دو براعظم ایک شہر استنبول: ناصر عزیز

دو براعظم ایک شہر : استنبول

263765
 دو براعظم ایک شہر استنبول: ناصر عزیز

استنبول
تاریخ میں قسطنطنیہ کے نام سے مشہور ترکی کا شہر استنبول انگریزی میں Constantinople کے نام سے جانا جاتا تھا ۔یہ ترکی کا سب سے بڑااور یورپ کا دوسرا بڑا شہرہے اور اس کا ثقافتی و اقتصادی مرکز بھی ہے ۔استنبوال شہر صوبہ استنبول کا صدر مقام بھی ہے ۔آبنائے باسفورس اور اس کی قدرتی بندرگاہ شاخ زریں کے کنارے واقع ترکی کا یہ شمال مغربی شہر باسفورس کے ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیا کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے اس طرح وہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے ۔ استنبول تاریخ عالم کا واحد شہر جو تین عظیم سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے ۔شہر کو 2010ء کے لئے پیکس، ہنگری اور آسن، جرمنی کے ساتھ یورپ کا ثقافتی دارالحکومت قرار دیا گیا ہے ۔تاریخ میں شہر نے مکینوں کی ثقافت، زبان اور مذہب کے اعتبار سے کئی نام بدلے جن میں سے بازنطیم، قسطنطنیہ اور استنبول اب بھی جانے جاتے ہیں۔ شہر کو ”سات پہاڑیوں کا شہر “ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ شہر کا سب سے قدیم علاقہ سات پہاڑیوں پر بنا ہوا ہے جہاں ہر پہاڑی کی چوٹی پر ایک مسجد قائم ہے ۔

بازنطیم
بازنطیم دراصل میگارا کے یونانیوں نے 667 قبل مسیح میں آباد کیا تھا اور اسے اپنے بادشاہ بائزاس کے نام پر بازنطیم کا نام دیا۔ 196ء میں سیپٹیمیس سیویرس اور پیسکینیس نائیجر کے درمیان جنگ میں شہر کا محاصرہ کیا گیا اور اسے زبردست نقصان پہنچا۔ فتح حاصل کرنے کے بعد رومی حکمران سیپٹیمیس نے بازنطیم کو دوبارہ تعمیر کیا اور شہر نے ایک مرتبہ پھر کھوئی ہوئی عظمت حاصل کرلی۔

بازنطینی سلطنت کی حکمرانی

جامعہ ایاصوفیہ، جسے عجائب گھر کی شکل دے دی گئی ہے
بازنطیم کے پرکشش محل وقوع کے باعث 330ء میں قسطنطین اعظم نے مبینہ طور پر ایک خواب کے ذریعے مقام کی درست نشاندہی کے بعد اس شہر کو نووا روما (روم جدید) یا قسطنطنیہ (اپنے نام کی نسبت سے ) کے نام سے دوبارہ آباد کیا۔ نووا روما تو کبھی بھی عام استعمال میں نہیں آسکا لیکن قسطنطنیہ نے عالمی شہرت حاصل کی۔ یہ شہر 1453ء میں سلطنت عثمانیہ کے ہاتھوں فتح ہونے تک مشرقی رومی سلطنت کا دارالحکومت رہا۔ بازنطینی دور حکومت کے دوران چوتھی صلیبی جنگ میں صلیبیوں نے شہر کو برباد کردیااور 1261ء میں مائیکل ہشتم پیلیولوگس کی زیر کمان نیسیائی افواج نے شہر کو دوبارہ حاصل کرلیا۔روم اور مغربی رومی سلطنت کے خاتمے کے بعد شہر کا نام قسطنطنیہ رکھ دیا گیا اور یہ بازنطینی سلطنت کا واحد دارالحکومت قرار پایا۔ یہ سلطنت یونانی ثقافت کی علمبردار اور روم سے علیحدگی کے بعد یونانی آرتھوڈوکس عیسائیت کا مرکز بن گئی ۔ بعد ازاں یہاں کئی عظیم گرجے اور کلیسے تعمیر ہوئے جن میں دنیا کا سب سے بڑا گرجا ایاصوفیہ بھی شامل تھا جسے سلطان محمد فاتح نے فتح قسطنطنیہ کے بعد مسجد میں تبدیل کردیا۔اس شہر کے زبردست محل وقوع کی وجہ ہی سے یہ کئی زبردست محاصروں کے باوجود فتح نہ ہو سکا جن میں خلافت امویہ کے دور کے دو محاصرے اور پھر سلطنت عثمانیہ کے ابتدائی دور کے متعدد ناکام محاصرے شامل ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کا دور

