صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے قلم سے

صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے قلم سے

428264
صدارتی ترجمان ابراہیم قالن کے قلم سے
ibrahim kalın.jpg

شامی پناہ گزینوں کیصورت حال نےترکی اور یورپ کے درمیانایک نیاسیاسی اور انسانی ولولہ پیدا کر دیا ہے۔

علاوہ ازیںشام کی نا جائز اوربے رحم خانہ جنگیکے نتیجے میںفرار ہونے والے شامیوںنے اپنی زندگیاں محفوظ بنانے کےلیےخود کو در پیشمشکلات کا سامناکرنا اور مصائب جھیلنا بھیجاری رکھا ہوا ہے۔

ترکی میں اس وقت عرا ق شام سے آنے والےمہاجرین کی تعداد دو ملین کے لگ بھگ ہےجن کی اخلاقی و انسانی مدد کرنا ترکینے اپنا دینی وسماجیفریضہسمجھا ہے۔

اقوام متحدہکے پناہ گزینوں کے ادارےکے بیان کی طرحعالمی جنگ عظیمدوئم کے بعد انسانی ہجرت کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے جس کےلیےہمیںدنیا سے مزید مدد درکار ہے ۔

صدررجب طیب ایردواننے اس موضوع کے حوالے سے گزشتہ ہفتے یورپی سربراہوںسے بات چیت کےلیے برسلز کیراہ لیتھی جہاں انہوںنےیورپی کونسل کے صدر ڈونالڈ ٹسک ،یورپی کمیشن کے صدر یاں کلاڈ ینکر ،یورپی پارلیمانیاسپیکر مارٹن شولزکے ساتھگفتگو میںصدر ایردوان نےاس بحران کےانسانی ،سماجی اور مالی پہلووںپر روشنی ڈالتے ہوئےترک یورپمشترکہ اموری گروپ قائم کرنےکا فیصلہ کیا ۔

باور رہے کہ ،ترکی اور جرمنینے شاماور دیگر ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کے ریلے کو منظم کرنے کےلیےاس سے پیشتر ایک اموری گروپ قائم کر رکھا تھا ۔

ترکی۔یورپی یونیناموری گروپ اس سلسلے میں پناہ گزینوں کے اس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے لیےبعض اقدامات اختیار کرے گا جس سےیہ مسئلہ تصفیہ طلب بن جائے۔

اسحوالے سے ینکر نےکہا کہہمیںیہ ماننا پڑے گا کہاس موضوع پر یورپ کو ترکی کی ضرورت ہےجو کہ اس بات کا ثبوت ہےکہیورپ اس وقتایک بے بسی کے دور سے گزر رہا ہے ۔

اسی حوالے سے سات اکتوبر کوجرمن چانسلر مرکل اور فرانسیسی صدر اولاند نےیورپی پارلیمان سے اپنے مشترکہ خطاب کے دوراناس بات کی ضرورت پر زور دیا کہیورپ ممالک کوپناہ گزینوں کے مسئلے کو مجموعی طور پر حل کرنا چاہیئے۔

صدر اولاند کا کہنا تھا کہہمیں یک جہتی ، احساس ذمہ داریاور پر عزمارادے سےیورپ کا دفاع کرنا چاہیئے جبکہ مرکل نےترکی کے اس حوالے سے کلیدی کردار کو اہمیت دیتےہوئےمزید اعانت فراہم کرنے کا عندیہ دیا۔ یورپپر یہ عیاں ہوتا جا رہا ہے کہ اس مسئلے پرہمیںمزید تعاوناور رابطے درکار ہیںاور یہ ترکیکے بغیر ممکن نہیں ہے ۔

دور حاضر میںدو ملین شامیپناہ گزینوں کو حکومت ترکی نےمہاجرکیمپوںاور ملک کے دیگر شہروں میں آباد کر رکھا ہے جن کی امداد میں حکومت،سماجی تنظیمیںاور مخیر حضرات پیش پیشہیں۔

