ریاست کے حکمراں سلیمان شاہ کےلیے بنوایا گیا تھا ۔بارہویں صدی میں تعمیر کردہ اس عمارت میں بھی نقش و نگاری کی اعلی مثال موجود ہے ۔

دیورعی میں تاریخی حویلیاں بھی قابل ذکر سیاحتی مقامات میں شامل ہیں۔یہ حویلیاں سولہویں اور سترہویں صدی میں ابو چمن نامی ندی کے مغربی کنارے پر واقع ہیں۔ یہ حویلیاں دو منزلہ ہیں کہ جس کی نچلی منزل میں اصطبل ،گودام اور باورچی خانہ جبکہ بالائی منزل پر دیوان خانہ اور مسافر خانہ موجود ہے ۔ان حویلیوں میں لکڑی کا کام کافی خوبصورتی سے کیا گیا ہے بالخصوص چھتیں اپنی مثال آپ ہیں۔ان حویلیوں میں آیان آغا کی حویلی،دیمیر آلان حویلی، شیخ اولو حویلی، کاشانہ سانجاک تار اور عبداللہ پاشا کی حویلی قابل ذکر ہیں۔



متعللقہ خبریں