ترکی کا افق نو ۔05

ترکی کا افق نو ۔05

426204
ترکی کا افق نو    ۔05

17 دسمبر 2010 میں تیونس کے ایک خوانچہ فروش نوجوان طارق ال طیب محمد بو عزیزی کی خود سوزی کے بعد شروع ہونے والی عوامی تحریکوں کے بعد مشرق وسطیٰ میں اہم تبدیلیاں عمل میں آ نے لگیں ۔ ان تبدیلیوں کا عالمی طاقت کے توازن کی نئے سرے کی تشکیل کی نظر سے جائزہ لیا جا سکتا ہے ۔ طاقت کے توازن کی دوڑ کے اس دور میں قدرتی طور پر متعدد اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ۔ عالمی محور میں تبدیلی کے دور میں کسی بھی ایکٹر نے عدل و انصاف، مساوات اور جہاں شمول عالمی اقدار کی طرف توجہ نہیں دی ۔ بلاشبہ اسوقت ایک نئی دنیا معرض وجود میں آ رہی تھی اور اس دنیا کے مزید عادل ہونے کی توقع نہیں تھی کیونکہ دو ھرے موقف کے فلسفے سے پنپنے والے نظریات کو شکل دینے کی سیاست سر گرم عمل تھی ۔

جدید دنیا کے نظریاتی ماحول کو تشکیل دینے والی تجاویز اور موجودہ دنیا کے نظریات کوتشکیل دینے والے ایک ہی جیسے عناصر ہیں ۔ تبدیلی صرف ثقافتی کوڈز میں آئی ہے ۔ نظریات، فلسفے اور بنیادی موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔ حالانکہ وجودہ دور کے مسائل جدید نظریات کو انسانی میٹا فزکس سے دور رکھتے ہیں ۔ ترکی اور جوار کے علاقوں کے اس دوھرےموقف سے متاثرہونے کی مثالیں موجود ہیں ۔ بے اصولی اور دوھرے موقف کے ماحول میں ترکی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ ان حالات کیخلاف بغاوت کے وقت انسانوں کو اس کا نعم البدل چکانے کا خواہشمند ایک اتحاد موجود ہے ۔ اسوقت شام میں ایران، روس ،امریکہ جرمنی ،فرانس، چین اور پی کے کے کا اتحاد نظر آتا ہے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ممالک ترکی سے کینہ پروری کیوجہ سے آپس میں یکجا ہوئے ہیں تو غلط نہیں ہو گا ۔ انسان کو انسان بنانے والی اقدار کے برعکس ذاتی مفادات اس علاقے پر حاکمیت قائم کیے ہوئے ہیں ۔ اس صورتحال کیخلاف بغاوت کرنے والوں اور اس میں تبدیلی لانے والے ہر قدم کو اپنے چنگل میں لینے والا ایک سسٹم موجود ہے ۔ ان حالات کے پیش نظر انسانوں کے بارے میں کوئی پلان تیار کرنے کی ضرورت ہے ۔

سامعین یلدرم بیاضت یونیورسٹی کے ہیومین ٹیز اور سوشل سائنسز کے فیکلٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر مظہر باع لی کا اس موضوع پر جائزہ

جب تک نظریات نہیں بدلتے روز مرہ کی زندگی میں عملی تبدیلیوں میں پائدار تبدیلی نہیں آ سکتی ۔ علم کی سوشیالوجی، علمی سسٹم اور معلومات کی اقسام کیساتھ معاشرے کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیتی ہے ۔ اس بارے میں یہ نظریہ عام ہے کہ معلوماتی سسٹم دن بدن انسانوں میں ایک کریکٹر کی شکل میں تبدیل ہو رہا ہے ۔ بو عزیزی کی ہلاکت کے بعد ہر شخص تشکیل دئیے جانے والے نئے سسٹم میں اپنی موجودگی کی جدوجہد کو جاری رکھے ہوئے ہے ۔ عالمی خارجہ پالیسی سسٹم کا بنیادی اصول، وضح شدہ اصولوں اور عمل درآمد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے ۔ یہ صورتحال موجودہ انسانی المئیے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے اور اس پر اعتراض کرنا انسانی فریضہ ہے ۔ یہ جملہ کہ " دنیا اقوام متحدہ کے پانچ مستقل اراکین پر منحصر نہیں " دراصل اس میکانزم کیخلاف ایک اعتراض ہے اور اس اعتراض کا بدل بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔ اسوقت دہشت گردی کیساتھ اس اعتراض سے روکنے کے لیے ایک خفیہ قوت سر گرم عمل ہے لیکن یہ سسٹم ناقابل عمل ہے اور ایک نئی دنیا قائم ہو رہی ہے ۔ پرانے سسٹم کو جاری رکھنے والوں اور نئی دنیا قائم کرنے والوں کے درمیان کشمکش ترکی میں بھی پائی جاتی ہے ۔ ترکی ماضی سے ان معاملات کے اپنے لیے سر درد بننے کی معاشرتی حساسیت کا مالک ہے ۔یہ حساسیت ایک سسٹم میں تبدیل ہونے کا امکان رکھتی ہے ۔ نیا ترکی معاشرتی حساسیت کو سیاسی منصوبے میں بدلتے ہوئے انتظامیہ میں اس کی عکاسی کرنے کا ہدف رکھتا ہے ۔ترکی جدید پالیسیوں اور کوششوں کی بدولت بو عزیزی کی ہلاکت سے شروع ہونے والی تبدیلیوں سے منفی لحاظ سے متاثر نہیں ہوا ہے ۔ وہ مستقبل میں بھی پیش آنے والے منفی حالات کی روک تھا م کرنے والا ایک سسٹم تشکیل دینے کا خواہشمند ہے ۔ترکی کا یہ تصور اس جغرافیے کو ایک انصاف کا جزیرہ بنا ئے گا ۔ بلاشبہ اس تصور کو حقیقت کا روپ دینا کوئی آسان کام نہیں ہو گا لیکن ترکی مختلف اقوام کے امن اور بھائی چارے کیساتھ زندگی گزارنے والا ایک ملک بننے کا خواہشمند ہے ۔اس وقت ہمارے جغرافیے میں انتہائی اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو ترکی کے اس علاقے میں مستقبل میں ایک اہم ایکٹر بننے کے لیے انتہائی اہمیت رکھتی ہیں ۔



متعللقہ خبریں