عالمی ایجنڈہ 145

روس کے شام پر حملے اور خطے پر اس کے اثرات

390442
 عالمی ایجنڈہ 145

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے فوراً بعد شام کی خانہ جنگی میں غیر معمولی حرکات و سکنات شروع ہوئیں۔ ا ن کاروائیوں کے وسط میں روس کے شام پر فضائی حملے جگہ پا رہے ہیں۔ ان فوجی کاروائیوں کے بین الاقوامی قوانین اور انسداد دہشت گردی کے خلاف بحث و مباحثہ کے پہلو کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ اصل سوال یہ اٹھتا ہے کہ روس نے یہ کاروائی کیوں شروع کی ہے اور اس کے پیچھے کونسا مقصد کار فرما ہے؟ اگرچہ روس نے داعش کے خلاف جدوجہد کرنے کا کہا ہے تو بھی عمل درآمد کا جائزہ لینے سے ایسا نہ ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔ کیونکہ ان حملوں کے دوران داعش کے علاوہ کے مخالفین کے ٹھکانوں کو نشانہ بنائے جانے اور بھاری تعداد میں عام شہریوں کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ملی ہیں۔ روس ایک جانب داعش کے خلاف نام نہاد طور پر جدوجہد کر رہا ہے تو دوسری جانب یہ عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کو بھی مرتکب ہو رہا ہے۔ اس صورتحال نے عالمی رائے عامہ میں سنگین خدشات پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ داعش کے خلاف جنگ کرنے و الے 7 مملکتی اتحاد کو بھی بے چین کیا ہے۔ ترکی، امریکہ، فرانس، برطانیہ ، جرمنی، قطر، سعودی عرب کی طرف سے جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں مذکورہ آپریشنز سے عدم استحکام اور انتہا پسندی کو مزید شہہ ملنے کا دعوی کرتے ہوئے روس کو خبر دار کیا گیا ہے۔ اب تک کے رد عمل میں سے سخت ترین فطری طور پر ترکی کا رد عمل تھا۔ کیونکہ آپریشنز کے دوران ایک روسی جنگی طیارہ کچھ دیر کے لیے ترک فضائی حدود میں گھس آیا، جس نے معمولی سطح کی کشیدگی پیدا کی۔ صدر رجب طیب ایردوان نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا ہے کہ روسی فوجی کاروائیاں اور خلاف ورزیاں آگ سے کھیلنے کا مفہوم رکھتی ہیں، اس نے شام، ترکی اور خطے کی سلامتی کو خطرے میں ڈالا ہے۔
۔
روسی فضائی آپریشنز اور بعد کی صورتحال انتہائی سنجیدہ سطح کی ہے جو کہ شام اور علاقائی توازن کے اعتبار سے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ اس پیش رفت کا تین پہلووں سے جائزہ لینا ممکن ہے۔ یہ تین پہلو کچھ یوں بیان کیے جا سکتے ہیں: روس کی یوکیرین کے بعد اب شام میں عمل درآمد کردہ فوجی طاقت پالیسیوں کی جائز حیثیت اور حدود کیا ہیں؟ روس کا اپنی طاقت کا بے ہنگم طریقے سے مظاہرہ کرنا شام ، خطے اور عمومی طور پر عالمی سطح پر کس قسم کے اثرات مرتب کرے گا؟ اور اس پیش رفت پر نیٹو اور مغربی اتحاد پر اعتماد اور ان کے خلاف کس نوعیت کا رد عمل سامنے آئے گا؟
اولین طور پر مذکورہ فوجی کاروائیوں پر کھلم کھلا بحث چھیڑنا ممکن ہے۔ روس نے چاہے جس قدر بھی بمباری کو اپنی طرف سے سرکاری حیثیت دی جانےو الی اسدانتظامیہ کے مطالبے پر سر انجام دینے کا اعلان کیا ہے تو بھی معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ان کو کالعدم قرار دیتی ہیں۔ جنگی قواعد کی روشنی میں حالت جنگ میں عام شہریوں کی ہلاکت کو ممنوع قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسری جانب اس آپریشن کو حق بجانب قرار دینے کے لیے اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو مد نظر رکھنا ضروری تھا لیکن اس حوالے سے کسی متفقہ فیصلے کی کمی تھی ممکن ہے کہ روس نے سلامتی کونسل کی قرار دادوں کو شام میں حملوں کا جواز بنایا ہو تاہم اس بات میں سچائی کم نظر آتی ہے کیونکہ کسی بھی ملک کے خلاف قدم اٹھانے سے پیشتر کونسل کے رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنا ضروری ہوتاہے۔
دوسری جانب صدر پوٹین نے جنرل اسمبلی اور دیگر مقامات پر بارہا اپنے بیانا ت میں شام کی خانہ جنگی کو سیاسی و سماجی طریقوں سے حل کرنے کی ضرور ت کا برملا اظہار کیا تھا ۔ یوکرین کی خانی جنگی کے برے نتائج بھِ شام کے خلاف آپریشن کے بارے میں خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔ روس نے یوکرین کے علاقے کریمیا پر قبضہ کرتےہوئے اسے اپنے ساتھ شامل کرلیا جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلم کھلا خلا ف ورزی تھی اور اب یہی معاملہ شام میں در پیش ہے ۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ روس کے شام میں حملوں کا علاقے اور عالمی سلامتی پر کیا اثر پڑے گا کیونکہ یہ حملے ابھِ اپنے ابتدائی دور میں ہیں کہ جن کی وجہ سے خطے میں ویسے ہی ماحول کشیدہ نظر آتا ہے ۔ روس نے سات ممالک کی مخالفت مول لےلی ہے بالخصوص ترکی کو اس حوالے سے کافی خدشات لاحق ہیں۔اس صورت حال سے خطے کا سیاسی و عسکری توازن بگڑ سکتا ہے جبکہ معیشت کی کشتی بھی منجدھار میں پھنس سکتی ہے ۔ داعش کے خلاف روسی موقف اور حرکات عالمی طاقتوں کے درمیان نئی خلیج تخلیق کر سکتی ہیں جبکہ مشرق وسطی کاجغرافیائی محل وقوع موجودہ بحران کو مزید تقویت دینے کا بھی موجب بن سکتا ہے جو کہ کسی بڑی محاذ آرائَی کی راہ پیدا کر کے ہی دم لے گا ۔
ماضی کی سرد جنگوں کی طرح مشرق و مغرب کے درمیان اس صورت حال سے ایک نئی جنگ شروع ہو سکتی ہے جس کے ایک جانب روس اور اس کے عرب اتحادی ممالک جبکہ دوسری جانب امریکہ اور نیٹو کے زیر حمایت ممالک شامل ہو سکتے ہیں۔ اس نئے منظر نے عالمی سیاسی میدان میں ایک ہلچل پیدا کر دی ہے جبکہ نیٹو ممالک کے لیے بھی مشکلات کا پہاڑ کھڑا کر دیا گیا ہے۔ مغربی دنیا اور نیٹو روس کے خلاف کسی بھی قسم کا اقدام اٹھانے سے کترا رہے ہیں جو کہ کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے لیکن فی الحال اس بات کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔

 

 

 


ٹیگز:

متعللقہ خبریں