آرمینیا کے زیر قبضہ قارا باغ کا مسئلہ گزشتہ بیس سالوں سےحل کا منتظر

مسئلے کو حل کرنے کے لیے قائم کردہ OSCE منسک گروپ میں شامل دیگر بین الاقوامی ادارے بھی قابض آرمینیا کو اس مسئلے کے حل کے لیے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں

469004
آرمینیا کے زیر قبضہ قارا باغ کا مسئلہ گزشتہ بیس سالوں سےحل کا منتظر

آرمینیا کے زیر قبضہ قارا باغ کا مسئلہ گزشتہ بیس سالوں سےحل کا منتظر ہے۔۔۔

دنیا قارا باغ سے بلند ہونے والی خاموش چیخوں پر اپنے کان بند کیے ہوئے ہے۔

مسئلے کو حل کرنے کے لیے قائم کردہ OSCE منسک گروپ میں شامل دیگر بین الاقوامی ادارے بھی قابض آرمینیا کو اس مسئلے کے حل کے لیے قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ہیں۔

آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان پیدا ہونے والے مسئلے کی بنیاد 1988 تک پہنچی ہوئی ہے۔ اس دور میں آرمینی حملوں سے شروع ہونے والی جھڑپیں سویت یونین کے انہدام کے بعد سرعت اختیار کر گئیں۔

سن 1994-1991 کی درمیانی مدت میں آذربائیجان کے درمیان شروع ہونے والی جنگ قارا باغ پر آرمینی قبضے کے بعد اپنے اختتام کو پہنچ گئی ۔

قارا باغ پر آرمینی قبضے کی وجہ سے آزربائیجان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔

اس قبضے کے دوران 30 ہزارا افراد ہلاک ہوگئے اور قارا باغ اور گردو نواح کے علاقے پر آرمینیا نے قبضہ کرلیا ۔

اس عرصے کے دوران خان قندی، حوجہ لی، شوشا، حوج اویند ، آق درے، آقدام، جبرایل،فضولی، قباتلی اور زینگی لان کے علاقوں پر بھی آرمینیا نے قبضہ کرلیا ۔

اس دوران بڑے پیمانے پر گھر بار تباہ کردیے گئے، کئِ ایک کاندان منقسم ہوگئے، معصوم اور نہتے انسانوں کو قتل کردیا گیا اور کئی ایک علاقے قتلِ عام کے مراکز بن گئے اور آذربائیجان کے بانشدوں کو ان کی سرزمین سے دھکیل دیا گیا۔

ایک ملین کے لگ بھگ آذری باشندے اپنے گھر بار کو ترک کرنے پر مجبور کردیے گئے۔

مئی 1994ء کو طے پانے والے فاءر بندی کے سمجھوتے کے باوجود منسک گروپ علاقے میں امن قائم کرنے میں کامیاب نہ رہا۔

آرمینیا کی جانب سے اکثر و بیشتر فائر بندی لائن کی خلاف ورزی کی جاتی رہی۔

رابطہ لائن میں 2014 میں ایک بار میں جھڑپوں کی شدت دیکھی گئی اور شروع کردہ مذاکرات سے بھی کوئی نتیجہ حاصل نہ کیا جاسکا ۔

اس ماہ کے اوائل میں آرمینی دستوں نے سویلین ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ایک بار پھر جھڑپوں کو تیز تر کردیا۔

آذربائیجان کے فوجی دستوں نے جوابی کاروائی کرتے ہوئے آرمینی فوج کو کافی حد تک نقصان پہنچایا اور آرمینیا کے کئی ایک اسٹریٹیجیک لحاظ سے اہمیت کے حامل ٹھکانوں پر قبضہ کرتے اپنی برتری ثابت کردی۔

اس صورتِ حال پر بین الاقوامی حلقوں اور روس نے اپنی کوششوں کا آغاز کرتے ہوئے ان جھڑپوں کو روکنے کی کوشش کی اور چوتھے روز ان جھڑپوں کو روک دیا گیا۔

آذربائیجان نے مذاکرات شروع کرنے کے لیے آرمینیا کو نیا موقع فراہم کیا ۔

صدر الہام علی ایف نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے آرمینیا علاقے پر قبضہ کرنے۷ کی اپنی پالیسی جاری رکھتے ہوئے امن اور مذاکرات کو سبو تاژ کرنا چاہتا ہے۔

آذربائیجان کےصدر الہام علی ایف نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے وہ اپنی سرزمین کا دفاع کرنے کا کا پورا حق رکھتے ہیں اور وہ کسی کی سرزمین پر قبضہ کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ وہ کًحی بھی آذربائیجان کی سرزمین پر ایک اور آرمینیا قائم کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیں گے۔

جھڑپوں اور محاذ پر قائم کی جانے والی فائر بندی کے بعد علاقے میں کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے۔

آرمینیا کے زیر قبضہ قارا باغ گزشتہ بیس سالوں مسئلے کے حل کا متلاشی ہے۔



متعللقہ خبریں