ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 9

شامی انتظامی فورسز نے روس، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے حلب پر حملہ کیا۔ جھڑپوں سے بچ کر نکلنے والے ہزاروں افراد ترکی کے ضلع کیلیس کی سرحد پر پہنچے

443332
ترکی کی امدادی سرگرمیاں ۔ 9

پروگرام" ترکی کی امدادی سرگرمیاں" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ شامی انتظامی فورسز نے روس، ایران اور حزب اللہ کی مدد سے حلب پر حملہ کیا۔ جھڑپوں سے بچ کر نکلنے والے ہزاروں افراد ترکی کے ضلع کیلیس کی سرحد پر پہنچے۔ ان نئے آنے والے شامی مہمانوں کے لئے ترکی کی خدمات کو ترکی کی ہلال احمر تنظیم کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کے حوالے سے آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔


ہر روز 3 ممالک کا پیٹ بھرنا

شام میں مارچ 2011 میں خانہ جنگی کا سلسلہ شروع ہوا اور اس وقت سے لے کر اب تک 5 سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ان پانچ سالوں میں لاکھوں افراد بے گھر ہوئے اور اپنے وطن سے اور وہاں کی یادوں سے کٹی ہوئی زندگی گزار رہے ہیں۔ صرف ترکی میں اڑھائی لاکھ سے زائد شامی مہمان موجود ہیں۔ ان میں لبنان، اردن، مصر اور عراق میں موجود شامی مہاجرین کو بھی شامل کریں تو تقریباً 5 لاکھ انسان اپنے ملک سے باہر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اندازے کے مطابق تقریباً 10 لاکھ انسان شام کے اندر اپنے گھر سے بے گھر ہو گئے ہیں۔ اعداد و شمار کے اس روکھے پھیکے بیان کو ایک طرف رکھا جائے اور ہر انسان کو ایک زندگی کے طور پر دیکھا جائے تو صورتحال حقیقی معنوں میں نہایت تکلیف دہ ہے۔ حالیہ دنوں میں ترکی پر تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے یورپ جانے والے مہاجرین کو یورپ میں داخلے سے روکنے کے لئے موئثر کاروائی نہیں کی۔ تاہم اندازے کے مطابق تقریباً 500 ملین آبادی والے یورپی یونین میں داخل ہونے والے مہاجرین کی تعداد صرف ایک لاکھ کے قریب ہے ۔ اور جس قدر بھی بحث مباحثہ کیا جا رہا ہے وہ صرف اس ایک لاکھ مہاجرین کی وجہ سے کیا جا رہا ہے۔ اگر اعداد و شمار کو ایک طرف رکھ کر موضوع کو ذرا زیادہ ٹھوس شکل دینا ہو تو ایک سوال پوچھنا نہایت بر محل ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا جرمنی ہر روز 2 ملین آبادی والے سلوانیا ، 5 لاکھ آبادی والے لکسمبرگ اور 4 لاکھ آبادی والے مالٹا کی تمام ضروریات کو پورا کر سکتا ہے؟ سوال کو ذرا زیادہ کھول کر پیش کیا جائے تو یوں کہوں گا کہ جرمنی جن تین ممالک کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں موجود بچوں، عورتوں ، مردوں، بوڑھوں کو تین وقت کا کھانا دے گا ان کی لباس، تعلیم اور دیگر ہر طرح کی ضرورت کو پورا کرے گا اور اس کو 5 سال تک جاری رکھے گا۔ کیا یہ ممکن ہے؟ اگر یہ سوال کسی جرمن سے پوچھا جائے تو یقیناً اس کا جواب نفی میں ہو گا۔ وہ کہے گا کہ یہ ایسا بوجھ نہیں ہے کہ جسے اٹھایا جا سکے۔ اگر جرمنی کے حکمرانوں سے یہ سوال پوچھا جائے تو وہ کہیں گے کہ نہیں یہ بوجھ ایسا نہیں ہے کہ اسے جرمنی اکیلا اٹھا سکے۔ وہ کہے گا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ ہمیں اس بوجھ کو بانٹ لینا چاہیے۔ اور سچ یہ کہ ان کے اس جواب کا ایک بڑا حصہ سچ پر مبنی ہے۔