قسطنطنیہ 1805ء
29 مئی 1453ء کو سلطان محمد فاتح نے 53 روزہ محاصرے کے بعد قسطنطنیہ کو فتح کرلیا۔ محاصرے کے دوران عثمانی افواج کی توپوں سے تھیوڈوسس ثانی کی قائم کردہ دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا۔ اس طرح استنبول بروصہ اور ادرنہ کے بعد سلطنت عثمانیہ کا تیسرا دارالحکومت بن گیا۔ترک فتح کے بعد اگلے سالوں میں توپ قاپی محل اور بازار کی شاندار تعمیرات عمل میں آئیں۔ مذہبی تعمیرات میں فاتح مسجد اور اس سے ملحقہ مدارس اور حمام شامل تھے ۔ عثمانی دور میں شہر مختلف مذاہب اور ثقافتوں کا مرکز رہا اور مسلمان، عیسائی اور یہودی سمیت مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کثیر تعداد یہاں رہائش پذیر رہی۔
سلیمان اعظم قانونی کا دور تعمیرات اور فن کا عمیق دور تھا جس کے دوران اس کے ماہر تعمیران سنان پاشا نے شہر میں کئی عظیم الشان مساجد اور عمارات تعمیر کیں۔
ترکی کے سلطان محمد فاتح کا پرشکوہ محل اور اسلامی تاریخ
پُر سکون ‘ گہرا نیلا پانی اور پانی کو چھو کر اُڑتے ہوئے پرندے۔ یہ پانی کہاں سے آتا ہے۔ یہ پرندے کہاں سے اُڑتے ہیں۔ یہ تیز ہوا کن ساحلوں کو چُھو کے یہاں پہنچتی ہے۔یہ آبنائے فاسفورس کا دلکش مقام ہے اور یہاں پر فاتح استنبوال کا خوبصورت محل بھی واقع ہے۔اس کی فضا میں یونان’ ایران’ روم ‘ ترک’ وسطی ایشیا اور یورپ’ ہر خطہ کی خوشبو مہکتی ہے۔ خواب ‘ جد وجہد ‘ آنسو’ آہیں’ جنگ اور خون’ اس محل کی دیواروں پہ ایک طویل کہانی درج ہے۔ تہذیبیں کیسے بنتی ہیں اور کیسے بگڑ جاتی ہیں۔ وقت کی دُھول میں صدیاں کیسے گم ہوجاتی ہیں۔ خلقِ خدا کس طرح ظلم کا نشانہ بنتی ہے اور بادشاہ کیا گل کھلاتے ہیں۔ 1453 میں جب سلطان محمد فاتح نے اس محل میں قدم رکھا تو یہ جگہ سلطنتِ روم اور عیسائیت کا مرکز تھی۔ سلطان محمد فاتح’ اکیس برس کا ایک بہادر نوجوان جس کا نام کانوں میں گونجتا ہے تو ایک حدیث کی بازگشت سنائی دیتی ہے:-:
وہ کون لوگ ہوں گے جو قسطنطنیہ کو فتح کریں گے ۔ وہ کیا شان دار سالار ہو گا جوا ن کی قیادت کرے گا۔
رسول اللہﷺنے صرف استنبول کی فتح کی ہی خوشخبری نہیں سنائی تھی،بلکہ احادیث نبویہ میں حضرت عمرو بن عاص کے تعمیر کردہ شہر‘‘فسطاط’’ اور حضرت عقبہ بن عامر کے تعمیرکردہ شہر ‘‘قیروان’’ کی فتح کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں،نیز بعض روایات میں ‘‘بصرہ’’ کی فتح کا بھی ذکر ہے،تاہم استنبول کی فتح کی بشارت کو خصوصی اہمیت اور امتیازی مقام حاصل ہے۔یہ بشارت مسندامام احمد اور مستدرک حاکم میں درج ذیل الفاظ سے منقول:‘‘ لتفتحنّ القسطنطنیۃ فلنعم الأمیر أمیرھا و لنعم الجیش ذلک الجیش’’ ‘‘تم ضرور قسطنطنیہ کو فتح کرو گے۔وہ لشکر اور اس کا سپہ سالار کیا ہی خوب لوگ ہوں گے" مسلمانوں کے ہاتھوں فتح کے بعد استنبول کو عالم اسلام میں بہت اہمیت حاصل ہو گئی اور وہ چہاردانگ عالم میں برسرپیکار اسلامی فوجوں کا مرکز بن گیا۔وہ ایک عالمگیر سلطنت کا پایۂ تخت قرار پایا اور یورپ کی دہلیز پر ایک مبارک اسلامی شہر کا نمونہ پیش کرنے لگا۔ان اسباب کی بنا پر اس نبوی بشارت کو غیرمعمولی اہمیت حاصل ہے۔ہر سال محفل صرۃ منعقد ہوتی،جس میں سلطان جلوس کے ہمراہ استنبول شہر کے باہر تک پاپیادہ جاتا تھا۔یہ جلوس سب سے پہلے آلِ رسول ﷺ پھر صحابہ کرام کی اولاد اور پھر مدینہ منورہ کے تمام فقراء کی خدمت میں قیمتی ہدایا پیش کرتا تھا۔ یہ تحائف سونے،چاندی،مرجان جیسے قیمتی پتھروں اور دیگر بیش قیمت ہدایا پر مشتمل ہوتے تھے۔ استنبول ہر سال مدینۃ الرسول اور صحابہ رضوان اللہ علیہم کے شہروں کی طرف تحائف بھیجنے کی سعادت سے بہرہ مند ہوتا تھا۔اس شہر نے مستقبل میں جو جلیل القدر خدمات پیش کرنی تھیں انہی کی بدولت رسول اللہﷺ نے کئی صدیاں پیشتر اس کی بشارت دے کر اس کا شاندار استقبال کیا فتح استنبول کے بعد مدینہ منورہ،دمشق اور بغداد اپنے بیٹے کی مروت و خوداری سے لطف اندوز ہونے والے والدین کی مانند ہو گئے اور استنبول نے ایک فرمانبردار بیٹے کی مانند اپنے والدین کی ذمہ داریوں کو اٹھا لیا۔اسلام کا جو نور مدینہ منورہ سے طلوع ہو کر بغداد و دمشق میں چمکا تھا وہ زمین کے باقی ماندہ تاریک حصوں کو منور کرنے کے لیے استنبول سے ضیاپاشی کرنے لگا۔فتح استنبول سے تاریخ کے ایک دور کا خاتمہ اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ ایک سے زائد مرتبہ بغداد کو بھی استنبول سے فتح کیا گیا۔سلطان مراد چہارم کے عہدِخلافت میں آخری بار ہونے والی فتح کے لیے فوجیں بھی استنبول سے ہی روانہ ہوئی تھیں،جن کی بدولت ایک بار پھر عالم اسلام کی شیرازہ بندی ہوئی۔اس قسم کی خدمات سرانجام دینے کی وجہ سے استنبول ایک بابرکت شہر بن گیا،نیز اس شہر نے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہونے سے پہلے بھی جلیل القدر صحابی اور رسول اللہﷺکے میزبان حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی میزبانی کی خدمت سرانجام دیں۔
تقدیر کی کرشمہ سازی دیکھئے کہ اس نے مدینہ منورہ میں رسول اللہﷺکی میزبانی کرنے والے صحابی کی میزبانی کرنے کا شرف استنبول کو بخشا۔سلطان محمد فاتح نے فتح استنبول کے فوراً بعد حتیٰ کہ جامع الفاتح کی تعمیر،آیاصوفیا کی مسجد میں تحویل اور استنبول کے لیے وضع کردہ دیگر منصوبوں پر کام کے آغاز سے بھی پہلے اس جلیل القدر صحابی کی قبر مبارک کی تلاش کا حکم دیا چنانچہ انہوں نے (فَکَشَفْنَا عَنکَ غِطَاء ک) کے مظہر عظیم ولی حضرت اق شمس الدین کو یہ کہتے ہوئے یہ ذمہ داری سونپی: ‘‘رسول اللہﷺ کی میزبانی کرنے والے اس جلیل القدر صحابی کی قبرتلاش کرو۔’’ انہوں نے کچھ ہی عرصے میں اسے تلاش کر لیا اور سلطان محمدفاتح نے اس صحابی کی قبر کے قریب عالم اسلام کی خوبصورت ترین مسجدتعمیر کرائی۔استنبول رسول اللہﷺکی اہم اور بیش قیمت امانت اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے۔جہاد کی غرض سے آنے والے اس صحابی کی برکت سے یہ شہر جہاد کی علامت بن گیا۔مجاہدین کے کتنے ہی لشکر یہاں سے روانہ ہوئے اور کتنی ہی فتح کی مہمات کا مرکز استنبول بنا۔ بعض اہل علم نے علم الحروف کی روشنی میں اس شہر کا نام آیت مبارکہ ﴿بَلدَۃً طَیِّبَۃً﴾ سے اخذ کیا ہے۔اسی لیے وہ اسے ‘‘بَلدَۃ طَاہِرَۃ’’ (پاکیزہ شہر) بھی کہتے ہیں۔یہ درست ہے کہ یہ بات انہوں نے سب سے پہلے ’’صنعاء‘‘ کے حق میں کہی تھی،لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سے مکہ معظمہ،مدینہ منورہ اور استنبول مقصود نہ ہوں۔مادی اور روحانی اعتبارسے بہت سے حسین پہلوؤں کا حامل یہ شہر بہت سے صحابہ کرام اور اولیائے عظام کی قبروں کو اپنی آغوش میں لیے ہوئے ہے۔