پناہ گزینوں کے ادارے کیحالیہ رپورٹ کے مطابقیورپی ممالککی طرف سےفراہم کردہ امدادکافی محدود نوعیت کی ہے ۔

اب روس نے جو شام پرحملے شروع کر رکھے ہیں اس سے یہ لگتاہے کہوہاں سے پناہ گزینوںکے مزید قافلوں کی ترکی اور یورپکی طرف آمد ناگزیر نظر آتی ہے۔

اس وقت اس مسئلے کے حل کےلیےتیناحتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت ہےجس میں پہلی تو یہ ہے کہیورپی ممالکاپنی بحری اور بری حدودکے راستے آنے والے پناہ گزینوں کی آباد کاریکےلے آپس میںرابطہقائم کریں ۔ یورپ پناہ لینے والے مہاجرینپر بلاجنسی امتیاز تشدد اور آنسو گیس کے استعمال کو روکا جائے۔یورپ کی بعضسماجی تنظیمیںان پناہ گزینو ں کی مدد کےلیے سرگرم عمل نظر آتی ہیںجنہیںمقامی حکومتوں کی حمایت کی ضرورت ہے ۔

ان پناہ گزینوںکی مخالفت میںیورپکے بعض غیرملکی دشمنی پر مبنی گروپوں کو ذرااپنے اس خطے کے ماضی کی جانب نظر دوڑاتے ہوئے ان پناہ گزینوں کے خلافزہر اگلنے سے پرہیز کرناچاہیئے۔

دوسرییہ کہترکی اور یورپی یونین کے مابینرابطے اور تعاونکوبڑھانے کی ضرورت ہےاس حوالے سے ایکمشترکہکمیشن قائم کیا گیا ہےجس نےاپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کر دی ہیں۔

اسصورت حالکے پیش نظر یورپ کو ماضی کے مقابلے میں ترکی کی زیادہ ضرورت ہےاور ایک دوسرے پر ان پناہ گزینوںکے بوجھ کو مشترکہ طور پربرداشت کیا جائے نہ کہ ایک دوسرے پر الزام تراشیاںجاری رکھی جائیں ۔

ان باتوں سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہترکی کی مدد سے یورپی ممالک اس مسئلے سے با آسانینبٹ سکیں گے۔

صدر ایردوانکےدورہ بیلجیئم کے دورانترکی کی یورپی یونین میںشمولیت پر مبنی مذاکراتمیں تیزی لاتے ہوئے ترک شہریوں کو بلا ویزے یورپ کی سیاحتسے متعلق ایک جامع پیکیج پر بھیغورکیا گیاجو ترکی کےشانوں پر پڑے اس بوجھ کو ہلکاکرنے میںمعاونثابت ہوگاجو کہ یورپ کے بھی مفاد میں ہوگا۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہشام میں اسد نواز حکومتکی جانب سےشروع کردہ خانہ جنگی اور اس کے نتیجے میںپناہ گزینوں کاسیلاب،گیس بموںکیمیائی اسلحے اور داعشسے راہ فرار اختیار کرتےہوئےترکی میں پناہ لے رہا ہے جس سے ہماری مشکلاتبھِ بڑھتی جا رہی ہیں۔

اور ابروساور ایرانیفوج بھیاس جنگ میںشامل ہوتےہوئے اسد نواز اقتدارکا دفاع کرنے سمیت اسےمالی و عسکری امداد فراہم کر رہی ہےجو کہ اس بحران کو مزیدگہرا اور پیچیدہ کردے گا۔

لہذا اس سلسلے میںتیسری تدبیر تو یہہونی چاہیئے کہاس خطرناک صورت حال کو ختم کرنے کےلیےترکی اور یورپی یونینکے درمیان قائم کمیشنسے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے ۔

کیونکہ ہمارییہ پختہیقین ہے کہ دوسروں کی مدد کرنے سےاپنی مدد کرنا بھی بعض اوقات ممکن ہوجاتاہے۔



متعللقہ خبریں