ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 09

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 09

441720
ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 09

ترکی کے دریچے سے مشرق وسطیٰ 09


لیبیا میں 2014 سے دو حکومتیں قائم ہیں ۔اس وقت سے لیکر ابتک اقوام متحدہ کی وساطت سے قومی اتحاد حکومت تشکیل دینے کی کوششیں جاری ہیں اور کسی بیرونی مداخلت ہونے یا نہ ہونے کا موضوع زیر بحث ہے ۔ اگرچہ 2014 کی نصف دھائی کے بعد بیرونی مداخلت ایجنڈے میں تھی لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ مداخلت کب اور کیسے ہو گی اور لیبیا کے اندر سے کونسے عناصر کیساتھ مل کر یہ مداخلت ہو گی اور ان گروپوں کے درمیان کس قسم کا اتحاد ہو گا ۔

سات جولائی 2012 کے انتخابات کے بعد تشکیل دی جانے والی قومی کانگریس میں کوئی بھی سیاسی پارٹی تنہا بر سر اقتدار آنے کے لیے ضروری اکثریت حاصل نہ کر سکی جس کے نتیجے میں انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت تمام سیاسی قوتوں کی نمائندگی کرنے والی قومی اتحاد حکومت کی خصوصیت رکھتی تھی لیکن اس کے باوجود قومی کانگریس ایک قومی اتحاد مجلس کے طور پر کام نہ کر سکی ۔ انتخابات سے قبل عبوری دور میں وزیر اعظم کے فرائض ادا کرنے والے محمود جبرائیل اور مسلمان برادران گروپ کے درمیان رقابت شروع ہو گئی ۔ سیاست دانوں کے درمیان طاقت کی جدوجہد قذافی دور کے خاتمے کے بعد کالعدم قرار نہ دی جا سکنے والی ملیشیا قوتوں کے درمیان جھڑپیں کا باعث بنی ۔ لیبیا میں سر گرم عمل2013 میں مصر میں اخوان المسلمین کو کالعدم قرار دینے کے بعد دو سو سے زائد ملیشیا گروپ اور دو لاکھ سے زائد ملیشا موجود تھے ۔

2013 میں مصر میں اخوان المسلمین کو کالعدم قرار دینے کے بعدلیبیا میں بھی اس قسم کے عمل درآمد کا خیال پایا جاتا تھا جو حقیقت نہ بن سکا ۔ اس کی وجہ فوجی کاروائیوں میں شامل سیاسی اتحاد فعال ملیشیا قوت کا مالک تھا ۔ 2014 کے پہلے نصف میں سی آئی اے سے روابط کیوجہ سے مشہور جنرل حلیفے ہفتر کو خلیجی ممالک اور مصر شراکت کے دائرے میں ایک سیناریو کیساتھ سامنے لانے سے سیاسی اور فوجی صورتحال مزید پیچیدہ شکل اختیار کر گئی۔ قذافی کی معزولی کے بعد اپنی طاقت کو کھونے والے ہفتر دوبارہ منظر پر آ گئے تھے ۔اخوان المسلمین کو کالعدم قرار دینے کے بعد ہفتر نے فوجی جدوجہد کا آغاز کیا۔انھیں جبرائیل اور حلیفوں کی حمایت بھی حاصل تھی۔انھوں نے عالمی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے دہشت گردی کیخلاف جدوجہد کے سلوگن کو استعمال کیا ۔

جون 2014 کے بعد لیبیا کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں مختلف ملیشیا گروپوں کے درمیان جھڑپیں شروع ہو گئیں اور ملک میں دو مختلف حکومتیں بھی قائم ہو گئیں ۔ دارالحکومت طرابلس میں اخوان المسلمین اور مصراتاملیشیاؤں کے مرکزتشکیل دینے والی قومی کونسل حکومت اور مشرقی علاقے میں تبروک شہر میں سر گرم عمل مجلس نمائندگان حکومت نے ایک دوسرے کی رقیب حکومتوں کے طور پر ملک کے نظم و نسق کو چلانا شروع کر دیا لیکن عالمی برادری نے جون 2014 میں ہونے والے انتخابات جس میں عوام کی بہت کم تعداد نے شرکت کی تھی کے بعد مجلس نمائندگان حکومت کو سرکاری حکومت کے طور پر تسلیم کر لیا ۔

