اقبال اور عاکف ۔ 12

علامہ محمد اقبال اور محمد عاکف کے ہاں تصور تعلیم

289365
اقبال اور عاکف ۔ 12

پروگرام "اقبال اور عاکف" کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں۔ گذشتہ پروگرام میں ہم نے آپ کے ساتھ اقبال اور عاکف کے ہاں تصور تعلیم کے بارے میں آپ کے ساتھ گفتگو شروع کی تھی جسے ہم آج کے پروگرام میں بھی جاری رکھیں گے۔
اقبال کے مطابق علم کی ترقی کے ساتھ ساتھ آدمی کی آدمیت پر اچھااثر پڑنا چاہیے، علم کی گہرائی اور وسعت کے مطابق آدمی کے احساساتاور نظریات میں لطافت و کشادگی واقع ہونا چاہیے اور اس میں بقدر علم بہتر سے انداز میں زندگی بسر کرنے کی اہلیت پیدا ہونی چاہیے۔ فرماتے ہیں۔


آگہی از علم و فن مقصود نیست
غنچہ و گل از چمن مقصود نیست
علم از سامان حفظ زندگی است
علم از اسباب تقویم خودی است


یعنی علم و فن کا مقصد محض معلومات نہیں، اسی طرح چمن سے صرف غنچہ و گل حاصل کرنا مقصود نہیں۔ بلکہ علم زندگی کی حفاظت کا سامان ہے اور خودی کو مستحکم کرنے کے اسباب میں سے ایک سبب ہے۔
اقبال کے نزدیک علم کے ذریعے رزق کے بہتر وسائل میسر آ جاتے ہیں، علم کی وساطت سے بہتر ہتھیار ہاتھ لگ جاتے ہیں ، علم کی وساطت سے آرام و آسائش اور گونا گوں لذتوں کے اسباب مہیا ہو جاتے ہیں لیکن اس سب کچھ کا حاصل ہو جانا کسی کے بہتر انسان ہونے کی دلیل نہیں بلکہ عین ممکن ہے کہ ایک نا تربیت یافتہ شخصیت علم کی تن پروری کا ذریعہ بنا کے اپنی تباہی کا سامان پیدا کر لے۔ فرماتے ہیں۔


علم را بے سوز دل خوانی شر است
نور او تاریکی بحر و بر است


یعنی علم کو دل میں جگہ دو تو وہ مددگار اور دوست ہے اور اس سے تن پروری چاہو تو سانپ ثابت ہو گا۔
ایک اور جگہ فرماتے ہیں۔


دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں


اقبال کے نزدیک تعلیم کا اصلی مقصد خودی کی نشوونما کرنا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب تعلیم محض نوکری حاصل کرنے کا وسیلہ نہ بلکہ مذہب و اخلاق کی بھی حامل ہو۔ اقبال کے نزدیک موجودہ نظام تعلیم مذہبی و اخلاقی تعلیم سے بالکل خالی ہے اور نہ صرف خالی ہے بلکہ مذہب و اخلاق کی بیخ کنی کرتا ہے۔ فرماتے ہیں۔


اور یہ اہل کلیسا کا نطام تعلیم
ایک سازش ہے فقط دین و مروت کے خلاف


اقبال کے نزدیک رسمی تعلیم کو اس غیر رسمی تعلیم کا زینہ ہونا چاہیے جو فرد میں یقین و خود اعتمادی کی صفات پیدا کر کے اسے ارتفاع انسانیت اور معراج بشریت سے ہم کنار کردیتی ہے ۔لہذا ایسے اعلٰی مقاصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ تعلیم کا ماحول ان عناصر سے پاک ہو جو طالب علم میں محکومانہ یا غلامانہ ذہنیت پیدا کر سکتے ہوں خواہ یہ غلامی و محکومی سیاسی و سماجی ہو یا نفسیاتی و معاشی۔ مشرق کے نظام تعلیم کو آپ اسی لئے غیر موئثر اور بے روح خیال کرتے ہیں کہ وہ حاکم قوموں کا زائیدہ و مرتبہ ہے اور طالب علموں میں حریت و آزادی کی روح پھونکنے کے بجائے انہیں بے عملی یاسیت ، محرومی اور غلامانہ ذہنیت کا شکار بناتا ہے ۔ اس سلسلے میں اقبال کو مدرسہ ، اساتذہ اور طلبہ سب سے شکایت ہے کہ وہ ان تعلیمی مقاصد کو پورا نہیں کر رہے جن کا تعلق فرد و جماعت کو خوف و محرومی کے جذبات سے ازاد کرنے اور ان میں عمل و یقین و سعی و جہد کی تازہ امنگیں پیدا کرنے سے ہے۔فرماتے ہیں۔


