دو براعظم ایک شہر: استنبول طاہر صدیق اور صادق اعظمی کے قلم سے

دو براعظم ایک شہر : استنبول

218605
دو براعظم ایک شہر: استنبول طاہر صدیق اور صادق اعظمی کے قلم سے

محمد صادق اعظمی ۔سعودی عرب

استنبول
قدیمی نام ۔ قشتنطنطنیہ
علاقہ ۔ مرمرہ
صوبہ ۔ استبول
گورنر ۔ معمر گولر
میئر ۔ قادر توپباش
بلندی ۔ ۱۰۰ میٹر
ایشیائ کوڈ۔ ۲۱۶
یورپی کوڈ ۔ ۲۱۲
ایک ایسا شہر جو آج بھی ترک تاریخ کے پہلے پنہّ پر نمایا ہے اورجو ۶۶۷ عیسامسیح قبل پر مشتمل ہے جسکو آج بھی ترقی میں تجارتی اقتصادی صنعتی اعتبار سے خصووصی درجہ حاصل ہے جغرافیائ روء سے اسکا رقبہ ۱۵۳۹مربع کلومیٹر پر محیط ہے اور جسکی آبادی ۲۰۰۶سنہ کی مردمشماری کے مطابق ۱۰۰۳۴۸۳۰ افراد پر مشتمل ہے اور جو دنیاں کا واحد شہر ہے جو دو برّآعظموں کے وسط میں واقع ہے مشرقی حصّہ ایشیائ علاقہ اناطولیہ اور مغربی حصّہ یورپی علاقہ تھریس سے ملتا ہے نیز اسکو عالمی اعزاز یہ بھی حاصل ہے کہ یہ دنیاں کا واحد ملک ہے جو ۳ عظیم سلطنتوں کا دارلہکومت رہا ہے شہر کے گرد و نواح ۷ پہاڑیاں ہونے کے باعث اسے ۷ پہاڑیوں کا شہر بھی کہتے ہیں
درج ذیل ۳ عظیم دارلحکومتیں

نمبر ۱ رومی سلطنت
نمبر۲ بازنطینی سلطنت
نمبر ۳ سلطنت عثمانیہ

رومی سلطنت ۳۳۰ ء سے۳۹۵ء تک قائم تھی
بازنطینی سلطنت ۳۹۵ء سے ۱۴۵۳ء تک قائم تھی
سلطنت عثمانیہ کا دور ۱۴۵۳ء سے ۱۹۲۳ تک رہا

دور حاضر میں کئ تاریخی مقامات کتب خانہ عجائب گھر اور تعلیمی ادارے شہرت کے حامل ہیں جسمیں ملکی غیر ملکی طلباء زیر تعلیم ہیں نمایا طور پر استنبول تکنیکی جامعہ باسفورس جامعہ رمرہ جامعہ یلدیز تکنیکی جامعہ اہم ہیں ماضی کی تاریخ کو کتاب کی شکل میں سمیٹے رہائشی شکل میں کئ نامور لائبریریاں اس شہر کی یاد دلاتی ہیں خصوصاً اتاترک کتب خانہ ارکیولوجیکل میوزیم کتب خانہ امریکن کتب خانہ آمدو رفت میں سہولت کی فراہمی کراتا تاریخی پل بھی اس شہر کی شان میں اضافہ کا باعث ہیں بالخصوص سلطان پل غلطہ پل باسفورس پل .
کھیلوں کو ترقی میں اولین ترجیحات میں شامل کیا جاتا رہا ہے اور اس شہر کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ ترقی کا سبے بڑا اسٹیڈیم اتا ترک اسٹیڈیم یہیں موجود ہے جسیں بیک وقت ۸۳ ہزار ۳۰۰ افراد کے بیٹھنے کی گنجائش ہے
موسم کے اعتبار سے یہ شہر عوام کو سردی گرمی برسات تينوں احساس سے لطف اندوز کراتا ہے موسم ِ سرماں میں درجہ حرارت ۷ سے ۹ ڈگری موسم ِ گرماں میں ۲۸ ڈگری کے آس پاس رہتا ہے اس شہر كو سرسبز بناتی بارش کی سرح اوسطاً ۸۷۰ ملی میٹر درج کی جاتی ہے تاریخ میں ایک بار سنہ ۲۰۰۰ میں یہاں درجہ حرارت 40.5 ڈگری درج ہے دور ِ حاضر میں قومی مصنوعات کا 21.2 فیصد تھوک تجارت کا 45 فیصد ترکی کی تجارت کا 55 فیصد صنعتی شعبہ کا 38 فیصد اور محصولات کا 40 فیصد حصہ اسنبول ادا کرتا ہے
یہاں خاص پیداوار میں کپاس پھل زیتون کا تیل ریشم کپڑا تیل ربڑ دھاتی اشیاء ہیں اور برقی مصنوعات میں شیشہ مشینری کاغز الکوہل بھی تیار کئے جاتے ہیں اور استنبول کی معیثت کا اہم شعبہ سیّاحت بھی ہے اور شہر میں ہزاروں ہوٹل اور سياحت متعلقہ صنعتیں موجود ہیں نیز اسکو مشہور بین القوامی ہوائ اڈہ یعنی سبسے بڑے اتا ترک ہوائ اڈہ سے بھی جانا جاتا ہے جو مرکز شہر سے 24 کلومیٹر پر واقع ہے یہاں موجود سرکجی اشٹیشن یورپی جانب سے آنے والی تمام ٹرینوں کا آخری اشٹیشن ہے اور اس شہر سے واحد ٹرین الفاصلاتی ٹرین رومانیہ کی دارالحکومت نجارسٹ تک جاتی ہے
آج بھی یہاں ان جانبازوں کو یاد کراتا قومی نشان ۱۱ میٹر کی بلندی کے ساتھ سر فہرست ہے جسے مصطفیٰ کمال پاشا نے ۱۹۲۳ میں تعیر کروایا تھا جسمیں سنگمرمر اور دھات پر کشیدہ کاری کے زریعہ ان تمام سپاہیوں کی تصویریں نصب ہیں جنہوں نےجمہوریت کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھاجسکو دیکھنے تمام دنیاں کے سیاح ہر روز اس شہر کا رخ کرتے ہیں اور جو ایک بار اس کا دیدار کرتا ہے وہ باربار استنبول کا رخ کرتا ہے کیونکہ استنبول تو استنبول ہے۔