اس پر ہر دم برکتوں کا نزول ہوتا رہتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ اس کا یہ بابرکت مقام برقرار رہے گا اور اگر حالیہ ایام میں اسے یہ مقام حاصل نہ بھی ہوا تو بھی ایک نہ ایک دن اسے یہ مقام حاصل ہو کر رہے گا اور اس کی فضائیں ایک بار پھر محمدی بادِنسیم سے معطر ہو جائیں گی۔کون جانتا ہے کہ رسول اللہﷺنے استنبول کے حق میں نہ جانے کتنے اسراروحکم کا مشاہدہ کیا ہو گا۔یہی وجہ تھی کہ آپﷺ نے کئی صدیاں پیشتر اس کی فتح کی خوشخبری سنا دی تھی۔گھوڑوںکے سموں سے اُڑتی ہوئی دھول اور پسینے سے شرابور چہرے۔ ترک سپاہیوں کی ہمت بندھاتا ہوا نوجوان سلطان محمد فاتح جسے ایک ہی دھن تھی کہ بس اس شہر کو مغلوب کرنا ہے ۔ محاصرے کے باون دن ۔ عزم و ہمت اور بہادری کی انوکھی داستان۔ بالآخر فصیل ِ شہر میں شگاف نمودار ہوتے ہیں۔ وہ فصیل جو دو ہزار برس سے قائم تھی منہدم ہوتی ہے۔ ایک سلطنت اختتام کو پہنچتی ہے اور ایک نیاسورج طلوع ہوتا ہے۔ ماضی کی راکھ پہ محمد فاتح کی تلواررواداری کا پیغام تحریر کرتی ہے۔ کبھی کبھی تلوار کی لکھی ہوئی تحریر بھی امر ہوجاتی ہے۔ سلطان محمد فاتح کی تلوار نے انسانی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کردیا۔ عیسائیت کا ایک اہم چراغ گل ہوا ۔ اسے گل ہونا ہی تھا۔جب مذہب بادشاہوں کی کنیز بن جائے اورمنبر پر کم فہم مسندنشین ہونے لگیں توچراغ گل ہوجاتے ہیں۔سلطان محمد فاتح نے ماضی پہ گہر ی لکیر کھینچی اورقسطنطنیہ ہمیشہ کے لیے استنبول میں تبدیل ہوگیا۔ ایک عیسائی نے آنسو بہاتے ہوئے کہا
“There has never been and there will never be a dreadful happening”
تاریخ بتاتی ہے کہ اتنی بڑی فتح کے بعد خون کی ندیاں بہنے لگتی ہیں۔نفرت اور انتقام کے شعلوں میں گھرے بچے ‘ بوڑھے ‘ عورتیں کہیں پناہ نہیں پاتے لیکن سلطان محمد فاتح نے اس عظیم الشان فتح کے بعد تلوار نیام میں ڈالی اور قسطنطنیہ کے باسیوںکو سلامتی اور امن کا پیغام دے دیا۔ یہ ایک حیران کن بات تھی ۔اہلِ یورپ نے ایسا سلوک پہلے نہیں دیکھا تھا۔ یہی کچھ فتح مکہ کے دن ہوا تھا۔ اسی کی کچھ جھلک فتحِ قسطنطنیہ کے روز بھی دیکھنے کو ملی۔ رواداری کا یہی پیغام اسلام کی اصل روح ہے۔اس دین کا خمیر ہی سلامتی سے اٹھاتھا۔اس واقعے کو صدہا برس گذر گئے۔ سلطنت ِ عثمانیہ سات سو برس تک قائم رہی اور پھر ایک روز اس کی عظمت بھی خاک میں مل گئی ۔ترک جمہوریہ کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آیا ۔ ماضی کے بجھتے ہوئے چراغوں میں ایک نئی لو نے انگڑائی لی لیکن مذہبی رواداری کی اس روایت پہ حرف نہیں آیا۔ نہ عبادت گاہوںپہ پہرے’ نہ مذہب کے نام پہ خون کے دھبے ‘ نہ دھماکے اور قتل و خون۔ کسی شخص کو اس لیے معتوب نہ ٹھیرایا گیا کہ وہ کسی اور خدا کی پرستش کرتا ہے۔سلطان محمد فاتح نے یورپ کو سکھایا کہ فاتح مفتوحین کے ساتھ کیسا سلوک کرتے ہیں۔ تاریخ محوِ حیرت تھی اور لوگ انگشت بدنداں۔ استنبول سلطنت عثمانیہ کا دارالحکومت بنا اور دنیا بھر سے عیسائی اوریہودی یہاں کا رخ کرنے لگے۔ ایک پُرامن شہر دنیا کے نقشہ پہ ابھرا۔”گورے کو کالے پر اور عربی کو عجمی پر کوئی فضلیت نہیں۔ عظمت کا معیار رنگ اور نسل نہیں’ تقویٰ ہے”۔ یہ شہران درخشاں اصولوں پہ تعمیر ہوا جو پہلی بار خطبہ حجتہ الوداع میں بیان ہوئے۔ سات سو سال تک قائم رہنے والی سلطنت کی عظمت کا ایک بڑا راز مذہبی رواداری بھی تھا۔


جمہوریہ ترکی

برج غلطہ سے شاخ زریں کا ایک دلکش منظر
1950ء کی دہائی میں عدنان میندریس کی حکومت کے دوران ملکی ترقی کے لئے کئی کام کئے گئے اور ملک بھر میں نئی سڑکیں اور کارخانے تعمیر ہوئے ۔ 1970ء کی دہائی میں شہر کے مضافات میں قائم نئے کارخانوں میں ملازمت کی غرض سے ملک بھر سے عوام کی کثیر تعداد استنبول پہنچی جس نے شہر کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ آبادی میں تیزی سے اضافے کے بعد تعمیراتی شعبے میں بھی انقلاب آیا اور کئی مضافاتی دیہات توسیع پاتے ہوئے شہر میں شامل ہوگئے ۔
محلِ وقوع

باسفورس پل اور یورپی علاقے میں بلند عمارات
استنبول آبنائے باسفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے اس طرح وہ دو براعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے ۔ شہر کا مغربی حصہ یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے ۔ شہری حدود ایک ہزار 539 مربع کلومیٹر تک ہیں جبکہ صوبہ استنبول 5 ہزار 220مربع کلومیٹر پرمحیط ہے ۔شہر میں موسم گرما گرم اور پرنم جبکہ سردیوں میں بارش اور کبھی کبھار برف باری کے ساتھ شدید سردی پڑتی ہے ۔ شہر میں سالانہ اوسطاً 870 ملی میٹر بارش پڑتی ہے ۔ موسم سرما کے دوران اوسطاً درجہ حرارت 7 سے 9 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے جس کے دوران برف باری بھی عموماً ہوتی رہتی ہے ۔ جون سے ستمبر تک موسم گرما کے دوران دن میں اوسطاً درجہ حرارت 28ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے ۔سال کاگرم ترین مہینہ جون ہے جس میں اوسط درجہ حرارت 23.2ڈگری سینٹی گریڈ ہے جبکہ سال کا سرد ترین مہینہ جنوری ہے جس کا اوسط درجہ حرارت 5.4 ڈگری سینٹی گریڈ ہے ۔ شہر میں سب سے زیادہ حرارت اگست 2000ء میں 40.5ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔
آبادی میں اضافہ

