عالمی ایجنڈا۔138

335970
عالمی ایجنڈا۔138

سترہ اگست کو ترکی میں ہولناک زلزلے کی 16 ویں برسی منائی گئی ۔17 اگست 1999 میں ترکی کے علاقے یا لووا اور جوار میں 7٫8 کی شدت کا ہولناک زلزلہ آیا ۔ جس کے نتیجے میں ہزاروں انسان ہلاک اور ہزاروں بے گھر ہو گئے ۔اس زلزلے کے بعد کئی میلین انسانوں کو نفسیاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔ زلزلے کے مراکز اقتصادی ،صنعتی، سماجی اور ڈیموگرافک لحاظ سے ترکی کے اہم ترین علاقے مارمرا میں موجود ہیں ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ زلزلے کی پٹی پر واقع استنبول جہاں 15 میلین انسان آباد ہیں زلزلے سے خوفزدہ ہیں ۔ زلزلے کے ماہرین استنبول میں زلزلہ آ نے اور ضروری تدابیر اختیار کرنے کے معاملے میں مسلسل خبردار کر رہے ہیں ۔
زلزلہ کرہ ارض کی قدرتی حرکت ہے جو اس پر بسنے والےانسانوں کے لیے خطرہ پیش کرتی ہے ۔ زلزلے کے ماہرین کیمطابق زلزلے کی پٹی پر واقع علاقے کے انسانوں کے لیے زلزلہ ان کی زندگی کا ناگزیر عنصر ہے اور وہ اس حقیقت کیساتھ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ زلزلے کرہ ارض کے ناگزیر حصے ہیں۔ بارش،برفباری ،طوفان، گرمیوں ،سردیوں جیسی قدرتی حرکات کیطرح زلزلے بھی قدرت کا ایک حصہ ہیں اور قران کریم میں زلزلے نام کی ایک سورہ بھی موجود ہے ۔
اصل مسئلہ زلزلے کا نہیں ہے بلکہ انسانوں کیطرف سے زلزلے سےبچاؤ کے لیے ضروری تدابیر اختیار نہ کر نا ہے ۔انسان جسطرح بارش، برفباری اور طوفان جیسی قدرتی آفات سے بچنے کے لیے محفوظ عمارتیں تعمیر کرتے ہیں اور بغیر کسی خوف و خطر یہاں پر زندگی بسر کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں بالکل اسی طرح انھیں زلزلے سے بچاؤ کے لیے بھی مضبوط عمارتیں تعمیر کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر عمارتیں زلزلے کے جھٹکوں کی شدت کا مقابلہ کرنے کی حد تک مضبوط نہیں ہونگی تو انسان زلزلے سے ہلاک ہوتے رہیں گے ۔ مثلاً جاپان میں جو زلزلوں کا علاقہ ہے بڑی شدت کے زلزلوں میں بھی بہت ہی کم نقصان ہوتا کیونکہ انھوں نے زلزلے کا مقابلہ کرنے کے لیے اہم تدابیر اختیار کر رکھی ہیں ۔
مارمرا یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر رمضان گیوزین کا اس موضوع پر جائزہ۔۔
زلزلے کی پٹی پر واقع ممالک میں ترکی بھی شامل ہے ۔ترکی میں کئی صدیوں سے بڑی شدت کے زلزلے آتے رہے ہیں اور ماہرین کیمطابق زلزلوں کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہے گا ۔ ترکی اور استنبول جیسے خوبصورت علاقے میں زلزلے کا خطرہ موجود ہےلیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ گزشتہ صدی میں صنعتی، شہری منصوبہ بندی اور جمہوری بننے کے عمل کے دوران زلزلے کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تدابیر نہ اختیار کی گئیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان تدابیر کو صرف زلزلے کے مسئلے کی نظر سے نہیں بلکہ ترقی کی جدوجہد کی نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ ترکی جس قدر ترقی کرئے گا زلزلے جیسی قدرتی آفات کا اتنی ہی آسانی سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا مالک بن جائے گا ۔ اگر ترکی کی ایک سو سالہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ترکی نے جوں جوں ترقی کی منازل طے کی ہیں ہے وہ زلزلے کا مقابلہ کرنے میں بھی کامیاب ہو اہے ۔
ترکی نے 17 اگست 1999 کے ہولناک زلزلے کی تباہ کاریوں کے بعد 2000 کی دھائی میں ترقی کرنے کیساتھ ساتھ زلزلے کیخلاف جدوجہدو میں اہم اور موثر اقدامات کیے ہیں ۔ زلزلے کیخلاف جدوجہد کے ادارے تشکیل دئیے ہیں جن میں ہنگامی حالات اور قدرتی آفات انتظامیہ کا ادارہ قابل ذکر ہے ۔ زلزلے کے بعد تعمیراتی اصولوں میں جدت پیدا کی گئی اور تعمیرات کے کنٹرول میں سختی پیدا کی گئی ۔ انسانوں کو یہ بتایا گیا کہ وہ زلزلے کے دوران اور زلزلے کے بعد اپنے آپ کو کس طرح محفوظ رکھیں ۔نئے زلزلوں کے تخمینوں کے لیے سائینسی تحقیقات کی گئیں ۔
بلاشبہ زلزلے سے بچاؤ کے لیے اپنائی جانے والی تدابیر بیورکریٹک ، مقامی اور سیاسی وجوہات کیوجہ سے حسب خواہش سطح پر نہیں پہنچ سکی ہیں ۔ اقتصادی، سماجی اور فنی مالیت کے بہت زیادہ ہونے کیوجہ سے نئے شہر قائم کرنے کے بعض منصوبوں کو عملی جامہ نہیں پہنایا جا سکا ہے ۔
دراصل زلزلے کیخلاف جدوجہد کی اہم ترین شرط کا تعلق انسانوں کا فردی اور اجتماعی طور پر سماجی طرز زندگی کو رخ دینے سے ہے ۔انسانوں کے محتاط ،منظم اور ضمانتی زندگی گزارنے کازلزلے کیخلاف تدابیر سے گہرا تعلق پایا جاتا ہے ۔ یعنی انسانوں کی معیار زندگی جس قدر بلند اور کامیاب ہوگا وہ زلزلے کے بارے میں اسی قدر محفوظ اور بے خوف ہونگے ۔ اگر ایک دوسرے نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو مشہور انسانی ترقی کے انڈیکس ایچ ڈی آئی اور زلزلوں کے مقابلے کے درمیان موجود رابطہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔ ایچ ڈی آئی معیار جس قدر بلند ہو گا زلزلے کے مقابلے میں انسان اسی قدر طاقتور ہو نگے ۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں