ترکی کا افق نو ۔ 12

جمہوری نظام اور دہشت گردی

456214
ترکی کا افق نو ۔ 12

دنیا کے مختلف علاقوں میں پیش آنے والے دہشت گردی کے واقعات کے خلاف لی گئی "سیکورٹی تدابیر کے خلاف سب سے زیادہ " آزادی " کے نظریے پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

اس مو ضوع کو ان دو نظریوں کے ساتھ زیر بحث لائے جانے پراعتراضات بھی سامنے آرہے ہیں۔ کیونکہ آزادی کسی بھی شرط سے وابستہ کرتے ہوئے بحث چھیڑی جانے والا ایک معاملہ نہیں ہے۔

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ موزیلینی کا ایک مشہور قول پایا جاتا ہے، " محنت یا پھرآزادی؟" یہ الفاظ ویسے بھی دو حیاتی اہمیت کے حامل معاملات میں سے کسی ایک کو ترجیح دیے جانے پر مجبور کرتا ہے۔ اس بنا پر یہ فاشزم نظریاتی کو جنم دیتا ہے۔

اس جملے میں ہماری آزادی اور سلامتی کی خواہش کے سامنے خطرہ تشکیل دینے والے کسی موقف کا مشاہدہ ہوتا ہے۔

آج ڈیمو کریسی کی طرف سے پیش کردہ امکانات کے ساتھ کسی ماحول کو حاصل کرنے والے دہشت گرد ملک میں سنگین سطح کی افراتفری پیدا کرنے کے متمنی ہیں۔

تو کیا اس صورتحال کے سامنے ہمیں جمہوری نظام کو التوا میں ڈال دینا چاہیے؟ نہیں اس چیز کی ضرورت ہونے والی کوئی صورتحال موجود نہیں بلکہ ہمیں جمہوری نظام کو مزید مضبوط بنانا ہو گا۔

تا ہم اس جمہوری ماحول کا استحصال کرنے والے پر تشدد عناصر کو کس طرح کنٹرول میں لیا جا سکتا ہے؟ سوال روزانہ دریافت کیا جاتا ہے۔

یہ مسئلہ در اصل جدید دنیا کا قدیم ترین نا قابل حل معاملہ ہے۔ اظہار و منظم ہونے کی آزادی کے امکانات فراہم کرنا شدت پر مبنی آَئیڈیالوجی کے منظم ہونے کو کنٹرول میں لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

لیبرلز کا سب سے زیادہ زور دیا جانے والا معاملہ حکومتوں کی طرف سے لازمی تدابیر اختیار کرتے ہوئے تشدد کا مظاہرہ کرنے والوں کا تعین کرنا ہے۔

بلا شبہہ یہ منطقی بات درست اور ذی فہم ہے۔ یعنی آزادی اظہار تو ٹھیک ہے تا ہم شدت ناقابل قبول ہے اور نہ ہی میں سمجھتا ہوں اس پر کسی کو اتفاق نہیں ہو گا۔

میرے نزدیک عصر حاضر کا اہم ترین مسئلہ ان دونوں نظریوں کے لب لباب اور امکانات سے تعلق رکھتا ہے۔ ہمیں اس چیز کا فیصلہ کرنا ہو گا کہ آزادی کا اصل مفہوم کیا ہے اور اس کے نکات کیا کیا ہیں؟

تقریباً کسی کو بھی علم نہ ہونے والے فرضی، کن چیزوں کے شامل ہونے والے اور کیا کچھ شامل ہونے والے نظریہ آزادی پر پیش کردہ منطق پر تشدد عناصر پر مبنی اور غیر مبنی تنظیمیں پر تشدد واقعات کے مرتکب ہونے سے قبل اس چیز کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے۔

دہشت گرد تنظیموں کے سرکاری حکام سمیت تمام تر انسانی و سماجی اقدار کے خلاف خونی کاروائیاں کرنے والے اس ماحول میں آزادی کا مفہوم کے بارے میں تجسس نہ رکھنا ، ناممکن ہے۔