اقبال یہاں نام نہ لے درسِ خودی کا
موزوں نہیں مکتب کے لئے ایسے مقالات


مکتبوں میں کہیں رعنائی افکار بھی ہے؟
خانقاہوں میں کہیں لذت اسرار بھی ہے؟


کس کو معلوم ہے ہنگامہ فردا کا مقام
مسجد و مکتب و میخانہ ہیں مدت سے خموش


اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ


ایسی ہی تعلیم کا اثر ہے کہ نوجوان یاس و محرومی کا شکار ہیں نہ ان میں جوش عمل ہے نہ جذبہ خودداری ۔
عاکف کے نزدیک بھی علم محض نظر کی تازگی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے دل کے مرض کا بھی علاج بننا چاہیے۔ عاکف مسجدوں میں وعظ و نصیحت کو بھی تعلیم کا ایک ذریعہ خیال کرتے ہیں لیکن واعظ کی شخصیت میں بھی آپ کو تازگی فکر نظر نہیں آتی ۔آپ کے نزدیک ان واعظوں کا کام قوم کو کفر کا ڈراوا دینے کے سوا کچھ نہیں اور اس کا سبب ان کی کم علمی اور بے بصری ہے۔
واعظ جنہوں نے ساری عمر مدرسے اور مکتب کی شکل نہیں دیکھی ان کا علمی سرمایہ تین چار رٹی رٹائی احادیث اور پانچ چھ کہانیوں کے سوا کچھ نہیں، جب سے یہ اُمی واعظ مسجدوں کے منبر پر آئے ہیں ملت مرحوم نے دین کو ہّوا سمجھنا شروع کر دیا ہے۔
در حقیقت عاکف ایسے علم کو جو دین سے بے بہرہ ہو اور ایسے دین کو جو تازگی فکر سے محروم ہو ملی زندگی کے لئے زہر قاتل سمجھتے ہیں آپ اس علم کے متمنی ہیں جو ایمان سے ہم آہنگ ہو ، کہتے ہیں۔


ہاں عہد کے نوجوانوں کو علوم سکھائیں
مگر مقدسات کو بھی بہت محترم رکھیں


اگرچہ اقبال نے مدرسہ و اہل مدرسہ یا مروجہ نظام تعلیم پر طنز و تنقید کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اقبال علم و فن یا اساتذہ و تعلیم کی اہمیت و افادیت محسوس نہیں کرتے۔ وہ خود اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے اور شراب علم کی لذت کے لئے کشاں کشاں مشرق سے مغرب پہنچے تھے۔ مغربی تعلیم کی تمام تر مادیت پرستی اور اخلاق و بصیرت سے عاری عقلیت کے باوجود آپ نے مغربی تعلیم کے تعمیری پہلو کی تعریف کی ہے اور مسلمان نوجوانوں کو اس تعلیم کی ظاہریت سے مرعوب ہوئے بغیر اس کے باطن کا حاصل کرنے کی ترغیب دی ہے۔مثلاً ایک جگہ فرماتے ہیں۔


فردوس جو تیرا ہے کسی نے نہیں دیکھا
افرنگ کا ہر قریہ ہے فردوس کی مانند


مسلمانوں کی کم علم اور جاہل رہنا بھی ان کو گوارا نہیں تھایہی وجہ ہے کہ جب 1907 میں علیگڑھ کے طلباء میں یورپین اساتذہ کے خلاف احتجاج کیا تو اقبال نے کیمبرج سے اس تحریک کے خلاف یہ شعر لکھ کر بھیجا۔


بادہ ہے نیم رس ابھی شوق ہے نا رسا ابھی
رہنے دو خم کے سر پہ تم خشت کلیسا ابھی


ٹیگز:

متعللقہ خبریں