اس دور میں ملک میں عدم استحکام بڑھتا گیا اور مغرب کے ایجنڈے میں دوبارہ فوجی مداخلت کا موضوع شامل ہو گیا ۔ اس دوران افریقی ممالک سے لیبیا کے راستے ہجرت ہو رہی تھی اور داعش نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے لیبیا میں اپنے اثرو رسوخ میں ا ضافہ کر لیا ۔ لیبیا میں دو بلاکوں کے د رمیان جھڑپوں نے خانہ جنگی کی شکل اختیار کر لی ۔طرفین کے درمیان مصالحت کروانے اور خانہ جنگی کی رو ک تھا م کے لیے حرکت میں آنے والا پہلا ملک ترکی ہی تھا ۔ ترکی نے دونوں گروپوں کیساتھ مذاکرات شروع کیے ۔دیگر ممالک کیطرح مسلمان برادران کے خلاف موقف اختیار نہ کرنے کی وجہ سے تبروک حکومت نے ترکی کو دشمن کی نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ خلیجی ممالک اور مصر کی حمایت کے باوجود ہفتر افواج طرابلس حکومت کے مسلح دستوں پر برتری حاصل کرنے میں ناکام رہیں جس کے نتیجے میں مغربی ممالک نے اقوام متحدہ کی وساطت سے مصالحتی اور قومی اتحاد حکومت تشکیل دینے کے لیے کوششوں کا آغاز کر دیا ۔

عالمی برادری کیطرف سے سرکاری طور پر قبول کی جانے والی تبروک حکومت نے مغربی ممالک سے بار ہا مداخلت کی اپیل کی ۔ایک وقت مصر اور پے اے ای نے اس کی حمایت بھی کی تھی لیکن مغربی ممالک کی غیر رضا مندی کیوجہ سے مصر نے فوجی امداد کے بجائے سیاسی حمایت فراہم کرنی شروع کر دی ۔ تبروک حکومت نے روس سے بھی امداد کی اپیل کی ۔ مغربی ممالک صرف تبروک حکومت کی دعوت پر مداخلت کے غیر مشروع ہونے کے حامی تھے ۔ تبروک حکومت تشکیل دینے والے سیاسی گروپوں پر عدم اعتماد رکھنے والی تبروک حکومت کے گروپوں نے اقوام متحدہ کے توسط کوششوں کی حمایت نہیں کی تھی ۔ اس دور میں ترکی نے طرابلس حکومت کو مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں اہم کردار ادا کیا ۔ مسلح جھڑپوں کے ذریعے کسی بھی فریق کا برتری حاصل کرنا ممکن نہیں تھا اور جھڑپوں کے جاری رہنے سے لیبیا نے ایسی دلدل میں گر جانا تھا جہاں سے اس کا نکلنا مشکل تھا ۔ اس صورتحال کی روک تھا م کے لیے ترکی کا کردار انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

طرابلس اور تبروک حکومتوں کے درمیان جولائی اور دسمبر 2015 میں جو مذاکرات ہوئے تھے ان کے نتیجے میں متعدد مسائل کو حل کر لیا گیا ۔ ان معاہدوں کی رو سے نو رکنی قومی مصالحتی حکومت قائم ہو ئی جس کیطرف سے وضح کردہ پہلی کابینہ کی تبروک حکومت نے توثیق نہیں کی ۔ حکومت نے 17 وزراء مقرر کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔اس کے بعد نئی کابینہ تشکیل دی گئی جومجلس نمائندگان کی توثیق کی منتظر ہے ۔

اس دوران امریکہ نے لیبیا پر ڈرون حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا ۔امریکہ نے ایک ہفتہ قبل طرابلس کے قریب داعش کے ٹھکانوں پر حملے کیے ۔دریں اثناء پریس میں یہ خبریں بھی شائع ہو رہی ہیں کہ فرانس نے ہفتر کے دستوں کی مدد کی غرض سے ایک خصوصی ٹیم کو بن غازی روانہ کیا ہے ۔جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اب مغربی ممالک مداخلت کے لیے مزید انتظار نہیں کریں گی ۔ اب مجلس نمائندگان پر فوری طور پر نئی کابینہ کی توثیق کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا وقت آ گیا ہے ۔



متعللقہ خبریں