ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 15

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 15

469759
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ۔ 15



پروگرام اس پروگرام میں ہم آپ کو مشرق وسطیٰ کے علاقے میں پیش آنے والے اہم واقعات کے بارے میں معلومات فراہم کرتے ہیں ۔

لیبیا کے باشندوں نے پانچ سال قبل معمر قذانی کےاقتدار کو ختم کیا تھا لیکن وہ ان کی جگہ کوئی سیاسی نظام لانے میں ناکام رہے ۔ بعض افراد نے قذافی کے بعد کی سیاسی پیش رفت کو اسکی وجہ قرار دیا لیکن اصل وجہ 42 سال تک جاری معمر قذانی اقتدار کی طرف سے چھوری جانے والی میراث تھی ۔ قذافی کے دور میں ملک میں منصفانہ آئینی نظام قائم نہ ہو سکا ۔سرکاری ادارے اپنے امور انجام نہ دے سکے ،سیاسی پارٹیاں قائم کرنے کی اجازت نہ دی گئی ،پریس پر پابندیاں عائد کی گئیں اورشہری تنظیموں کو سخت دباؤ میں رکھا گیا ۔

لیبیا کو اسوقت متعدد مسائل درپیش ہیں لیکن ان میں سے جن تین موضوعات نے حالیہ کچھ عرصے سے ایجنڈے کو مصروف رکھا ہے ان کا تعلق داعش کا لیبیا میں اتھارٹی کے فقدان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی جڑوں کو مضبوط بنانے ،نظم و نسق کے فقدان کیوجہ سےلیبیا کے راستے یورپ غیر قانونی مہاجرین کی ہجرت میں اضافے اور لیبیا میں حکومت کی عدم موجودگی سے ہے ۔

پورے لیبیا میں عدم استحکام کا ماحول جاری ہے اور ملک کےمشرق اور مغرب میں ملک کی نمائندگی کا دعویٰ کرنےوالی دو حکومتیں قائم ہیں ۔ ان دونوں حکومتوں کے درمیان مصالحت کرواتے ہوئے قومی مطابقت حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس طرح بیرون ملک سرگرم عمل ایک نئی حکومت بھی منظر عام پر آ گئی جو تیونس سے اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔مطابقت کے بعد قائم ہونے کے باوجود طرابلس اور تبروک حکومتوں نے بے دلی کا مظاہرہ شروع کر دیا ۔طرابلس کی قومی نجات حکومت نے مختلف موقعوں پر اپنے آپ کو کالعدم قرار نہ دینے کا اظہار کیا ۔ دوسری طرف تبروک کی مجلس نمائندگان ٹی ایم حکومت نے بھی 25 جنوری کی رائے دہی میں 32 وزارتیں حاصل کرنے کے باوجود مطابقت حکومت کو مسترد کیااور کابینہ میں 17 سے زائد وزارتیں دینے کا مطالبہ کیا ۔قائم کی جانے والی نئی کابینہ مجلس نمائندگان کی توثیق کی منتظر ہے ۔مجلس نمائندگان نے 8 بار اجلاس منعقد کیا لیکن ممبران کی ناکافی تعداد کی وجہ سے کابینہ کو اعتماد کا ووٹ دینے کا امکان حاصل نہ ہو سکا ۔یہ صورتحال سرکاری معذرت کی حیثیت کی حامل ہے ۔طرابلس حکومت نے صورتحال واضح نہ ہونے کیوجہ سے اعتماد کا ووٹ دینے سے گریز کیا لیکن تبروک حکومت اپنی حامی مسلح قوت جنرل حلیفے ہفتر کے دباؤ کیوجہ سےووٹ ڈالنے کے لیے ضروری تعداد حاصل نہ کر سکی۔

حالیہ ایک ہفتے میں پیش آنے والے واقعات جمود کو تبدیل کرنے کی خصوصیت رکھتے ہیں ۔لیبیا کے سیاسی معاہدے کی رو سے قائم کی جانے والی صدارتی کونسل کیطرف سے متعین کردہ وزیر اعظم فیاض سراج 30 مارچ کو فرائض سنھبالنے کی غرض سے طرابلس روانہ ہوئے لیکن طرابلس حکومت نے ان کے داخلے کی روک تھام کے لیے ہوائی اڈے کو بند کر دیا جس کے بعد وہ بحری جہاز کے ذریعے طرابلس بحری اڈے پر پہنچے ۔ طرابلس حکومت نے 6 اپریل کو کاروائیوں کو روک دینے کا اعلان کر دیا ۔

طرابلس حکومت کیطرف سے قومی مفادات کی خاطرپیچھےہٹنے کا فیصلہ مصراتہ شہر اور ملشیاؤں کی حمایت کو کھونے

کیوجہ سے کیا گیا ہے ۔مصراتہ شہر کی اہم سیاسی شخصیت عبدالرحمان سوویلی طرابلس میں سر گرم عمل قومی کانگریس کی مملکتہ کونسل میں تبدیلی کے نتیجے میں کونسل کے سربراہ مقرر ہونگے ۔ علاوہ ازیں ،طرابلس اتحاد کا دوسرا اہم گروپ اخوان المسلمین بھی نئے عمل کی حمایت کر رہا ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ طرابلس اتحاد موجودہ شرائط میں پرانی طاقت حاصل نہیں کر سکا ہے ۔

طرابلس حکومت کے زیر کنٹرول 10 بلدیات کیطرف سے یو ایم ایچ کو تسلیم کرنے کے اعلان سے طرابلس حکومت اپنی طاقت کو مزید کھو بیٹھی ہے ۔اس صورتحال نے اجلاس میں ناکافی تعداد نہ ہونے کے بہانے اعتماد کے ووٹ میں تاخیر کروانے والی تبروک ٹی ایم کی سرگرمیوں میں سست روی پیدا کروا دی ہے ۔ موجودہ حالات میں یورپ اور امریکہ کی مخالفت مول نہ لینے کے خواہشمند مصر اور متحدہ عرب امارات بھی جنرل ہفٹر کی خاطراپنے آپ کو خطرے میں نہیں ڈالیں گے ۔ یعنی ٹی ایم کیطرف سے اعتماد کا ووٹ دینے کو منفی نظر سے نہیں دیکھیں گے ۔

موجودہ حالات میں جنرل ہفتر کو غیر فعال بنانا ناممکن نظر آتا ہے ۔ اس مسئلے کو تبروک حکومت کو معمولی مراعات دیتے ہوئے حل کیا جائے گا ۔وہ جنرل ہفتر کو اپنی فوج میں غیر اہم مقام دیتے ہوئے اس مسئلے کو حل کرنے کا مطالبہ کریں گے ۔ قلیل مدت میں تبروک ٹی ایم کو طرابلس منتقل کرنے اور لیبیا کو پہلے کی طرح ایک مرکز سے ایک حکومت کے طور پر چلانے کی امیدیں روشن ہیں ۔ ابھی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ حکومت قائم ہونے کے بعد بیرون ملک سے دوسری بار مداخلت کی جائے گی اور بلاشبہ اس بغاوت کی ذمہ دار داعش ہو گی ۔



متعللقہ خبریں