عالمی ایجنڈا۔155

412796
عالمی ایجنڈا۔155


حالیہ چند برسوں سے مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام میں انتہائی المناک واقعات رونما ہو رہے ہیں ۔ خاصکر خانہ جنگی کے شکار ممالک شام ،عراق، لیبیا اور یمن ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی دہلیز پر پہنچ گئے ہیں ۔ شام کی خانہ جنگی سے ملک میں بر سر پیکار گروپوں اور حکومت کے زیر کنٹرول علاقے تقسیم ہونے کے خطرے سے دو چار ہیں۔ عراق کو شمالی ،وسطی اور جنوبی حصوں میں تقسیم کا خطرہ لاحق ہے ۔لیبیا کے معزول لیڈر معمر قذافی کی ہلاکت کے بعد ملک میں حکومت اور مخالفین کی حکومتیں قائم ہیں اور ایک دوسرے کیساتھ جنگ کر رہے ہیں ۔یمن میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے ۔حکومت یمن اور حطسیوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں اور انھوں نے مختلف علاقوں کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے ۔منقسم فلسطین کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔اس صورتحال نے علاقے میں خوف وہراس کا ماحول پیدا کر رکھا ہے ۔ اگر مشرق وسطیٰ کے ممالک کو درپیش ان مسائل کو حل نہ کیا جا سکا تو ممالک کا چھوٹی چھوٹی مملکتوں میں تقسیم ہونے کا احتمال موجود ہے ۔
علاقے کے تمام ممالک 20 ویں صدی تک امویوں عباسیوں ،سلجوقیوں اور عثمانیوں جیسی عظیم سلطنتوں کے اندریکسانیت کے جغرافیے کا ایک حصہ تھے ۔ ان سلطنتوں کے اندر اتحاویکجہتی کیساتھ زندگی گزارنے والی اقوام 20 صدی میں آزاد مملکتوں میں تقسیم ہو گئیں لیکن 21 ویں صدی میں یہ مملکتیں چھوٹی شہری مملکتوں میں تقسیم ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں علاقے میں نئی سرحدیں بنیں گئیں اور طاقت کے توازن کی جنگیں شروع ہو جائیں گی ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔۔۔
۔۔۔دیگر مسلمان ممالک میں بھی تقسیم کے رجحان کی کیسے روک تھا م کی جا سکتی ہے اور موجودہ صورتحال سے کیسا سبق سیکھا جا سکتا ہے ۔ ان سوالات کے مثبت اور منفی جواب دئیے جا سکتے ہیں ۔ منفی جواب کا تعلق 17 اور 18 ویں صدی میں یورپ کیطرح کئی سال تک جاری جنگوں اور خوف و ہراس سے ہے ۔عالمی تاریخ میں 30 یا 100سالہ جنگوں کے نام سے یاد کیے جانے والے کھیتولک دور کو اب اسلامی جغرافیے میں دیکھا جا رہا ہے ۔ اگر اسلامی ممالک کی موجودہ صورتحال کو 1970 کے برسوں میں لبنان اور 1980 کی دھائی میں ایران عراق جنگوں کے دوام کی نظر سے دیکھا جائے تو علاقہ 40 سال سے جنگ کی لپیٹ میں ہے ۔ یہ منفی صورتحال مسائل کو سنجیدگی سے حل نہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے ۔ بد قسمتی سے اسوقت بھی مسلمان ممالک کے اس گرداب سے نکلنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ہے۔ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے نہ سربراہان ،نہ ماہرین اور نہ ہی دانشور نئے نظریات کو سامنے لا رہے ہیں ۔ ایک زمانے میں بعض اسلامی ممالک نے علاقائی ،اقتصادی اور سیاسی تعاون اور یکجہتی کے لیے جو نظریات پیش کیے تھے انھیں فراموش کیا جا چکا ہے اور ان منصوبوں کو پیش کرنے والے انسانوں کی امیدوں دم توڑ چکی ہیں ۔ اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تشکیل دی جانے والی اسلامی تعاون تنظیم ناکارہ ہو چکی ہے کئی میلین ڈالر خرچ کرتے ہوئے اور سالہا سال کی کوششوں سے وجود میں لائی جانے والی یہ تنظیم اپنے اراکین کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ مسائل کے حل کے لیے اس کے پاس کوئی تجویز تک نہیں ہے ۔ مسلمان ممالک تاریخ اسلام کے بد ترین دور سے گزر رہے ہیں ۔ مسلمان ممالک تقسیم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ وہ اس بڑے خطرے کیطرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں ۔
مسلمان ممالک ایک دوسرے سے لاتعلق ہیں ۔ان کامشترکہ مفاد اور وجود کا شعور بھی کمزور ہو گیا ہے ۔دس میلین شامی مہاجرین کی زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن ڈیڑھ ارب مسلمانوں میں سے کتنے انسان اس المئیے کیطرف متوجہ ہیں ۔ صرف ترکی اور لبنان شامی مہاجرین کو پناہ دے رہاے ہیں ان کی مدد کر ر ہے ہیں ۔
بلاشبہ موجودہ صورتحال کا مثبت نظر سے جائزہ لینے کے امکانات بھی موجود ہیں ۔ شامی مہاجرین کے المیئے اور شام کی صورتحال پر بے چینی محسوس کرنے والے انسانوں کی تعداد بھی کم نہیں ہے ۔ اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے بعض منصوبوں پر کام ہو رہا ہے ۔منفی شرائط کے باوجود نیک نیتی پر مبنی نظریات بھی پائے جاتے ہیں ۔
تمام تر مسائل کے باوجود مسلمان ممالک میں نئے دور کے آغاز کی امیدیں پائی جاتی ہیں ۔ جس طر ح یورپ یورپی یونین تشکیل دے کر جنگوں کو روکنے میں کامیاب ہوا تھا مسلمان ممالک بھی اس سے ملتا جلتا حل تلاش کر سکتے ہیں کیونکہ عالم اسلام میں کئی یورپی ممالک سے زیادہ متحرک، نوجوان اور خواہشمند انسان موجود ہیں ۔ اسلامی ممالک کے عوام اور دانشوروں ،میڈیا اور دیگر عناصر کیطرف سے نئےحل کی تلاش ناگزیر ہے کیونکہ کوئی بھی میکانزم ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنے کا تحمل نہیں رکھتا ۔ مسلمان بھی حالیہ صورتحال کا ہمیشہ خاموش تماشا نہیں دیکھ سکتے ۔ مسلمان سوشیالوجی اور انسانی نفسیات اس ضمن میں نئے نظریات سامنے لانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔ دانشور اور شہری تنظیمیں شامی مہاجرین کے زخموں پر مرہم رکھنے اور مستقبل میں اس قسم کے المیوں کا حل تلاش کرنے کے لیے سر گرم عمل ہیں ۔ مہاجرین کی مالی اور اخلاقی حمایت کرنے والے علاقائی مسائل کو جڑوں سے حل کرنے کےلیے قومی اور عالمی سطح پر سرگرمیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں