ترکی کی امدادی سرگرمیاں - 1

ترکی میں شامی مہاجرین کے لئے 'مہمان' کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے اور تقریباً گذشتہ5 سالوں سے ترکی شام سے آنے والے اڑھائی ملین کے قریب مہمانوں کی میزبانی کر رہا ہے

426994
ترکی کی امدادی سرگرمیاں - 1

پروگرام " ترکی کی امدادی سرگرمیاں" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ ترکی میں شامی مہاجرین کے لئے 'مہمان' کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے اور تقریباً گذشتہ5 سالوں سے ترکی شام سے آنے والے اڑھائی ملین کے قریب مہمانوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ ان مہمانوں کی مثالی میزبانی کرنے والے ترک عوام نے برادر شامیوں کے لئے اس وقت تک جو کام کئے ہیں ان میں سے بعض کو ہم، ترک ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کے جائزوں کے ساتھ آپ کی خدمت پیش کر رہے ہیں۔

اب سے تقریباً 700 سال قبل کہی گئی ایک بات آج بھی اسی قوت کے ساتھ لاگو ہو رہی ہے۔ مثلاً ابن خلدون نے کہا تھا کہ "جغرافیہ انسان کی تقدیر ہے"۔ اس بات کی گہرائی کو آج شامیوں سمیت مشرق وسطی کی عوام پوری شدت سے محسوس کر رہے ہیں اور یہ بات ان کی زندگیوں سے نمایاں ہو رہی ہے۔ شمالی یورپی ممالک میں سے کسی ملک میں ، مثال کے طور پر ناروے میں مقیم ایک باپ کا اپنے بچے کے لئے سب سے بڑا خوف بچے کا سڑک پر کسی گاڑی سے ٹکرا جانا ہو سکتا ہے ۔یا پھر باپ بچے کے بےروزگار رہ جانے کا خوف محسوس کر سکتا ہے۔ یا پھر ناروے میں ایک ماں اپنے بچے کی پسندیدہ کسی چیز کی فروخت بند ہو جانے پر افسردگی محسوس کر سکتی ہے۔ ناروے کے ایک بچے کی پریشانی اسکول بس کا لیٹ ہو جانا ہو سکتی ہے۔

لیکن جب بات شام کی ہو تو شام میں ایک باپ ہر طیارے کی آواز سے پریشان ہو جاتا ہے۔ توپ کی ہر آواز اس کے لئے اپنے پیاروں سے محروم ہو جانے کا احتمال ہو سکتی ہے۔ شام میں ایک ماں اپنے بچوں کو بھوکا سُلانے کی اذیت سے گزر رہی ہے۔ ایک شامی بچے کے لئے ہر جگہ موت ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ جہاں وہ قدم رکھ رہا ہے وہاں بارودی سرنگیں دبی ہوئی ہیں ، سر کے اوپر سے گزرنے والے طیارے گولے برسا رہے ہیں اور جس گلی میں وہ بھاگ دوڑ رہا ہے وہاں کسی بھی طرف سے کوئی اندھی گولی اسے لگ سکتی ہے۔ یعنی جغرافیہ انسان کی تقدیر ہے۔۔۔ اور اس تقدیر سے فرار کے لئے ایک شامی کنبہ کیا کرتا ہے۔ ضرورت کی چند اشیاء اٹھاتا ہے اور سینکڑوں سالوں سے اپنے لئے بازووں کو کھولے ہوئے جغرافیہ اناطولیہ کا رُخ کرتا ہے۔ ان مہاجرین کے لئے اناطولیہ نے دوبارہ سے اپنی آغوش وا کی اور ایک ماہ یا ایک سال نہیں پورے پانچ سالوں سے مہانوں کی طرح ان کی آو بھگت کر رہا ہے۔

ترکی کے نائب وزیر اعظم یالچن آق دوعان نے رائے عامہ کو شامی مہمانوں کے بارے میں تازہ معلومات سے آگاہ کیا۔ نائب وزیر اعظم کی فراہم کردہ معلومات کے مطابق ترکی کے شامی مہمانوں کی تعداد 2 ملین 4 لاکھ 7 ہزار افراد جبکہ دیگر ممالک سے آ نے والے مہاجرین کو بھی شامل کرنے سے یہ تعداد 2 ملین 4 لاکھ 95 ہزار افراد تک پہنچ گئی ہے۔ پوری شامی سرحد پر قائم کردہ 20 سے زائد کیمپوں میں ترکی کے 2 لاکھ 76 ہزار مہمان مقیم ہیں۔ ترکی ان مہمانوں کی بھی ہر طرح کی ضروریات کو پورا کر رہا ہے۔ رہائش کے ساتھ ساتھ خوراک، صحت، تعلیم یہاں تک کہ نفسیاتی ضروریات کو بھی پورا کیا جا رہا ہے۔