 

 

طاہر صدیق ۔اسلام آباد
استنبول پر شكوہ عمارتوں فلك بوس پلازوں ، فائیو سٹار اور سیون سٹار ہوٹلوں، بل كھاتی شاہراہوں سرسبز باغوں اور لمبے مینار والی مسجدوں كا شہر اپنا خوبصورت حال ،شاندار مستقبل اور سنہری اور تابناك ماضی بھی ركھتا ہے – یہ منفرد اور ممتاز شہر ہے جو نہ صرف دو براعظموں میں واقع ہےبلكہ یہ تین عظیم سلطنتوں، رومی سلطنت،بازنطینی سلطنت، اورخلافت عثمانیہ کا دارالحکومت رہا ہے -سمندر كے كنارے آٰباد اس شہر كو نیلے پانی اور بھی خوبصورت بنا دیتے ہیں- پہلی نظر میں اس شہر كو دیكھنے سے ہی اس كے باسیوں كی تہذیبی بلندی كا اعتراف كر نا پڑتا ہے-استنبول كا نام لیتے ہی اسلامی تاریخ وجغرافیہ، سیاست وسماجت كا طویل ترین اور سنہری دور یاد آجاتا ہے- استنبول دراصل قسطنطنیہ كا نیا نام ہے اور یہ شہر اپنے زمانے كی سپر طاقت كا مركز تھا ۔ 29 مئی 1453ء كو سلطان محمد فاتح كے حسن انتظام اور كمال دلیری وشجاعت اور فہم وتدبر سےیہ شہر اسلامی دنیا كا عظیم مركز بنا–سلطان محمد فاتح اپنے تمام سپاہیوں سمیت نبی اكر م صلی اللہ علیہ وسلم كی اس خوشخبری كے مستحق ٹھہرے تھے كہ جو لشكر اس شہر كو فتح كرے گا وہ جنتی ہو گا –
محل وقوع
استنبول شہر باسفورس کے ایک جانب یورپ کے علاقے تھریس اور دوسری جانب ایشیاء کے علاقے اناطولیہ تک پھیلا ہوا ہے اس طرح یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دو براعظموں میں واقع ہے ۔ استنبول آبنائے باسفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے ۔ شہر کا مغربی حصہ یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیا میں ہے ۔ شہری حدود 1539 مربع کلومیٹر تک ہیں- تقریباً ستر فیصد سے زائد شہری استنبول کے یورپی حصے میں جبکہ 30 فیصد ایشیائی حصے میں رہتے ہیں۔
استنبول كا موسم
استنبول كا موسم انتہائی خوشگوار ہوتا ہے خاص طور پر موسم گرما میں جون سے ستمبر تک کے دوران میں دن كااوسط درجہ حرارت 28ڈگری سینٹی گریڈ رہتا ہے جب كہ رات كو 23 ڈگری سے زیادہ نہیں ہوتا ، موسم سرما کے دوران اوسط درجہ حرارت 7 سے 9 ڈگری سینٹی گریڈ تک رہتا ہے ۔
تعلیمی ادارے
استنبول كو جامعات كا شہر بھی كہا جاتا ہے ملك كے اہم ترین اعلی تعلیمی اداروں میں سے چند ایك استنبول میں واقع ہیں ۔ اکثر جامعات سرکاری ہیں ۔ جن میں استنبول تکنیکی جامعہ، باسفورس جامعہ، غلطہ سرائے جامعہ، استنبول جامعہ، مارمرہ جامعہ، یلدیز تکنیکی جامعہ اور معمار سنان فنون لطیفہ جامعہ شامل ہیں۔ استنبول تاریخی شہر ہونے كے ناطے نایاب كتابوں كا شہر بھی كہلاتا ہے یہاں دنیا كے اہم ترین كتب خانے موجودہیں بطور خاص اسلامی بنیادی كتب اور عربی ذخیرے كے نایاب نسخے موجود ہیں-