اورتاکوئے مسجد اور باسفورس پل، رات کے وقت
استنبول کی آبادی 1980 سے لیکر اب تک تین گنا سے بھی زیادہ ہوگئی ہے ۔ اندازاً 70فیصد سے زائد شہری استنبول کے یورپی حصے میں جبکہ 30 فیصد ایشیائی حصے میں رہتے ہیں۔ جنوب مشرقی ترکی میں بے روزگاری میں اضافے کے باعث خطے کے لوگوں کی اکثریت استنبول ہجرت کرگئی جہاں وہ شہر کے نواحی علاقوں غازی عثمان پاشا، ضیا گوک الپ و دیگر میں قیام پذیر ہوگئی۔
تعلیم
ترکی میں اعلیٰ تعلیم کے بہترین اداروں میں سے چند استنبول میں واقع ہیں جن میں سرکاری و نجی جامعات بھی شامل ہیں۔ اکثر معروف جامعات سرکاری ہیں لیکن حالیہ چند سالوں میں نجی جامعات کی تعداد میں بھی اضافہ ہواہے ۔ معروف سرکاری جامعات میں استنبول تکنیکی جامعہ، باسفورس جامعہ، غلطہ سرائے جامعہ، استنبول جامعہ، مارمرہ جامعہ، یلدیز تکنیکی جامعہ اور معمار سنان فنون لطیفہ جامعہ شامل ہیں۔
لائبریریاں
• سلیمانیہ کتب خانہ
• استنبول چلک گولرسوئے کتب خانہ
• توپ قاپی محل کتب خانہ
• آرکیولوجیکل میوزیم کتب خانہ
• اتاترک کتب خانہ
• گوئٹے انسٹیٹیوٹ کتب خانہ
• امریکن کتب خانہ
اقتصادیات

لیونت میں قائم بلند عمارات
استنبول اپنے بہترین محل وقوع اور زمینی و بحری راستوں کے بین الاقوامی اہمیت کے باعث ہمیشہ ہی سے ترکی کی اقتصادیات کا مرکز رہا ہے ۔ ترکی کے صنعتی مزدوروں کا 20 فیصد استنبول میں روزگار سے وابستہ ہے جبکہ شہر ترکی کے صنعتی شعبے کا 38 فیصد حصہ ادا کرتا ہے ۔ علاوہ ازیں شہر ترکی کی تجارت کا 55 فیصد اور تھوک تجارت کا 45 فیصد اور مجموعی قومی پیداوار کا 21.2 فیصد پیدا کرتا ہے ۔ ملک بھر میں محصولات کا 40 فیصد حصہ استنبول ادا کرتا ہے اور ترکی میں قومی مصنوعات کا 27.5 فیصد تیار کرتا ہے ۔

مسلک میں قائم بلند عمارات
استنبول ترکی کا صنعتی مرکز ہے ۔ ترکی کے کئی بڑے کارخانے یہیں واقع ہیں۔ استنبول اور اس کے نواحی علاقہ جات کپاس، پھل، زیتون کا تیل، ریشم اور تمباکو پیدا کرتے ہیں۔ شہر کی اہم مصنوعات میں غذائی مصنوعات، کپڑا، تیل، ربڑ، دھاتی اشیاء ، چمڑے کی اشیائ، کیمیکل، برقی مصنوعات، شیشہ، مشینری، کاغذ اور الکوحل کے مشروبات شامل ہیں۔ شہر میں گاڑیاں اور ٹرک بھی اسمبل کئے جاتے ہیں۔
استنبول کی معیشت کا ایک اہم شعبہ سیاحت بھی ہے ۔ شہر میں ہزاروں ہوٹل اور سیاحت سےمتعلقہ صنعتیں موجود ہیں۔
ذرائع نقل و حمل
شہر قومی و بین الاقوامی طویل الفاصلاتی ذرائع نقل و حمل کا مرکز ہے ۔شہر میں دو بین الاقوامی ہوائی اڈے قائم ہیں۔ بڑا ہوائی اڈہ اتا ترک بین الاقوامی ہوائی اڈہ شہر کے مرکز سے 24 کلومیٹر دور واقع ہے ۔ جدید ہوائی اڈہ صبیحہ گوکچن ہوائی اڈہ ایشیائی علاقے سے 20 کلومیٹر مشرق جبکہ یورپی علاقے سے 45 کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہے ۔سرکیجی اسٹیشن یورپی جانب تمام ٹرینوں کا آخری اسٹاپ ہے ۔ شہر سے صرف ایک طویل الفاصلاتی ٹرین روزانہ چلتی ہے جو رومانیہ کے دارالحکومت بخارسٹ تک جاتی ہے ۔ باسفورس کے پار حیدر پاشا اسٹیشن سے روزانہ انقرہ سمیت اناطولیہ کے دیگر شہروں کے لئے کئی ٹرینیں روانہ ہوتی ہیں۔ اب ان دونوں اسٹیشنوں کو فیری سروس کے ذریعے آپس میں جوڑدیا گیا ہے ۔