اس معاملے میں ترکی ، کسی دوسرے معاشرے کی وجودیاتی اقدار نہیں بلکہ ثقافتی اقدار پر مبنی کسی نظریہ آزادی کی تشریح کو ریفرنس نہیں بنا سکتا ۔

کائناتی اقدار کے مطابق علم ہونے والا نظریہ آزادی آیا کہ کیوں کسی بھی طریقے سے ہمارے نچوڑ و اصلیت میں پختگی لانے کا سبب نہیں بنتا۔

کیونکہ مکمل طور پر ثقافتی کوڈ کا تعین کردہ "آزادی کا نظریہ" ہمارے سامنے ہے۔

یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر مظہر باعلی کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ پیش خدمت ہے۔

ترکی کو ایک نئی دہشت گردی کی تحریک کا سامنا ہے۔ ترکی کو در پیش اس نئے طرز کی دہشت گرد ی کا قلع قمع کرنے کے لیے محض جدوجہد کی صلاحیت کافی ثابت نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس کے ساتھ ساتھ تصوراتی طور پر بھی اقدامات اٹھانے لازمی ہیں۔

خاصکر تاریخی شرائط و ماحول اور عصر حاضر میں در پیش سماجی مسائل کا ایک ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے موجودہ سماجی نظریے کے مفہوم کو از سر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔

اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ شاید آزادی سے متعلق تشریح کو نئے سرے سے مرتب کرنے پر مبنی ہے۔ کس آزادی کا ذکر کیے جانے کو واضح کرنا شاید ایک آسان کام نہیں ہے ، تاہم ایک حیاتی اہمیت کے حامل معاملے کا معلق ہونا نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی سلامتی کے لیے بھی خطرہ تشکیل دیتا ہے۔

کیونکہ ذہنی تواز ن خراب ہونے پر سب سے زیادہ نقصان پہنچنے والی چیز انصاف و قوانین ہیں۔ حضرت داود علیہ السلام کی ایک کہانی کافی مشہور ہے، دو دعویدار بھائی حضرت داود کے سامنے پیش ہوئے ، جن میں سے ایک نے کہا کہ یہ میرا بھائی ہے اس کے پاس 99 بھیڑیں ہیں، جبکہ میرے پاس ایک بھیڑ ہے۔ اس نے مجھ سے یہ بھیڑ بھی مانگی اور میں اس بحث میں ہار گیا۔ جس پر حضرت داود نے قائم کردہ سرکاری نظام نہیں بلکہ ضمیری انصاف کے کہیں زیادہ اہم ہونے کا اندازہ کیا۔

واقعی میں اگر کسی زبردست عدالتی نظام کو قائم کیا جائے تو بھی انسانی ضمیر میں اگر انصاف کے ترازو کی وقعت و اہمیت نہ ہو تو پھر یہ چیز بھی فائدہ مند نہیں ہو گی۔

ترکی کو انتہائی سنگین ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا سامنا ہے۔ ان کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ اہم سطح کے امکانات و استعداد کا بھی مالک ہے۔ تا ہم اس موضوع پر اس کے ماضی کے تلخ تجربات اسے خدشات دلا رہے ہیں۔

اس کو خدشہ ہے کہ ان واقعات میں کہیں زیادہ تیزی نہ آجائے، یہ حساسیت بعض اوقات استحصال کرنے کے ماحول کو جنم دیتی ہے۔

ایک جانب سے سیکورٹی تدابیر اختیار کرنے اور دوسری جانب آزادی کے معاملے میں رعایت نہ دینے کی خواہش ظاہر کی جاتی ہے۔ اس کو صحت مندانہ طریقے سے کسی باقاعدہ نظام کی ماہیت میں بدلنے کا واحد راستہ اس موضوع پر مبنی تمام تر تفصیلات کو تاریخی و سماجی دائرہ کار میں با معنی بنانا ہے۔

ہم نظریات اور تشریحوں کی از سر نو تشکیل کرنے پر مجبور ہیں۔ دہشت گردی کا چہرہ بدل چکا ہے لہذا سیکورٹی موقف و حربوں میں بھی تبدیلی لازمی ہے۔



متعللقہ خبریں