یقین کرنا مشکل ہے لیکن ترکی اسے 5 سالوں سے کر رہا ہے۔ یعنی ترکی 5 سالوں سے سلوانیا، لکسمبرگ اور مالٹا کی کُل آبادی یعنی تقریباً 3 ملین افراد کو ہر روز 3 وقت کا کھانا دے رہا ہے۔ انہیں رہنے کے لئے جگہ فراہم کر رہا ہے۔ کچھ کو کیمپوں میں اور کچھ کو شہروں میں پناہ دئیے ہوئے ہے۔ انہیں لباس فراہم کر رہا ہے۔ بچوں کی تعلیمی سہولیات اور خواتین کو پیشہ وارنہ کورسز فراہم کر رہا ہے۔ کسی فن میں مہارت رکھنے والے متعدد انسانوں کو روزگار کے امکانات فراہم کر رہا ہے۔ ذرا زیادہ کھول کر بیان کریں تو 3 ممالک کی کُل آبادی ہر روز ترکی کی فراخدلانہ اور سخاوت والی ثقافت کی وجہ سے پل رہے ہیں۔ جو سوال ہم نے ایک جرمن سے پوچھا اگر اسی سوال کو ایک ترک سے پوچھیں یعنی کیا ترکی ہر روز تین ملکوں کی آبادی کے برابر انسانوں کو کھانے اور لباس کی امداد فراہم کر کے انہیں زندہ رکھ سکتا ہے؟ تو وہ ترک اس طرح جواب دے گا " اللہ کی رضا سے ہم ہر طرح کی کوشش کریں گے"۔ کیوں کہ ترک عوام جانتی ہے کہ نیکی کرنے والے کو اس کا بدل بھی نیکی کی صورت میں ملتا ہے۔ ترک عوام کا دین اسلام یہ کہتا ہے کہ "ہمسایہ بھوکا ہو تو پیٹ بھر کر سونے والا ہم میں سے نہیں ہے"۔


شامی انتظامی فورسز نےروسی فضائیہ ، ایران اور حزب اللہ کے تعاون سے حلب کے شمال میں ایک بڑے حملے کا آغاز کروایا۔ ترکی۔شام سرحد کے بالکل قریب ہونے والے ان حملوں کے بعد دوبارہ ہزاروں افراد اپنے لئے محفوظ پناہ گاہ یعنی ترکی کی طرف آئے۔ ہزاروں شامی کیلیس کی طرف عازم سفر ہوئے۔کیلیس کے بالکل سامنے 50 ہزار افراد کے قریب شامی مہمان آئے۔ ترکی نے آنے والے ان مہاجرین کے ساتھ گھر آنے والے مہمانوں جیسا سلوک کرنا جاری رکھا۔ ہرگز یہ بات نہیں کہی کہ اگر دنیا اس بوجھ کو نہیں بانٹ رہی تو میں بھی کچھ نہیں کروں گا"۔ بعض یورپی ممالک کی طرح آنے والوں کی دینی یا نسلی شناخت کے بارے میں پوچھ گچھ نہیں کی۔ سرحدوں پر خاردار تار نہیں لگائی۔ ترکی کی AFAD ، ترکی ہلال احمر اور دیگر امدادی تنظیمیں فوری طور پر منّظم ہو گئیں ۔ ہلال احمر نے سب سے پہلے سرحد پر 2 ہزار خیمے لگائے۔ فوراً بعد کمبلوں، پانی اور خوراک کی اشیاء کی تقسیم کرنا شروع کر دی گئی۔ مہاجرین کے طبّی معائنوں کے بعد مریضوں کا علاج معالجہ شروع کر دیا گیا۔ ہر روز 50 ہزار افراد میں گرم کھانا تقسیم کیا جاتا ہے۔ایک لاکھ روٹیاں ہر روز ان مہمانوں کے لئے پکائی جاتی ہیں۔


ترکی نئَ آنے والے اور کیلیس کی سرحد پر قیام کرنے والے ان مہمانوں کی دیکھ بھال بھی 5 سال نہیں 10 سال نہیں ہمیشہ کےلئے کر سکتا ہے۔ اگر تہذیب یافتہ یورپی ممالک اس صورتحال سے کوئی سبق لیتا ہے تو ترک عوام اسے بخوشی کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر کہا جائے کہ کوئی ملک یہ کہے گا کہ اس انسانی المیے میں ہمارا بھی بڑا حصہ ہے ۔ صرف اسی وجہ سے ہی ہو تو اس بوجھ کو ہمیں بھی بانٹنا چاہیے تو اس کا امکان نہایت کم نظر آ رہا ہے۔ جلتی وہی جگہ ہے کہ جہاں آگ گری ہو اور اس آگ کو بجھانے کے لئے ہمسائیوں کے علاوہ اور کوئی قابل اعتماد سہارا نہیں ہوتا ۔ اس خواہش کے ساتھ کہ اللہ ہر ملک کو ترکی جیسا ہمسایہ دے آپ سے اجازت چاہتے ہیں۔



متعللقہ خبریں