کانیون شاپنگ مال
ای 5، ای 90 اور ٹرانس یورپین موٹر وے یورپی سرحد سے ترکی اور مشرقی علاقوں کو جانے والے اہم ترین راستے ہیں۔ استنبول کے گرد موٹر وے کا جال انتہائی جدید ہے اور اسے مزید توسیع دی جارہی ہے ۔ موٹر ویز دارالحکومت انقرہ کے علاوہ ادرنہ کی جانب بھی جاتی ہے ۔ شہر کے گرد دو ایکسپریس ویز ہیں۔ پرانے ایکسپریس وے کو ای 5 کہا جاتا ہے کو زیادہ تر شہر کا اندرونی ٹریفک استعمال کرتا ہے جبکہ جدید ٹرانس یورپین موٹر وے بین البراعظمی یا بین البلادی ٹریفک استعمال کرتا ہے ۔ باسفورس پل اور فاتح سلطان محمد پل آبنائے باسفورس پر انہی دو ہائی ویز پر بنے ہوئے ہیں۔استنبول کی بندرگاہ ملک میں سب سے زیادہ اہم ہے ۔ شاخ زریں میں واقع قدیم بندرگاہ ذاتی جہاز رانی کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ یہاں سے بحیرہ روم میں یونانی جزائر اور کروشیا، وینس اور ناپولی،اٹلی، مارسے، فرانساور حیفہ، اسرائیل اور بحیرہ اسود میں یوکرین تک کے لئے بحری جہاز روانہ ہوتے ہیں۔

شہر کے معروف پل

باسفورس پل، پس منظر میں فاتح سلطان محمد پل بھی واضح ہے
• باسفورس پل
• فاتح سلطان محمد پل
• غلطہ پل


کھیل

اتاترک اولمپک اسٹیڈیم
اتا ترک اولمپک اسٹیڈیم ترکی کا سب سے بڑا اسٹیڈیم ہے ۔اسٹیڈیم نے 2005ء کی یورپی چیمپینز لیگ فائنل کی میزبانی کی تھی۔شکرو سرج اوغلو اسٹیڈیم نے2009ء میں UEFA کپ کے فائنل کی میزبانی کی تھی۔استنبول کئی فٹ بال ٹیموں کا شہر ہے جن میں ترکی کی سب سے قدیم کھیلوں کی تنظیم بیشکطاش بھی شامل ہے ۔ علاوہ ازیں غلطہ سرائے اور فنر باغچہ مشہور ترین ٹیمیں ہیں۔

شکرو سرج اوغلو اسٹیڈیم
استنبول فارمولا ون ترکش گراں پری، موٹر جی پی گراں پری، ایف آئی اے ورلڈ ٹورنگ کار چیمپیئن شپ،جی پی 2 اور لی مینز سیریز 1000 کلومیٹر ریس کی میزبانی کرتا رہتا ہے ۔ یہ تمام کھیلوں کے مقابلے استنبول پارک میں منعقد ہوتے ہیں۔دیگر کھیلوں میں باسکٹ بال، والی بال، گالف، شوٹنگ ،گھڑ سواری اور ٹینس بے حد معروف ہیں۔2014عالمی کب فٹ بال کے مقابلے براذیل میں جاری ہیں اوراستنبول کے عوام کا جنون دیدنی ہے حالانکہ ان مقابلوں کے لیے ترکی کوالیفائی نہ کر سکا مگراسنتبول کے لوگ زندہ دل ہیں اور وہ اپنے پسندیدہ کھیل سے بھلا کیسے پیچھے رہ سکتے ہیں۔


ٹیگز:

متعللقہ خبریں