اسلامی تعلیمات 05

ایمان بالملائکہ اور اس کی اہمیت

427714
اسلامی تعلیمات 05
Şah-Çerah-1024x576.jpg

ایمان بالملائکہ اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔

ملکلفظ اور اس کی جمع ملائکہ اور ملائک ہے، اس کے لغوی اور لفظی معنی مالک ہونا، فرشتہ، ملکیت اور اقتدار ہیں، اس کے علاوہ اس میں تصرف، قدرت اور امر کا معنی بھی پایا جاتا ہے۔ لفظ ملائکہ آسمانی ارواح کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی امر یا کام ان کے سپرد کیا جاتا ہے، اس وجہ سے ان کو ملائکہ کہتے ہیں۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کا پیغام اس کے مقبول بندوں تک پہنچانے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ وہ لطیف اور نورانی مخلوق ہیں اور عام انسان انہیں نہیں دیکھ سکتے۔ بعض کم فہم لوگ فرشتوں کے خارجی وجود کا انکار کرتے ہیں اور ان قرآنی آیات کی تلاوت جن میں فرشتوں کا ذکر ہے مجرد قوتوں کے طور پر کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایسے تصورات گمراہی پر مبنی ہیں۔ ملائکہ احکامِ الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق ہے۔ ان کے وجود اور ان سے متعلقہ تفصیلات کو ماننا ایمان بالملائکہ کہلاتا ہے

فرشتوں کی کوئی خاص صورت نہیں، صورت اور بدن ان کے حق میں ایسا ہے کہ جیسے انسانوں کیلئے ان کا لباس، اللہ تعالیٰ نے انھیں یہ طاقت دی ہے کہ جو شکل چاہیں اختیار کر لیں۔ ہاں قرآن شریف سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان کے بازو ہیں، اس پر ہمیں ایمان رکھنا چاہیے۔

یوں تو اللہ تعالیٰ نے بے شمار فرشتے پیدا فرمائے ہیں، تاہمیہ فرشتے زیادہ مشہور ہیں:

1.حضرت جبرائیل علیہ السلام: ان کے ذمہ پیغمبروں کی خدمت میں وحی لاناہے۔

2.حضرت میکائیل علیہ السلام: ان کے ذمہ بارش برسانے اور خدا کی مخلوق کو روزی پہنچانا ہے۔

3.حضرت اسرافیل علیہ السلام: ان کے ذمہ قیامت کے دن صور پھونکنا ہے۔

4.حضرت عزرائیل علیہ السلام: ان کے ذمہ روح قبض کرنے یعنی لوگوں کی جان نکالنے کی خدمت سپرد کی گئی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے ملائکہ کی سرشت میں کامل اطاعت کا پہلو رکھا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق کائنات کے مختلف امور سرانجام دیتے ہیں اور از خود کوئی قدرت نہیں رکھتے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:


وہ اپنے رب سے جو اُن کے اوپر ہے ڈرتے رہتے ہیں اور جو حکم انہیں دیا جاتا ہے اسےبجا لاتے ہیں۔


جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کی ہلاکت کا ارادہ کرتے ہیں تو حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنے دشمنوں کے خلاف جنگ میں مدد پر مقرر کر دیتے ہیں۔ حفاظت، بارش اور زمین کے نباتات حضرت میکائیل کے سپرد ہیں۔ ملک الموت کے سپرد ارواح قبض کرنا ہے، پس جب دنیا ختم ہو گی تو لوگوں کے اعمال ناموں کو جمع کیا جائے گا اور ''اُمُّ الکتاب'' کے ساتھ تقابل کیا جائے گا تو یہ مدبرین دنیا ان اعمال ناموں کو ام الکتاب کے موافق پائیں گے۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :


بلاشبہ حضرت اسرافیل جب سے صور پھونکنے پر مقرر ہوئے ہیں تب سے تیار ہیں۔ عرش کے اردگرد اس خوف سے نظر کر رہے ہیں کہ انہیں نظر جھپکنے سے قبل حکم نہ دے دیا جائے، اس کی دونوں آنکھیں چمکدار ستاروں کی مانند ہیں۔

انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے کراماً کاتبین ہیں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ تم پر نگہبان فرشتے مقرر ہیں جو بہت معزز ہیں وہ تمہارے اعمال نامے لکھنے والے ہیں۔ وہ ان تمام کاموں کو جانتے ہیں جو تم کرتے ہو۔

کراماً کاتبین دو فرشتے ہیں ان میں سے ایک اس انسان کی دائیں طرف ہوتا ہے جو نیکیاں تحریر کرتا ہے اور ایک اس کے بائیں طرف ہوتا ہے جو برائیاں لکھتا ہے۔

ارشاد خداوندی ہے کہ :

جب دو فرشتےانسان کے ہر قول و فعل کو تحریر میں لے لیتے ہیں (جو) دائیں طرف اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ منہ سے کوئی بات نہیں کہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان لکھنے کے لیے تیار رہتا ہے۔




متعللقہ خبریں