پانچ سال سے ترکی میں مہمان بنائے گئے شامیوں کے ہاں ایک لاکھ سے زائد بچوں کی پیدائش ہوئی۔ ان بچوں نے ترکی میں آنکھ کھولی۔ ترک عوام کی گرمجوش مرحمت کے ساتھ انہوں نے دنیا میں قدم رکھا اور جس کمبل میں پہلی دفعہ انہیں لپیٹا گیا بہت ممکن ہے کہ وہ کمبل انہیں ترکی ہلال احمر کی طرف سے دیا گیا ہو۔ صرف ان بچوں کی تعداد ہی ان مہاجرین کی تعداد سے زیادہ ہے کہ جنہوں نے یورپی ممالک کو حواس باختہ کر دیا ہے۔

نائب وزیر اعظم یالچن آق دوعان کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق اسکول کی عمر تک پہنچنے والے شامی مہمان بچوں کی تعداد 6 لاکھ 25 ہزار ہے۔ اس وقت ان بچوں میں سے 3 لاکھ بچے ترک اسکولوں میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ موضوع خاص طور پر ایک نسل کے جاہل رہنے کے راستے میں رکاوٹ بننے کے حوالے سے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے علاوہ 3 لاکھ بچے بشار الاسد جیسی ڈکٹیٹر حکومت کے علاوہ دیگر انتظامی شکلوں کی موجودگی کا بھی مشاہدہ کر رہے ہیں۔ نئے تعلیمی سال میں اس تعداد کو 4 لاکھ 60 ہزار بچوں اور اس کے بعد تمام بچوں کو اپنے دائرے میں لینے کی حالت میں لایا جائے گا۔ شامی بچے اب اپنی مادری زبان کے ساتھ ساتھ ترکی زبان بھی بولیں گے۔ اس طرح جب حالات معمول پر آئیں گے تو ترکی کی محبت دلوں میں بسائے ایک نئی نسل بھی سامنے آئے گی۔

جغرافیہ تقدیر ہے۔۔۔۔ اسے اس حوالے سے بھی دیکھیں کہ ترکی کی مہمان نوازی تک رسائی حاصل کر سکنے والے شامی خود کو خوش قسمت خیال کر تے ہیں ۔ایک سروے کے مطابق شامی سب سے زیادہ ترکی پر اعتماد کرتے ہیں۔ جغرافیائی طور پر ترکی سے قریب ہونے کو اپنی خوش قسمتی خیال کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ اردن، لبنان اور عراق جانے والے شامی ہیں۔ اپنے گھر بار کو ترک کر کے کسی دوسرے ملک جانے والے شامیوں کی تعداد4 ملین سے زائد ہے۔ جبکہ 7 ملین شامی اپنے ہی ملک میں مہاجرین کی حالت میں ہیں۔ لیکن یہ ایسے مہاجرین کہ جنہیں نہ تو مطلوبہ پیمانے پر صحت کی سہولت میسر ہے نہ تعلیم کی اور نہ ہی نفسیاتی تعاون کی۔

آق دوعان نے کہا کہ ترکی میں موجود تمام شامیوں کی صحت کو تحفظ میں لیا گیا ہے، اس وقت تک 10 ملین پولی کلینکوں سمیت 11 ملین ہیلتھ سینٹر خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ اس طرح بچوں کی اموات کا بھی سدباب کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس بڑے پیمانے کے انسانی بحران میں ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ترک عوام کی رگوں میں سلطنت عثمانیہ کا خون گردش کر رہا ہے۔ اس خون کی سب سے بڑی خصوصیت مظلوم کی حمایت کرنا ہے۔ ترک عوام پورے 5 سال سے اپنے دستر خوان سے کھانے کی ایک پلیٹ اپنے شامی مہمانوں کو دے رہے ہیں۔ اگر اپنے بچے کے لئے ایک لباس خرید رہے ہوں تو مہمان کے بچے کے لئے بھی ایک لباس خرید رہے ہیں۔ گلی میں اگر کوئی بچہ سردی سے ٹھٹھرتا دیکھا تو ترک عوام بھی اس کے ساتھ ٹھٹھرے ہیں۔ اگر کسی بچے کو بھوکا دیکھا تو محسوس کیا کہ جس ہم بھی پیٹ بھر کر نہیں سو سکیں گے۔

جی ہاں ۔۔۔ ابن خلدوں کے الفاظ کے مطابق "جغرافیہ انسان کی تقدیر ہے"۔ پھر یوں سوچیں کہ اگر یہ بحران ان ممالک کی سرحد پر پیش آتا جو کہتے ہیں کہ ہم ان مہاجرین کو قبول نہیں کریں گے جو عیسائی نہیں ہیں تو کیا ہوتا۔

شام میں درپیش اس بڑے پیمانے کے انسانی المیے کے مصائب کا مداوا کرنے کے لئے ترکی کی طرف سے جاری کاروائیوں کے ایک حصے کو ترکی ہلال احمر کے پریس مشیر صلاح الدین بوستان کے جائزوں کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا ہے۔



متعللقہ خبریں