ترکی کے دریچے سے مشرقِ وسطیٰ -12

روس شام کے صدر بشار الاسد کا اہم اتحادی ہے اور شامی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے سے متفق ہیں۔ستمبر 2015 میں روس کی شام کی خانہ جنگی میں مداخلت سے اس جنگ میں شامی حکومت کا پلڑا بھاری ہوگیا تھا

460368
ترکی   کے دریچے سے مشرقِ وسطیٰ -12

روس کے صدر ولادِ میر پوتین نے چند روز قبل بیان دیتے ہوئے روسی فوجیوں کے جلد ہی شام سے انخلا شروع کرنے کا اعلان کیا۔ انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ شام میں اہداف حاصل کر لیے گئے ہیں۔ روسی افواج کی واپسی کے باوجود شامی صوبے لاذقیہ میں روس کا ایئربیس اور بحیرۂ روم میں بحری اڈے پر سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں گی۔

روسی صدر کی جانب سے شام سے افواج کے انخلا کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سوئٹزرلینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں شام میں جاری پانچ سالہ خانہ جنگی کے مسئلے کے حل کے لیے مذاکرات کیے جا رہےتھے ۔روس شام کے صدر بشار الاسد کا اہم اتحادی ہے اور شامی صدر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ اس فیصلے سے متفق ہیں۔ستمبر 2015 میں روس کی شام کی خانہ جنگی میں مداخلت سے اس جنگ میں شامی حکومت کا پلڑا بھاری ہوگیا تھا اور اس کے بعد حکومتی افواج نے باغیوں کے قبضے سے کئی علاقے چھڑوائے تھے۔کریملین میں ایک اجلاس کے دوران روسی صدر پوتین کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں وزارت دفاع اور مسلح افواج کو جو مشن سونپا گیا تھا وہ مکمل کر لیا گیا ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ شامی صوبے لاذقیہ میں روس کے ہمیمم ایئربیس اور بحیرۂ روم میں طرطوس میں اس کا بحری اڈے پر سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہیں گی۔ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں اثاثوں کی 'زمین، فضا اور سمندر' سے تحفظ کیا جائے۔روس شام میں اپنی فوجی کارروائیوں کے بارے میں دعویٰ کرتا رہا ہے کہ وہ صرف دہشت گرد تنظیموں کو نشانہ بنا رہا ہے جبکہ مغربی طاقتیں یہ الزام عائد کرتی رہی ہیں کہ روس بشارالاسد کے مخالفین کو نشانہ بنا رہا ہے۔

شام کی حزبِ اختلاف بھی نے روس کے اس اعلان کا محتاط خیرمقدم کیا ہے۔ حزبِ مخالف کی جماعتوں کے گروپ کے ترجمان سلیم المصلات نے کہا ہے کہ 'اگر انخلا کے اعلان پر عمل درآمد میں سنجیدگی پائی جاتی ہے تو یہ مذاکرات کے لیے مثبت ہوگا۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کے ایلچی برائے شام سٹیفن ڈی میستورا نے حالیہ امن مذاکرات کو 'سچ کا لمحہ' قرار دیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوجاتے ہیں تو کوئی 'پلان بی' نہیں ہے اور جنگ کی جانب واپس لوٹنا ہی اس کا متبادل ہوگا۔خیال رہے کہ شام میں فریقین کے درمیان جنگی بندی کا معاہدہ گذشتہ ماہ کے اواخر میں طے پایہ تھا تاہم تمام اس معاہدے کی کچھ خلاف ورزیوں کی بھی اطلاعات ہیں۔

امریکی حکام نے روس کے جزوی فوجی انخلا کے اعلان کا محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے اور وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے کہا ہے کہ'ہمیں دیکھنا ہوگا کہ روس کے اصل ارادے کیا ہیں۔ امریکی صدر براک اوباما نے اس سلسلے میں روسی صدر سے پیر کی شب فون پر بات بھی کی ہے۔وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق دونوں رہنماؤں نے شام سے روسی افواج کے جزوی انخلا اور جنگی اقدامات کی مکمل روک تھام کے لیے درکار اقدامات پر بات کی۔ بیان کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ 'شام میں تشدد کے خاتمے کے لیے سیاسی تبدیلی ضروری ہے۔

روس شام میں فوجی مداخلت کے ذریعے صدر بشار الاسد کی پوزیشن مضبوط کرنا، سٹریٹیجک اہمیت کے علاقوں کو دوبارہ حاصل کرنا اور یہ یقینی بنانا چاہتا تھا کہ شام کے مستقبل میں بشار الاسد کا کردار ہو اور اس نے یہ سب اہداف حاصل کر لیے ہیں۔دونوں لیڈروں نے اس بات سے بھی اتفاق کیا ہے کہ روس شام میں جنگ بندی کی نگرانی کے لیے ایک فوجی اڈا اپنے پاس برقرار رکھے گا۔صدر پوتین نے اپنی وزارت خارجہ کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ شام امن معاہدے کی ثالثی کے لیے روس کا کردار وضع کرے۔ان کا کہنا تھا کہ روس کے جنگ زدہ ملک میں کردار سے امن عمل کے لیے ضروری حالات پیدا ہوئے ہیں۔

واضح رہے کہ روس کے لڑاکا طیارے 30 ستمبر 2015ء سے شام میں صدر بشارالاسد کی وفادار مسلح افواج کے خلاف لڑنے والے داعش اور دوسرے باغی گروپوں پر فضائی حملے کررہے تھے۔روسی طیارے داعش کے علاوہ القاعدہ سے وابستہ النصرۃ محاذ اور مغرب کے حمایت یافتہ باغی گروپوں کو اپنی بمباری کا ہدف بناتے رہے ہیں۔ان فضائی حملوں کی بدولت شام کے شمالی علاقوں میں اسدی فوج کو زمینی پیش قدمی میں مدد ملی ہے اور اس نے متعدد شہروں ،قصبوں اور دیہات پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے یا وہاں قبضے کے لیے ان کا محاصرہ کررکھا ہے۔

روس اور اس کا اتحادی ایران شامی صدر بشارالاسد کے سب سے بڑے حامی اور مؤید ہیں اور وہ ان کی اقتدار سے رخصتی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔بشارالاسد کا اقتدار بچانے کے لیے ہی روس نے شام میں فوجی مداخلت کی تھی جبکہ ایران کے فوجی شامی فوج کے شانہ بشانہ مشیروں کے روپ میں باغیوں کے خلاف مختلف محاذوں پر لڑرہے ہیں۔

امریکا اور اس کے اتحادی مغربی ممالک ،ترکی اور سعودی عرب شام میں جاری جنگ کے خاتمے کے لیے جنیوا اول معاہدے کے تحت بشارالاسد کی اقتدار سے رخصتی چاہتے ہیں۔یادرہے کہ 30 جون 2012ء کو اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پائے جنیوا اوّل کے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ عبوری حکومت میں صدر بشارالاسد کا کوئی کردار نہیں ہوگا لیکن شامی حکومت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ صدر کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوگی۔

دمشق میں شامی صدر کے دفتر نے ایک بیان میں کہا کہ صدر اسد روس کے اس اقدام سے اتفاق کرتے ہیں مگر کہا کہ روس نے وعدہ کیا ہے کہ اس کی فضائیہ کا دستہ جو ستمبر کے اواخر میں شام پہنچا تھا مکمل طور پر ملک سے نہیں جائے گا اور کچھ موجودگی برقرار رکھے گا۔

ایک امریکی عہدیدار کے مطابق اگرچہ حالیہ دنوں میں شام میں تعینات روسی فوجوں میں کوئی قابل ذکر اضافہ نہیں ہوا مگر ان کی موجودہ عملداری کو برقرار رکھنے کے لیے رسد کی فراہمی جاری ہے۔

روس شام میں اپنی کچھ موجودگی برقرار رکھے گا تاکہ وہ ان پروازوں کو جاری رکھ سکے جو "شام میں کشیدگی روکنے سے متعلق معاہدے پر فریقین کی جانب سے عمل درآمد کی نگرانی کے لیے اڑائی جا رہی ہیں۔



متعللقہ خبریں