ترکی کا آفق نو ۔ 08

سیاستدانوں کے درمیان کشمکش قدیم دور سے چلی آرہی ہے

438075
ترکی کا آفق نو ۔ 08

ترکی کی قدامت پسند سیاست کے بنیادی متحرک پن کو تشکیل دینے والی "سماجی مخالفت" ہے۔ قوم کے باوجود جبری عمل درآمد کے خلاف سیاسی طور پر کی جانے والی یہ جدوجہد عرصہ طویل سے چلی آرہی ہے۔ جیسا کہ جمیل میرچ کا کہنا ہےکہ" یہ لڑائی کوہ اولمپس کے بچوں اور کوہ حِرا کی اولاد کے درمیان ہے" وہ مزید کہتے ہیں کوہ ِ اولمپس کے بچے کوہ حرا کے بچوں کو کبھی بھی نہیں مانیں گے۔ہم اس جھگڑے کے عصر حاضر تک آنے والے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے ترکی کے موجودہ علاقے چیرکز حسان اور حسین آونی پاشا کا دورہ کر سکتے ہیں۔ آپ بھی مشاہدہ کریں گے کہ وہ صدیوں پرانی جدوجہد آج بھی جاری ہے۔ مثال کے طور پر مختصرا ً بتاتے چلیں کہ اس جغرافیہ میں " مقامی " اور انجنیئرنگ منصوبے" کے مالکین کے درمیان ہمیشہ لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے جس میں انجنیئرنگ والوں کو ہمیشہ غلبہ حاصل رہتا ہے کیونکہ اس جدوجہد کی زمین اور اصولوں کا یہ بذات خود ہی تعین کرتے ہیں۔

جب کبھی بھی مقامی عوام چاہے جبراً ہی کیوں نہ ہو رقابت و جدوجہد کے لیے بعض معیاروں تک پہنچ جاتے ہیں تو اسوقت حالات میں تبدیلیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں۔

جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ کثیر الاجماعتی عمل درآمد کے بعد عوامی پارٹی، ڈیموکریٹ پارٹی کے سامنے کسی بھی انتخابات میں کوئی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکی۔ بیلٹ بکس ججوں کی نگرانی میں ہونے نے " معیاری اور اصولی" حیثیت کی حامل ڈیموکریٹ پارٹی کو صاحب اقتدار بنا دیا۔

مقامی عوام نے حکومت و اقتدار سے بڑے ہی سادہ مطالبات کیے۔ کہ مقابلوں کے اصول و شرائط کا پہلے سے ہی تعین ہونا چاہیے۔ میچ کے دوران اصولوں میں تبدیلی نہ کی جائے۔ فٹ بال کے ساتھ شروع ہونے والے کسی میچ کو انہوں نے رگبی کے طور پر جاری رکھنے کی خواہش ظاہر کی۔ یہ خواہش جدوجہد کے نئے شعبوں ، طرز اور آلہ کار سے متعلق اصولوں اور اخلاقی اقدار کا تعین کرنے کی خواہش در اصل طویل عرصے سے جاری غیر متوازن جنگ کو توازن میں بدلنے کا موجب بنی۔

اس صورتحال کو بھانپنے والوں نے اپنے اثر رسوخ میں کمی نہ لانے کے زیر مقصد ہمیشہ اپنے خریف کو کمزور بنانے والے کسی " طریقہ کار" کو اپنے ہاتھ میں رکھنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ تا ہم ڈیموکریسی سے متعلق ہر گزرتے دن اضافہ ہونے والے مطالبات اور مذکورہ قدامت پسند وں میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں نے یعنی اناطولیہ کے روشن خیال بننے کے طور پر بھی نام دیے جا سکنے والی ایک نئی دنیا کو جاننے اور "میں" کا جائزہ لینے کے عمل نے انہیں ایک سادہ خریف کی حیثیت سے خارج کر دیا۔ اب انہوں نے بتدریج ایک طاقتور سیاسی تحریک کی حیثیت حاصل کر لی۔ جس نے فطری طور پر اس طبقے کے وقت و مقام کے مطابق تغیر آسکنے والے غیر مادی ڈر پر دباو ڈالے جانے کے عمل نے بتدریج کٹھن ماہیت اختیار کر لی۔

یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے شعبہ سوشیالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر مظہر باعلی کا مندرجہ بالا موضوع پر جائزہ ۔۔۔۔۔

آج ہم جس مقام پر ہیں وہاں پر اس چیز کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ کسی سماجی انجنیئرنگ منصوبے کے پیچھے دوڑنے والوں کی اس ملک کے مسائل کو حل کرنے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ کسی چوٹی سے نیچے اترنے والوں کو ہمیشہ مات ہوئی اور یہ لوگ مستقبل کے کسی نکتہ نظر کو تخلیق دینے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ ان کے پاس اپنے سماج کے سامنےوعدہ کر سکنے والے خوابوں کا ذخیرہ ختم ہو چکا تھا۔ کیونکہ سیاسی جدوجہد میں ناکامی کی بنا پر یہ لوگ کسی معینہ اداکار کی حیثیت سے دور ہٹتے چلے گئے۔

جو جیتتا ہے وہی اصول بناتا ہے، یہ چیز ایک حقیقت ہے۔

عوام نے سرپرستی کے خلاف اپنی جنگ میں کامیابی حاصل کی، جس کے بعد انہوں نے اپنے اصولوں کو خود وضع کرنا شروع کر دیا۔ مختصراً مقامی ( فطری شناخت کے حامل ثقافتی اقدار کی جانب سے تعین کردہ سیاسی اصولوں کو اپنانے والے) اور مغرب نواز ( موجودہ فطری شناخت میں یکسانیت پیدا کرتے ہوئے اس کی جگہ قومی بنیادوں پر کسی شناخت کی نشاط کرنے والے ترک ۔ کرد قومیت پسند لوگ) کے ناموں سے منسوب کردہ دو فریقین کے درمیان تقریباً دو سو برسوں سے جاری جدوجہد اور جنگ میں مقامی لوگ واضح طور پر سرخرو ہوئے ہیں۔

جی ہاں ایک جنگ میں کامیابی حاصل کی گئی۔ تا ہم فتح حاصل کردہ اس دعوے کو آئندہ کی نسلوں تک پہنچانے کے لیے دو بنیادی شعبوں پر توجہ دینا لازمی ہے۔ پہلی چیز اخلاقی اقدار کا سنگ بنیاد رکھتے ہوئے انہیں مقبول عام کرنا جبکہ دوسری چیز انصاف کا قیام ہے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں " انصاف کا ترازو" قائم کرنے اور معاشرے کو مستقبل کی جانب لیجانے والے کسی روڈ میپ کا تعین کرنا لازمی ہے۔ یہ ایک تاریخی ذمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انسانی اور اسلامی فرض بھی ہے۔ وگرنہ ہم سب اسی تاریخی ذمہ داری کو پورا نہ کرنے کا حساب نہ اس دنیا میں اور نہ ہی روز ِ آخر کے بعد کی دنیا میں چکا سکیں گے۔



متعللقہ خبریں