پیداوار
استنبول اور نواحی علاقے کپاس، پھل، زیتون کا تیل، ریشم اور تمباکو پیدا کرتے ہیں۔ شہر کی اہم مصنوعات میں غذائی مصنوعات، کپڑا، تیل، ربڑ، کیمیکل، برقی مصنوعات، شیشہ، مشینری، کاغذ ، دھاتی اشیاء ، چمڑے كی بنائی ہوئی چیزیں شامل ہیں۔
استنبول اور سیاحت
اپنے بیدار ماضی كے حوالے سے یہ شہر بہت معروف ہے چھوٹے سے مضمون میں وہ مقامات ذكر نہیں كئے جا سكتے جو سیاحوں كے لیے كشش كا باعث ہوتے ہیں مختصر یہ كہ سارا استنبول ہی ایك سنہری تاریخ كا سنہرا باب ہے اس لیے تو استنبول میں ہزاروں ہوٹل اور گیسٹ ہاؤس ہیں جو سال كے بارہ مہینے سیاحوں اور تاجروں سے بھرے رہتے ہیں ، یہ شہر اس لحاظ سے دنیا كا پہلا شہر ہونے كا اعزار گزشتہ سال اس وقت حاصل كر چكا ہے جب یہاں كے سیاحوں كی تعداد بتیس ملین سے تجاوز كر گئی ۔شہر میں دو بین الاقوامی ہوائی اڈے قائم ہیں۔ بڑا ہوائی اڈہ اتاترک بین الاقوامی ہوائی اڈہ مرکز شہر سے 24 کلومیٹر دور واقع ہے ۔ تعمیر کے وقت یہ شہر کے یورپی حصے کے ایک کونے میں تھا لیکن اب شہر کے اندر قائم ہے ۔ جدید ہوائی اڈہ صبیحہ گوکچن ہوائی اڈہ ایشیائی علاقے سے 20 کلومیٹر مشرق جبکہ یورپی علاقے سے 45 کلومیٹر دور مشرق میں واقع ہے ۔ شہر كے طول وعرض میں شرقاً غربا ًاور شمالاً جنوباً میٹرو بس اور میٹرو ٹرین كامیابی سے چلتی ہے اس سے شہریوں كے لیے بہت سہولتیں میسر ہوئی ہیں، نیز شہر كے یورپی حصے اور ایشائی حصے كو ملانے كے لیے بحری راستہ بھی اپنی تمام دلكشی اور خوبصورتی كے ساتھ موجود ہے ہزاروں كی تعداد میں لوگ سمندر سے آر پار جاتے ہیں، اب تو سمندر كے اندر سے بھی راستہ بنا دیا گیا ہے -موجودہ حكومت كی توجہ سے شہر میں كئی ایك سرنگیں بنادی گئی ہیں جن كی وجہ سے شہر میں نقل وحركت بہت آسان ہوگئی ہے -استنبول کے گرد انتہائی كشادہ اور بین الاقوامی معیار كی سڑكیں اور رنگ روڈ موجود ہیں ۔ شہر کے گرد دو ایکسپریس ویز ہیں۔ شاخ زریں میں واقع قدیم بندرگاہ ذاتی جہاز رانی کے لئے استعمال ہوتی ہے ۔ یہاں سے بین الاقوامی بحری سروس كے لیے جہاز روانہ ہوتے ہیں۔ سمند ركے یورپی اور ایشائی حصے میں انواع و اقسام كے جہاز ہمیشہ حركت میں رہتے ہیں كئی بحری بیڑے بھی حركت میں نظر آتے ہیں، جن سے سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں-



ٹیگز:

متعللقہ خبریں